Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روشن خیالوں کا سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش

 
 
پرویز مشرف نے روشن خیال جماعتوں کی جو فہرست تیار کی ہے ان میں ایم کیو ایم ، تحریک انصاف ، اے این پی جیسی پارٹیاں قابل ذکر ہیں
 
سید شکیل احمد 
 
وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کا یہ جملہ کہ ووٹ عوام سے لیں اور فیصلے دوسرے کر یں یہ کیسے ہوسکتا ہے سیا سی حلقو ں میں گونج رہا ہے سعد رفیق اکل کھر ے انسان ہیں ان کے والد گرامی خواجہ رفیق بھی ان سے زیا دہ اکل کھر ے تھے اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ان سے زچ رہتے تھے چنا نچہ بھٹو حکومت کے خلا ف جلو س نکا لنے کے دوران نا معلو م حملہ آور و ں نے ان پر قاتلا نہ حملہ کیا اور وہ اس سے جانبر نہ ہو سکے جس کے بعد ان کے صاحبزادے سعد رفیق کا نا م چمکا۔سعد رفیق اور خواجہ آصف کے بیان کبھی کبھی بے باک ہو تے ہیں تاہم یہ بیانا ت کبھی سیا سی نہیںبلکہ دیگر ضروریا ت کے پیش نظر واپس بھی ہو جا تے ہیں مختصر یہ کہ سعد رفیق کا بیان کسی قو ت کے خلا ف نہیں سمجھا جا رہا بلکہ اس کو اعلا ن انتخابی مہم مانا جا رہا ہے ، ظاہر ہے کہ اگلا سال انتخابات کا ہے جس کے لئے سیا سی جما عتوں کو تیا ریا ں قبل از وقت کر نی ہیں ۔ 
پا کستان میں کلی طورپر انتخابات سیا سی عملیات کی بنیاد پر نہیں ہوتے اس میں کئی عوامل شامل ہو تے ہیں بعض قوتو ں کی پسند اور ضروریا ت بھی در پر دہ کا م کر تی ہیں جیسا کہ پر ویز مشرف کے دور میں دومر تبہ انتخابات بائیں بازو کی کامیابی کے فارمولے کی بنیاد پرکرائے گئے اور بائیں بازو کی جما عتو ں کو ہدایت تھی کہ وہ سوشلزم یا بائیں بازوکی اصطلا ح استعما ل کرنے کی بجا ئے رو شن خیا ل نظریئے کو آگے بڑھائیں ، روشن خیا لی کیا وبا ءہے اس کی کوئی تعریف متعین نہیںکی گئی آج سے60، 70 سال پہلے مغربی لباس زیب تن کر نے اور ہونٹ ٹیڑھے کر کے انگریزی بولنے والو ں کو روشن خیال کہا جا تا تھا وہ اپنے آقاوں کی طر زکی بود وباش رکھتے تھے اور مذہب سے رسمی لگاو کا اظہا ر کر تے تھے کیو نکہ ان کے نزدیک مذہبی رحجا ن ایک دقیا نو سی عمل ہے ۔
  روشن خیالی کا اصل نظریہ تو مغر ب کی جا نب سے آیا تھا مگر ایشیا میں اس کو لانے میں ترکی کے مصطفی کما ل کا کما ل تھا چنا نچہ انھوں نے دائیں بائیں کے چکر میںپڑ نے کے لئے خو دکو مغرب زدہ قرا ر دینے کے لئے روشن خیال بن کر اس طر ح کا نظریہ پیش کیا کہ اسلامی طر ز حکمر انی کے بخئیے ادھیڑ دئیے ، ترکی کا قدیم رسم خط جو عربی طرز کا تھا اس کو بدل کر انگریزی حروف تہجی میں کر دیا ، مسلما نو ں کا روپ جو چہرے پر داڑھی کی صورت میں تھا اس پر پابندی لگا دی چنا نچہ اب جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ون ورلڈآرڈر کی زنجیر کسنی شروع کی اور اس کو انھوں نے اسلا می دہشت گردی کا نا م دیا ہے تو بہت سو ں میں روشن خیالی عود کر گئی ہے ۔پا کستان میں قیا م پاکستان کے بعد سے ہی دائیں بازو اور بائیں با زو کی تکر ار چل رہی تھی اور روشن خیالی کی بجا ئے ترقی پسندی کا بول بالا کیا جا تا تھا جو بے جا استعمال ہو ہو کر قدر کھو گیا چنا نچہ پہلی مر تبہ سابق آرمی چیف پرویزمشرف نے روشن خیالی کے نظریہ کو متعارف کرایا اور اس کا چرچا کیا جو ان کے گلے پڑ گیا ، ان کے اس نظریے کا حشر بھٹو صاحب کے اسلا می سوشلز م جیسا ہوا یعنی ان سے اسلا م بھی گیا اور سوشلز م بھی بد نا م ہو اتھا ، خیر بھٹو جاگیر دار تھے چنا نچہ انھو ں نے اپنے دور اقتدار میں جو کچھ کیا وہ جا گیر دارو ں کے مفادا ت میں کیا۔ ایک مرتبہ پا کستان کی سب سے بڑی مزدور یو نین کے صدر مر زا ابراہیم نے جو اپنے فرائض منصبی سے انتہا کی حد تک مخلص اور ایک کھر ے مزدور لیڈر تھے ، جن سے سرمایہ کا ر بھی اور ساتھ ہی جا گیر دار بھی لرز تے تھے بابا ئے سو شلز م شیخ رشید (لا ل حویلی والے نہیں جو کسی کھا تے میں نہیں ) جو بھٹو کے دور میں وزیر صحت تھے ان کے دفتر میں ملا قا ت کر کے کہا کہ آپ لو گ کیو ں مزدور دشمنی اور عوام مخالفت پر اتر آ ئے ہیں اور ایک وزارت کی کر سی پر اپنے نظریا ت بیچ دئیے ہیں نیز اپنی نکیل ایک جاگیر دار کے ہاتھ میں تھما دی ہے جو کبھی بھی نہ مزدور کا بھلا چاہے گا اور مزدور دشمنی میں صنعتو ں کو تباہ کر دے گا ؟ بابائے سوشلز م یقین دہا نی کر اتے رہے کہ نہیں نہیں سر خ انقلا ب آئے گا اور وہ سرخ انقلاب آج تک نہیں آ یا البتہ ایو ب خان کے دور میں پا کستان میں جو صنعتی ترقی ہوئی تھی وہ سب پا مال کر دی گئی اور آج تک سنبھل نہ پائی۔ اب روشن خیالی کے نا م پر ایک نئی پخ نکا لی گئی ہے اور اس کے بابائے روشن خیالی سابق فوجی آمر پر ویز مشر ف کو تسلیم کرلیا گیا ہے چنانچہ آئندہ انتخابات کے لئے اس روشن خیالی کی قوت کو تشکیل دیا جا رہا ہے۔ پر ویز مشرف نے حال ہی میں روشن خیا ل سیا سی قیادتو ں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا ، وہ ہنو ز پا کستان کے وزیر اعظم بننے کے خواب میں مبتلا ہیں چنا نچہ روشن خیال جما عتو ں کی جو فہرست تیا ر کی گئی ہے اس میں ایم کیو ایم لند ن ، ایم کیو ایم پاکستان ، پا ک سرزمین ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ ق ، اے این پی اسفند یا ر ، وطن پارٹی اور دوسری علا قائی جما عتیں ہیں جو کسی زمانے میں بائیں بازو کی جما عتیں کہلا تی تھیں۔یہا ں یہ سوال ہے کہ جماعت اسلا می کس کھا تے میں ہے ، اس وقت وہ پی ٹی آئی کے ساجھے میں ہے حالا نکہ پاکستان کی بہترین منظم اور مستحکم نظریا تی جما عت تسلیم ہو نے کے باوجو د وہ اب تک تحریک انصاف کی روشن خیالی کے بارے میں ہم آہنگ ہو نے کا جو از پیش نہ کر سکی کہ دونوں میں کیا مشترک ہے جس کی وجہ سے دونو ں کا ساجھا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ جا وید ہا شمی سے نا راض ایک شخصیت جن کے بارے میں جاوید ہاشمی نے حال ہی میں انکشاف کیا تھا کہ عمران خان سے اختلا ف کے بعد اس شخصیت نے ان کو دھمکی آمیز فو ن کیا تھا اور کہا تھا کہ میا ں نو از شریف ، چوہدری نثار اور خواجہ آصف و دیگر ساتھیو ں کو عدالتو ں میں گھسیٹں گے ۔ وہی شخصیت سابق فوجی آمر پر ویز مشرف سے ان سیا ست دانو ں کو جن کو روشن خیالو ں کی فہر ست میں جمع کیا گیا ہے ملا قاتو ں کا اہتما م کرارہی ہے حال ہی میں گجر ات کے چو ہدر ی برادران نے بھی ملا قات کی ہے جس کے بعد ان برادران نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم پر ویز مشر ف کی مسلم لیگ میں شامل ہو سکتی ہے گویا مسلم لیگ اپنا الگ تشخص بر قرار رکھے گی ، آئندہ انتخابات میں روشن خیالو ں کی ایک جما عت بنا نے کی سعی ہو رہی ہے ۔
مولانا فضل الرحما ن بھی کا فی متحرک ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت اس مشن پر ہیں کوئی ایسا اتحاد نہ بننے پائے جس کا فائدہ تحریک انصاف کو حاصل ہو ، مو صوف کا میا ب چھٹی حس کے مالک گردانے جا تے ہیں اور جا نتے ہیںکہ پی ٹی آئی کی اب خیبر پختونخوا میں پہلے جیسی پو زیشن نہیں رہی مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ فاٹا کے معاملے میں پی ٹی آئی کا خوف دلا کر فاٹا کو کے پی کے میں ضم ہونے سے روکا جا رہا ہے ایسی کوئی با ت نہیں یہ پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کی کا رستانی ہے ، فاٹا میں گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو جو کا میا بی ملی تھی وہ اس سیل روا ں کی بنیا د تھی جس کے جھکڑ پور ے پا کستان میں چلے تھے جیسا کہ1970ءمیں پی پی کا سونا می تھا مو لا نا فضل الرحمان کی جما عت فاٹا میں اس دور میں جس طرح مقبول تھی آج بھی ہے ، اس کے علا وہ جنوبی اضلا ع میں بھی اثر رکھتی ہے ، فاٹا کی قسمت کا فیصلہ غلط طور پر کیا جا رہا ہے کیونکہ فاٹا کی ہیئت بدلنے سے بین الا قوامی حالا ت کے اثرات بھی بدلیں گے۔ یہ صرف فاٹا کا اندرونی معاملہ نہیں اس کا بیر ون ملک کے حالا ت سے گہر ا تعلق ہے اور اس میں روشن خیال جماعتیں اسی بنیا دپر متحر ک بھی ہیں۔ فاٹا کا بہتر ین حل رائے شما ری ہے کہ فاٹا کے عوام صوبہ کے پی کے میں شامل ہو نا چاہتے ہیں یا الگ صوبے کی حیثیت یا پھر مو جود قبائلی طرز پر وجو د بر قرار رکھنا چاہتے ہیں اس کا فیصلہ کر نافاٹا کے عوام کا حق ہے چند لو گو ں کا نہیں ۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: