Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلی کا مردہ جسم اور اندھیری رات۔۔۔

اعلیٰ تعلیم، بڑے گھر اور اونچے روزگارحاصل کرنے ، بھولی سی صورت مسکراتی آنکھوں میں زندگی کی پناہ تلاش کرنے کا خواب سجائے ہوئے تھا

عشرت معین سیما برلن، جرمنی

- - - - - -- - -  - - -

میں 15 سال کا عرصہ پر دیس میں گزارنے کے بعد اُس روز اپنے گھر کی جانب رواں تھا۔ ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی مجھے ابرار بھائی نے بہت محبت اور جوش کے ساتھ گلے لگا کر بھینچ لیا ۔کچھ منٹ کے بعد میرا سامان اٹھا کر قریب کھڑی گاڑی کی ڈگی میں ڈالا اور حال احوال پوچھتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں سڑکیں ،گلیاں اور عمارات کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔شہر کا حال ان15 سالوں میں بہتر ہونے کے بجائے ابتر دکھائی دے رہا تھا۔ اُڑی اُڑی رنگت والی کھنڈر نما عمارتیں ، لوگوں کا ایک جمِ غفیر جو سڑک کے کنارے اور کبھی درمیان سے گزرنے کی کوشش کرتا۔ ہر طرف بس لوگ ہی لوگ تھے۔ جگہ جگہ چھوٹی بڑی کیبن نما دکانیںکھلی ہوئی تھیں اورسڑکوں کے کنارے آویزاں بڑے بڑے سائین بورڈز جس میں کوئی اپسرااپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ کسی بکائو مال کی تشہیر کر رہی تھی۔ روڈ کے دونوں طرف دیواروں پر جگہ جگہ نعرے ،اشتہارات، نفسانی اور خانگی مسائل کے حل کیلئے رجوع کرنیوالے ٹیلی فون نمبرز جلی حروف میں بے ترتیبی کے ساتھ لکھے ہوئے تھے۔ ہوا میں گرد و غبار اتنا زیادہ تھا کہ ہر چہرہ بیمار اور پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ابرار بھائی میرے سفر کا حال پوچھ رہے تھے اور میں گم سم اس نظارے میں مگن ہاں اور ہوں میں انکے سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔ اگر میں کبھی حساب لگانے بیٹھوں تو اِن 15 سالوں میں جہاں میں نے اپنے پیارے والدین کو کھویا ،وہیںمیں نے اُن کی لازوال پیاربھری دعائوں کاخزانہ بھی پایا۔ یہ اُن کی ہی دعائیں ہیں کہ آج میں دیار ِ غیر میں ایک باعزت اور اعلیٰ برسرِ روزگار شہری کی زندگی جی رہا ہوں۔

سڑکوں کے بے ہنگم شور اور گاڑیوں کے مسلسل ہارن نے میری سوچوں کا تانا بانا یکایک توڑ دیا۔ ’’ پیاس تو نہیں لگ رہی نہال! ‘‘ ابرار بھائی نے محبت سے پوچھا۔ ’’ نہیں ۔۔۔نہیں پیاس نہیں لگ رہی ‘‘میں نے اُن کی طرف دیکھے بغیر جواب دے دیا۔مگر اس وقت جو پیاس میرے اندر مچل رہی تھی ابرار بھائی اُس سے کیسے واقف ہوسکتے تھے؟ ۔۔۔یا شاید اب واقف ہوں۔۔۔مگر اُس وقت جب مجھے جعلی پاسپورٹ اور ویزے کیساتھ انہوں نے اسی ائیر پورٹ پر رخصت کیا تھا تب وہ میری تشنگی نہیں محسوس کر سکے تھے۔ اُس وقت مجھے لگتا تھا کہ میرے اندر کا صحرا اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی نخلستان بن سکتا ہے۔اُ س وقت میں عمر کے اُس حصے میں تھا جب بہت سے سہانے خواب آنکھوں میں بھرے ہوتے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کاخواب، بڑے گھر اور اونچے روزگار کا خواب اور۔۔اور کسی بھولی سی صورت والی حسینہ کی مسکراتی آنکھوں میں زندگی کی پناہ تلاش کرلینے کا خواب۔ مگر مجھے اُس وقت ان سارے جلتے دیپ جیسے خوابوں کو بجھا کر ملک بدر کر دیا گیا۔ اُس وقت میں صرف17،18 سال کا کمزور سا لڑکا تھامگر اُس وقت بھی میرے ارادے بہت قوی تھے۔ تبھی میری تعلیم کا وہ سلسلہ جو کالج کی طلبہ یونین میں شامل ہونے کے بعد کافی کمزور ہو گیا تھا اور بعد ازاں سیاسی جھگڑوں کی نذر ہوکر ٹوٹ گیا تھاوہ میں نے پردیس میں چند مشکل سال گزارنے کے بعد دوبارہ بحال کر لیا تھا۔ میری سوچیں بھی اچانک گاڑی کے بریک کے ساتھ رُک گئیں۔ ’’ گھر آگیا‘‘ ابرار بھائی نے خاموشی توڑتے ہوئے اعلان کیا۔ ’’ گھر ؟‘‘ میں گلی کے سارے ایک جیسے مکانات کی جانب دیکھتے ہوئے اپنا گھر تلاش کرنے لگا۔’’ ارے ! یہ بائیس نمبر ! میرے نام کی تختی لگی ہے جہاں‘‘ابرار بھائی نے گاڑی سے نکلتے ہوئے کہا اور پچھلا دروازہ کھول کر سامان باہر نکالنے لگے۔ سامنے والے گھر کا گیٹ دستک دیئے بنا ہی کھل گیا ۔آہنی دروازے کے پیچھے بھابھی مسکرا تی ہوئی موجود تھیں۔شاید وہ ہماری راہ دیکھ رہی تھیں۔’’ السلام وعلیکم! ۔۔خوش آمدید! انہوں نے آگے بڑھ کر پُرتپاک انداز میں میرے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ گیٹ کھلتے ہی ایک بلی کا بچہ دوڑ کر مکان کے اندرونی حصے میں گھس گیا۔ ’’ بھابھی ! بلی پالی ہے آپ نے ؟ ‘‘میں نے مسکرا کرسلام کا جواب دینے کے بعد بھابھی سے پوچھا۔ ’’ ارے نہیں بھئی! معلوم نہیں کہاں سے روز گھُس آتی ہے گھر میں اور کہیں کونے کھدرے میں چھُپ کر بیٹھ جاتی ہے۔ 7سالہ میرا بھتیجا دانی میری آمد کو نظر انداز کرکے بلی کو اندر آتا دیکھ کر پُر جوش انداز میں اس کے پیچھے بھاگا۔بلی باورچی خانے میں گھسی اور پچھلی گلی کا دروازہ کھلا دیکھ کروہیں کہیں اندر چھپ گئی یا کہیں باہر نکل گئی۔

ابرار بھائی بہت محبت سے میرے قریب آکر بیٹھ گئے اور حال چال پوچھنے لگے۔ میں کوئی بھی پچھلی باتیں نہیں کرنا چاہ رہا تھا بس مختصر جواب دیکر اُن کی تسلی کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں بھابھی چائے اور سموسے لیکر اسی کمرے میں آگئیں۔ کھانا وانا کھانے کے بعد بھی رات گئے تک ہم سب وہیں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ بلی کہاں گئی سب بھول چکے تھے مگر دانی رہ رہ کر کبھی صوفے کے نیچے اور کبھی کسی میز کے نیچے اس کی تلاش میں جھانکتا دکھائی دے رہا تھا۔ شاید اُسے بلی کے اہم ٹھکانوں کی خبر تھی۔رات جب سب اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تو مجھے سارا گھر ویران سا لگنے لگا۔بستر پر لیٹ کر ایک کے بعد ایک گزری یاد نے مجھے اپنے گرد گھیرنا شروع کر دیا۔مجھے یاد آنے لگا کہ جب راتوں رات مجھے چپکے سے دبئی بھیجا گیا تھا۔مجھ سمیت میری طلبہ تنظیم کے کچھ لڑکوں پر مخالف پارٹی کے ایک لیڈر کے قتل کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا تھا۔اُس روز جب مخالف پارٹی کے ورکرز نے ہمارے گھر پہ گولیاں برسائی تھیں تو بھابھی امید سے تھیں اور خوف سے اپنی ہونے والی پہلی اولاد گنوا بیٹھی تھیں۔میری وجہ سے میرے ابا پولیس اور عدالتوں میں گھسیٹے گئے تھے۔ابرار بھائی نے اپنے ایک دوست کے ساتھ ملکر ایک دو روز کے اندر اندر مجھے ملک سے فرار کروادیا تھا۔اُس وقت مجھ پر کسی بھی لمحے جان گنوانے کا خوف طاری تھا۔ مجھے صرف یہ معلوم تھا کہ مجھے اپنی جان بچانے کیلئے بھاگنا ہے اور میں بھاگا جارہا تھا۔ ’’ میاؤں۔۔۔میاؤں‘‘ رات کے اندھرے میں بلی کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ بلی کی آواز میں ایک درد تھا۔ایک عجیب سی تکلیف تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس سرد اندھیری رات میں کہیں پناہ تلاش کر رہی ہے۔مجھے دبئی سے یورپ تک کے سفر کی صعوبتیں یاد آنا شروع ہوگئیں۔وہ بھی ایک سرد اور اندھیری رات تھی۔پانی کے جہاز میں سامان کے کنٹینرکے اندر سردی ،اندھیرا اور بھوک میرے وجود کے ساتھ کسی آسیب کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔میرے ساتھ اور بھی چار چھ لڑکے تھے ۔جن میں سے ایک نے رو رو کر اپنا حال برا کر لیا تھا۔ اچانک میری سماعت سے بلی کی درد بھری چیخیں ٹکرا نا شروع ہو گئیں۔’’ میاؤں ۔۔۔میاؤں‘‘۔اندھیرے میں بلی کی یہ دردناک آواز مجھے اُس خوف اور بھوک سے بلکتے لڑکے کی صدا لگ رہی تھی۔میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔کمرے کی لائٹ جلائی اور کھڑکی سے پردہ ہٹا کر مکان کی پچھلی گلی میں جھانکنا شروع کر دیا۔

مجھے بلی کہیں نظر نہیں آئی۔ لیکن اُس کی دردناک چیخوں نے میراسکون تباہ کر دیا تھا۔کچھ وقفے کے بعد بلی کی یہ دل چیرتی آوازیں کم ہوتی چلی گئیں ۔میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور لمبی سانس لیکر کمرے کی بتی بجھائی اور بستر پر لیٹ گیا۔ خیالات کا سلسلہ میرے ارد گرد پھر ناچنے لگا۔ مجھے ہچکولے کھاتا ہوا پانی کا جہاز اپنے خیالات کی رو میں بہتا دکھائی دینے لگا۔ کوئی بہت بے دردی سے چیخ رہا تھا۔ ’’ یہاں چوہے ہیں!۔۔۔مجھے باہر نکالو!۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔خدا کیلئے مجھے باہر نکالو ۔۔۔میں مر جائوں گا۔۔۔میں بھوکا ہوں ۔۔۔اس سردی اور اندھیرے سے بچائو مجھے۔۔۔ماں ! ماں !۔۔۔مجھے بچالو!۔۔۔خدارا مجھے بچالو‘‘ میرے ماتھے پر پسینے آنے لگے ۔ میں نے اپنے دل دماغ پر امڈتے ہوئے ان خیالات کے اس دھاروں کو روکااور ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔دوبارہ کمرے کی بتی جلائی اور پردہ ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔بلی کی ہلکی ہلکی سسکیاں اب بھی کہیں گونج رہی تھیں۔مجھے اپنی طبیعت بہت بے چین محسوس ہونے لگی۔میں کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آبیٹھا۔ سامنے دیوار پر لگی گھڑی میں صبح کے 5بج رہے تھے۔ اندھیرا چھٹنے کو تھا۔بلی کی دل فگار آواز بیک وقت کئی مساجد سے آنے والی آذانوں میں کہیں دب گئی تھی۔میں تھکن اور نیندمیں وہیں صوفے پر بیٹھا رہا اور نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو ہر طرف اُجالا پھیل چکا تھا۔دانی شاید اسکول جاچکا تھا۔بھابھی مجھے ایک کمبل اُڑھا رہی تھیں اوروہیں کچن سے ملحقہ گلی میں ابرار بھائی ایک بانس کے ڈنڈے پر بلی کا مُردہ جسم لٹکائے باہر پھینکنے کے لئے نکل رہے تھے۔ ’’ شاید سردی کی وجہ سے رات بھر گیزر کے نیچے بیٹھی رہی اور مر گئی‘‘ ابرار بھائی نے تاسف سے بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔میرے جسم میں جھرجھری سی آگئی ۔ مجھے وہ لڑکا یاد آگیا جو اُس رات خوف ،بھوک اور سردی سے پناہ مانگتے ہوئے دوسرے دن جہاز کے کنٹینر میں سے مردہ نکالا گیا تھا۔

شیئر: