Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دورہ ہند، آسٹریلوی ٹیم فتح کی امید نہ رکھے

 
 سولہ سال قبل اسٹیوواہ مسلسل15کامیابیوں کے ریکارڈ کےساتھ ٹیم کی قیادت کرتے ہو ئے ہند پہنچے تھے،اب ہندوستانی کپتان ویراٹ کوہلی مسلسل 18اور ممکنہ طور پر19فتوحات کے ساتھ اس کے منتظر ہونگے
 
اجمل حسین۔ نئی دہلی
 
سولہ سال پہلے جس وقت اسٹیو وا کی قیادت میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم ہندوستان کے دورے پر آئی تھی تو لگاتار15ٹیسٹ میچ جیت کے ریکارڈ کے ساتھ پہنچی تھی او ر3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ہی میچ ممبئی میں جیت کر لگاتار16ٹیسٹ میچ جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا لیکن اسی سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں جو کولکتہ میں کھیلا گیا ٹیم انڈیا نے فالو آن کرتے ہوئے وی وی ایس لکشمن کی 281رنز کی شاندار اننگز اور راہل دراوڑ کے ساتھ پانچویں وکٹ کےلئے378رنز کی پارٹنر شپ کی بدولت ٹیسٹ میچ 171رنز سے جیت کر پہلے تو آسٹریلیا کی متواترکامیابیوں کا سلسلہ توڑا اور پھر چنئی میں اسے اننگز سے شکست دے کر سیریز بھی 2-0سے جیت لی۔
اب وہی آسٹریلیا ،ہندوستان کے نئے کپتان ویراٹ کوہلی کی قیادت میں لگاتار 18اور بنگلہ دیش کے خلاف واحد ٹیسٹ جیتنے کی صورت میں19ٹیسٹ میچ میں کوئی میچ نہ ہارنے کے ریکارڈ پر بریک لگانے کے لیے ہندوستان پہنچ رہی ہے۔لیکن اس بات کے امکانات کم ہی لگ رہے ہیں کہ ہندوستانی ٹیم کی طرح آسٹریلیا بھی اس کی مسلسل19میچوں میں کوئی میچ نہ ہارنے کا سلسلہ توڑ دے گی کیونکہ کوہلی کی قیادت میں کامیابیوں کا جو دور چل رہا ہے اس سے تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ہندوستانی ٹیم ہوم سیریزہی کھیلتی رہی تو وہ 1982 سے 1984تک ویسٹ انڈیز کا لگاتار27ٹیسٹ میچوں میں ناقابل شکست رہنے کے ریکارڈ کوتوڑ یا برابر بھی کر سکتی ہے۔
جب اپنی پچوں پر کھیلتے ہوئے وہ انگلستان جیسی مضبوط اور ہر لحاظ سے متوازن ٹیم کو ٹیسٹ میچوں میں ایسی کراری شکست سے دوچار کر سکتی ہے تو آسٹریلیا جو سری لنکا سے لٹ پٹ کر آنے کے بعد جنوبی افریقہ سے بھی2-1سے ہار گئی تھی تو وہ ہندوستان کی ان پچوں پر کیسے کامیاب ہو گی جہاںہندوستانی اسپنروں کے آگے معروف اور مستند بلے بازوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور بولروں کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ ہر اوور کے بعدیہی دعا کرتے ہوں گے کہ کپتان کسی اور ساتھی بولر کو گیند تھما دے۔اس راز اور ہندوستانی ہتھیار سے آسٹریلیا بھی خوب واقف ہے کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ انگلستان کے خلاف ہندوستان کی ایسی شاندار کامیابی ہندوستانی پچوں کی مرہون منت ہی ہے۔ اب تک اس نے 18میچوں میں جو کامیابیاں حاصل کر کے ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے اس میں بھی دیسی پچوں کا زبردست عمل دخل رہا ہے کیونکہ صرف دو سیریز ہی برصغیر کے باہر کھیلی گئیں ۔وہ بھی ایک ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کے خلاف ،جو 27برس پہلے جو گری ہے تو آج تک اپنے پیروں پر پوری طرح کھڑی نہیں ہو سکی ، اور دوسری سری لنکا کے خلاف جہان کی پچیں بھی ہندوستانی پچوں کی سگی بہنیں ہیں۔
سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے خلاف جب آسٹریلیا کو کراری شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو یہاں تک کہہ دیا گیا کہ یہ آسٹریلیا کی کرکٹ کا بدتررین دور ہے۔ لیکن سلیکٹرزنے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ٹیم میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کیںاور پرانے کھلاڑیوں کو نکال رک نئے خون سے ٹیم کو سینچا،اب یہ نئے کھلاڑی یقیناً ہند کو اسی کے میدانوں پر سخت ٹکر دے سکتے ہیں اور شاید ریکارڈ بھی اچھا کر دیں۔ پاکستان کے خلاف انہوں نے اسپنرز اور فاسٹ اٹیک کا جس بے جگری سے مقابلہ کیا وہ در اصل ہندوستانی پچوں پر میزبان بولنگ اٹیک کے خلاف مزاحمت کا سلیقہ سیکھنے کے نصاب کا ایک اہم باب تھا۔ اسٹیو اسمتھ کے سامنے اگر سرزمین ہند پر گذشتہ 13سال سے کوئی ٹیسٹ میچ نہ جیتنے کا سلسلہ توڑنے کا چیلنج ہے تو وراٹ کوہلی کو اپنے پیشرووں کا آسٹریلیا کے خلاف 2004سے کوئی ٹیسٹ میچ یا سیریز نہ ہارنے کا سلسلہ برقرار رکھنے کا ہے۔لیکن آسٹریلیا چونکہ ایک مشن کے ساتھ آرہی ہے اس لیے ہندوستان آنے سے پہلے ہی آسٹریلیا کی پریکٹس کے لیے آسٹریلیا میں ہی ایسی پچیں تیار کی گئیں جیسی ہندوستان میں ہوتی ہیں اور جو آسٹریلیا کے خیر مقدم کےلئے تیار کی جاچکی ہیں۔آسٹریلیا کی ان چالوں کو توڑنے کے لیے ویراٹ کوہلی اور ان کے ساتھیوںکو انگلستان کے خلاف حالیہ کلین سوئپ کی میٹھی یادوں کو بھلانا ہی نہیںبلکہ گذشتہ18ٹیسٹ میچوں میں ایک بھی ٹیسٹ نہ ہارنے کے خمار سے بھی نکلنا پڑے گا۔ورنہ کہیں زیادہ خود اعتمادی ہندوستان کو لے نہ ڈوبے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: