Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کچھوا اور خرگوش

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 
اک روز جو گھر کچھوے کے خرگوش نے بیل دی
بولا کہ بہت تنگ ہوں میں طعنوں سے بھائی
تو ایک دفعہ دوڑ کیا جیت گیا ہے
ہر شخص مجھے صرف مجھے کوس رہا ہے
اے کاش نہ سوتا میں کبھی دوڑ لگا کر
میں ہار گیا جیتی ہوئی بازی لٹا کر
اک چانس بس اک چانس مجھے اور دے کچھوے
ممکن ہی نہیں پھر کہ کبھی مجھ سے تو جیتے
کچھوے نے کہا ٹھیک ہے پھر دوڑ لگا لے
مٹتا ہے ندامت کا اگر داغ مٹا لے
دونوں نے کیا ایک ہی لائن سے پھر آغاز
خرگوش تو یوں دوڑا کہ ہو رن وے پہ پرواز
جب بیچ میں پہنچا تو شجر دیکھ کے ٹھٹھکا
یاد آیا کہ وہ اسکے ہی سائے میں تھا سویا
اس بار مگر اس سے نکل آیا وہ آگے
یکلخت ہوئے بیپ کئی فون پہ اس کے
تب بادل نا خواستہ فون اس نے نکالا
سکرین پر آیا تھا جو میسیج کھنگالا
اک وڈیو وٹس ایپ پہ بھی آئی ہوئی تھی
سینڈ کرنے کی درخواست بھی بھجوائی گئی تھی
خرگوشنی لائن پہ تھی کہتی تھی کہ جاناں
آتے ہوئے گاجر بھی ذرا دیکھ کے لانا
کھولا جو ٹوئٹر تو ٹوئٹ آئے ہوئے تھے
کچھ دوست عبث ہار سے گھبرائے ہوئے تھے
ای میل جو کھولی تو وہ زناٹے میں آیا
قسمت کا ستارہ تو اسے اوج پہ لایا
اک لاٹری نکلی تھی کروڑوں کی اسی کی
دس پونڈ تھی بس فیس زیادہ تو نہیں تھی
بس پھر تو وہ اک اور ہی دنیا میں کہیں تھا
ہر خواب جہاں پورا ہو اس گاہ مکیں تھا
اتنے میں بجا فون کہ خرگوش کہاں ہو
جس پیڑ تلے سوئے تھے کیا پھر سے وہاں ہو
یہ سن کے تو بس پھول گئے پاﺅں بھی اور ہاتھ
جس بات کا دھڑکا تھا ہوئی پھر سے وہی بات
خرگوش نے سب چھوڑ کے پھر دوڑ لگائی
کال آئی تھی اک اور پر اس نے نہ اٹھائی
ہڑبونگ میں فون اسکا گرا جیب سے نیچے
پر جیت کی وہ دھن تھی کہ دیکھا بھی نہ پیچھے
اتنے میں گراونڈ نظر آنے لگا تھا
تب آئی سمجھ اسکو کہ وہ ہار چکا تھا
کچھوا تھا کہ بس میڈیا والوں میں گھرا تھا
اک شور تھا پبلک کا وہ پھولوں میں لدا تھا
آئی نہ سمجھ اسکو کہ کس سمت کو بھاگے
صدیوں کی پشیمانی تھی خرگوش کے آگے
******

شیئر: