Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طلاق ثلاثہ اور الیکشن؟

 
 طلاق ثلاثہ کی آڑ لے کر حکومت مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا راستہ تلاش کررہی ہے، حکومت مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ نافذ کئے جانے کی طرف دار ہے
 
معصوم مرادآبادی
 
مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرشاد نے ایک حالیہ بیان میں کہاہے کہ ان کی حکومت طلاق ثلاثہ کا رواج ختم کرنے کےلئے عنقریب ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب ملک کی کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی گہما گہمی ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے کی جان توڑ کوششیں کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ بی جے پی نے یوپی انتخابات کے لئے جاری کئے گئے اپنے انتخابی منشور میں بھی طلاق ثلاثہ کا مسئلہ شامل کیا ہے اور اسے عورتوں کے وقار سے مربوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب غازی آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیرقانون نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ مودی سرکار اسمبلی انتخابات کے بعد طلاق ثلاثہ پر پابندی کی سمت میں بڑا قدم اٹھاسکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ یہ روایت خواتین کے احترام کے منافی ہے اور اس پر پابندی لگائے جانے کی ضرورت ہے۔ پرساد کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت معاشرے کی برائیوں کو ختم کرنے کےلئے مصروف عمل ہے۔ 
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ کسی مرکزی وزیر نے طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا راگ چھیڑا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال خود وزیراعظم نریندرمودی اس مسئلے پر اظہار خیال کرکے مسلم خواتین کی ”ہمدردیاں“ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرچکے ہیں۔ وزیراعظم سمیت بی جے پی کے تمام لیڈران شاید یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں طلاق ثلاثہ کے تعلق سے مسلم خواتین میں زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔ بی جے پی کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر مسلم خواتین کو کوئی بیرونی امداد مل جائے تو وہ خود اپنے معاشرے کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی لیڈران آئے دن طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔جہاں تک طلاق ثلاثہ کا تعلق ہے ، اول تو مسلمانوں میں اس کا رواج بہت کم ہے اور جہاں کہیں عائلی قوانین کے تعلق سے مسائل جنم لیتے ہیں تو وہاں شرعی عدالتیں اور دار القضاء بہتر اور مفت انصاف فراہم کرتی ہیںجبکہ ملکی عدالتوں میں ازدواجی تنازعات کو لے جانے والے برسہا برس فیصلے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک مسلم خواتین کا تعلق ہے تو شاید بی جے پی لیڈران کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلامی شریعت اور مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لئے جو کروڑوں دستخط لا کمیشن کے سپرد کئے گئے ہیں ،ان میں تمام مسلم خواتین کے ہی دستخط ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم خواتین اسلامی شریعت میں خود کو پوری طرح محفوظ ومامون تصور کرتی ہیں اور وہ اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم وتبدیلی کی طرف دار نہیں۔ جہاں تک معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کا سوال ہے تو سب سے پہلے روی شنکر پرشاد کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ خود ان کے معاشرے میں انسانوں کے ساتھ ذات پات کے نام پر جو ناروا سلوک کیاجاتا ہے، اس کی ملک میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ان کے معاشرے میں خواتین کے استحصال کی جو طویل تاریخ موجود ہے اسے بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں۔
الیکشن کے موقع پر طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کی یقین دہانیاں کراکے بی جے پی لیڈران شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح اسمبلی انتخابات میں مسلم خواتین کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ سوچ دراصل اتنی ناقص اور سطحی ہے کہ اس پر تبصرہ کرنا بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا لیکن جن لوگوں کے ذہنوں میں ملک کے عوام محض ایک ووٹ بینک کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اسی انداز میں سوچتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ 
مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرشاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ طلاق ثلاثہ کا معاملہ مذہب سے منسلک نہیں بلکہ یہ عورتوں کے وقار سے وابستہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت جذبات کا احترام کرتی ہے لیکن عبادت اور سماجی برائی ایک ساتھ نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے کہاکہ بی جے پی ہی ایک ایسی پارٹی ہے جو خواتین کا احترام کرتی ہے۔ دوسری پارٹیاں نہ تو انہیں جگہ دیتی ہیں اور نہ ان کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو ، کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اور بی ایس پی سربراہ مایاوتی کو طلاق ثلاثہ پر اپنا موقف واضح کرنے کو کہا اور یہ بھی کہاکہ بی جے پی نے اپنے یوپی کے انتخابی منشور میں طلاق ثلاثہ کے معاملے میں ریاست کی مسلم خواتین سے رائے لے کر سپریم کورٹ میں موقف پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے حالانکہ حکومت پہلے ہی طلاق ثلاثہ کے تعلق سے سپریم کورٹ میں اپنا حلف نامہ داخل کرکے اس کی پرزور مخالفت کرچکی ہے۔ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ خود بعض طلاق یافتہ ماڈرن مسلم خواتین نے پہنچایا ہے۔ ان خواتین کی پشت پر وہ لوگ آکر کھڑے ہوگئے ہیںجو اس ملک میں مسلم پرسنل لا کے ازلی دشمن ہیں۔ ان خواتین کو بھرپور قانونی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ 
مسلم پرسنل لابورڈ کا موقف یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ کی آڑ لے کر حکومت مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا راستہ تلاش کررہی ہے اور یہی حکومت کے موقف کی مخالفت کا اصل سبب ہے۔ مرکز کی موجودہ حکومت مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ نافذ کئے جانے کی طرف دار ہے اور اس سلسلے میں باضابطہ طورپر لا کمیشن نے ایک سوال نامہ جاری کرکے اس کے امکانات بھی تلاش کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے لا کمیشن کے اس سوال نامے کا مکمل بائیکاٹ کردیا ہے اور مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لئے ایک باقاعدہ دستخطی مہم شروع کررکھی ہے، جسے مسلمانوں کی زبردست حمایت حاصل ہورہی ہے۔ حکومت اگر یہ سوچتی ہے کہ اصلاح کے نام پر اوپر سے کوئی قانون تھوپ کر وہ کامیاب ہوسکتی ہے تو وہ سراسر غلط فہمی میں مبتلا ہے کیونکہ قانونی طورپر حکومت کو کسی بھی مذہب میں مداخلت کا حق نہیں۔ مسلم پرسنل لا بنیادی طورپر اسلامی شریعت اور قرآنی احکامات پر مبنی ہے لہٰذا اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی ناممکن ہے۔ 
******

شیئر: