Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنوب میں بھی سیاست کا وہی رنگ

 
واقعی جے للیتا اتنی قد آور تھیں کہ کوئی اوران کی ہمسری نہیں کرسکتا، ان کی مثال جواہر لال نہرو کی سی تھی جو برگد کے درخت کی طرح کسی اور پودے کو اُگنے ہی نہیں دیتے تھے
 
کلدیپ نیر
 
جنوبی ہند کی سیاست شمال سے کچھ مختلف نہیں۔ دونوں طرف شخصیت پرستی کا بول بالا ہے۔ لوگ اپنے پسندیدہ رہنما کے پیچھے پاگل ہوجاتے ہیں اور یہاں تک کہ جنون میں خود سوزی تک کر گزرتے ہیں۔ حکومت نے اس طرح کے اقدام کو ممنوع قرار دے دیا ہے اس کے باوجود وہ اسے روکنے میں ناکام رہی ہے۔ تمل ناڈو کی سابق وزیر اعلیٰ سے قریبی وابستگی کی بنیاد پر وی کے ششی کلا ایسی ہی شخصیت بن گئی ہیں۔ آج وہ اے آئی اے ڈی ایم کے کی جنرل سیکریٹری ہیں اور پارٹی نے انہیں اپنے لیجسلیٹر ونگ کا سربراہ منتخب کیا ہے۔ اس پورے گروپ نے سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ سے استعفیٰ پیش کرنے کو کہا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس جگہ یہ فیصلہ کیاگیا وہاں وہ موجود بھی نہیں تھے لیکن تمل ناڈو میں دفعتاً حالات پلٹ جانے سے ہر کوئی ہکا بکا رہ گیا۔ آنجہانی وزیراعلیٰ جے للیتا کے معتمد خاص پنیر سیلوم ششی کلا کی کھلی مخالف پر اتر آئے او ر ان پر اقتدار کے بے جا استعمال کا الزام لگا رہے ہیں۔ حلف برداری کی جس تقریب کی غالباً تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں، وہ موقوف کردی گئیں کیونکہ گورنر بظاہر مرکزی وزارت داخلہ کے اشاروں پر چلتے ہوئے تساہلی سے کام لے رہے ہیں۔
ششی کلا سابق وزیر اعلیٰ جے للیتا کی دیرینہ دوست اوران سے بہت قریب ہونے کی بدولت انہیں کافی اختیارات بھی حاصل رہے۔ جے للیتا نے کبھی انہیں اپنی جانشین نامزد نہیں کیا۔ شہرت پر ششی کلا کی دعویداری کو جے للیتا سے ان کی قربت سے منسوب کیاجاسکتا ہے۔ ایسے بھی مواقع آئے جب سابق وزیر اعلیٰ نے اپنی دوست سے خفا ہوکر انہیں دور رکھا۔ 
منا گوڈی مافیا کا حصہ تصور کی جانے والی ششی کلا لوگوں کو ناراض کردیتی تھیں جس سے جے للیتا کو بعض مواقع پر شرمندگی اٹھانی پڑی۔ ششی کلا کے رفیق حیات ایم نڑاجن کا ہاتھ بھی کئی جگہوں پر دیکھا گیا جس کے سبب جے للیتا نے نہ صرف انہیں ایک کنارے کردیا بلکہ بعد میں ششی کلا نے بھی۔ یہ کھلا راز ہے کہ ششی کلا نے ڈھیروں دولت جمع کرلی تھی۔ قارئین جانتے ہیں کہ خصوصی عدالت نے انہیں اور سابق وزیر اعلیٰ کو مجرم قرار دیاتھا۔
جے للیتا بھی جیل میں یا عدالت میں چل رہے مقدمات کی وجہ سے مختصر عرصے کیلئے اقتدار سے محروم رہی ہوں انہوں نے پنیر سیلوم پر ہی انحصار کیا اورانہی کو وزیراعلیٰ کی گدی پر بٹھایا۔ پارٹی کے وفادار کارکن کی حیثیت سے انہوں نے اس مسند کو ایک امانت کی طرح سمجھا اور ان کی واپسی پر امانت ان کے حوالے کردی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پنیر سیلوم جے للیتا کا احترام اس قدر کرتے تھے کہ جس کرسی پر وہ بیٹھتی تھیں اس پر وہ کبھی نہیں بیٹھے اور اس کے بجائے کسی دوسری پر بیٹھتے رہے۔ اتنی اندھی عقیدت کے اظہار کیلئے جیب میں رکھی ہوئی جے للیتا کی تصویر کے علاوہ وہ ہر وقت موصوفہ کی ایک تصویر اپنے کمرے میں آویزاں رکھتے تھے۔ وہ اتنے قابل اعتماد ہوگئے تھے کہ جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا جے للیتا انہیں ہی نگراں وزیراعلیٰ بناتیں۔ 
واقعی جے للیتا اتنی قد آور تھیں کہ کوئی اوران کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ ان کی مثال جواہر لال نہرو کی سی تھی جو برگد کے درخت کی طرح کسی اور پودے کو اُگنے ہی نہیں دیتے تھے۔ پارٹی کے صدر کی حیثیت سے ایم کروناندھی والی ڈی ایم کے جیسے طاقتور حریف کے باوجود انہوں نے تن تنہا پارٹی اور اپنی حکومت کو چلایا۔
تمل ناڈو میں مرکز کی برسراقتدار بی جے پی کی بہت ہی کم مقبولیت ہے کیونکہ اسے شمال کی پارٹی تصور کیاجاتا ہے۔ پچھلی لوک سبھا میں بی جے پی کو صرف ایک نشست ملی تھی جبکہ ریاست میں برپا موجودہ ہنگامہ بی جے پی کیلئے اپنی جگہ بنانے کا مثالی موقع ہے لیکن اے آئی اے ڈی ایم کے سے وابستہ 37 ممبران کسی بل یا تحریک کی منظوری میں حد درجہ اہمیت رکھتے ہیں۔ شاید وزیراعظم نریندر مودی کی حکمت عملی یہ ہے کہ حالات پر قریب سے نظر رکھی جائے تاہم ریاست میں وہ اپنی موجودگی کا اندراج کرانے کی کوشش کریں گے۔
نٹراجن کانگریس لیڈران سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ اس نے بھی بی جے پی صدر امیت شاہ کو حالات کا جائزہ لینے پر اکسایا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی پینر سیلوم کے حق میں ہیں جو ایک ملنسار شخص ہیں۔ تمل ناڈو میں آئندہ اپنی موجودگی مستحکم کرنے کیلئے پارٹی ان کے کندھوں کا سہارا لینے کی امید رکھتی ہے۔ پنیر سیلوم کی مقبولیت کا سبب ششی کلا کا مزاج اور طرز عمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ششی کلا نے جے للیتا کی بھتیجی کو اس کی اجازت ہی نہیں دی کہ وہ اپنی بیمار پھوپھی کی عیادت کرلے۔ وہ پہلے ہی اپنی پارٹی بناچکی ہے او رجلد ہی کئی راز اگلنے کی دھمکی دی ہے تاہم اپنا موجودہ مقام حاصل کرنے کیلئے ششی کلا کے ان حربوں کی وجہ سے لوگوں میں غصہ تو ہے۔
شمالی ہند کی سیاست اس طرح کی باتوں کی عادی ہے۔ نہرو اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے لیکن لال بہادر شاستری اتنے مقبول تھے کہ انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لئے اس وقت کے کانگریس صدر  کامراج نے یہ اعلان کرکے مسئلہ حل کردیا کہ پہلے شاستری اور بعد میں اندرا گاندھی۔ مرارجی ڈیسائی کو یہ بات ہرگز منظور نہیں تھی اور اس لئے نہرو کی موت کے بعد پانسہ پھینکنے والے وہ پہلے شخص تھے۔
اندرا گاندھی نے مرارجی ڈیسائی کو قبول کرنے کے مقابلے میں پارٹی تقسیم کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے کامراج کو گدی پر بٹھانے کے بعد کنارے کرنے کی کوشش کی۔ تجربے سے سبق حاصل کرکے انہوں نے وزارت عظمیٰ اور پارٹی کے صدر کے منصب کو ایک کردیا تھا۔
موجودہ حالات میں جے للیتا کی پارٹی اے آئی ڈی ایم کے میں پھوٹ ناگزیر نظر آتی ہے اگرچہ یہ سب پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہاہے۔ لیجسلیچر کے ممبران چاہتے ہیں کہ ششی کلا پارٹی کی جنرل سیکریٹری بھی رہیں اور وزیراعلیٰ بھی مگر آمدنی سے زائد اثاثہ کے مقدمہ کا فیصلہ ششی کلا کیخلاف آگیا اور ا ن کو گرفتار کرلیاگیا۔ پارٹی نے فوراً ہی لیجسلیچر کا لیڈر بدل دیا اور اب ششی کلا کی جگہ ایڈاپٹی پلانی سامی لیڈر بن کر حکومت بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ 
******

شیئر: