Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زرداری اور بلاول کی علیحدہ علیحدہ سیاست

 
پارٹی کو بھٹو اور بینظیر کی طرز پر چلانے میں پے درپے ناکامیوں سے بلاول مایوس ہوچکے ، زرداری، نواز شریف کے بارے میں عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں
 
صلاح الدین حیدر
 
دال میں کچھ کالا ہے، جی بالکل ایسا ہی ہے۔ زرداری اور فریال ایک طرف اور بلاول ایک طرف۔ بیٹا ہونے کے ناتے وہ باپ سے جھگڑا کرنا نہیں چاہتا لیکن باپ کی طرز سیاست سے ناراض ضرور دکھائی دیتا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کے لوگوں سے پوچھا جائے تو اس بات سے سرے سے ہی انکار کردیں گے، جواب ایک ہی ہوگا چاہے کوئی بھی دے، کیا بات کرتے ہیں صاحب۔ باپ اور بیٹا، جدا جدا خیالات کے مالک، کیا یہ ممکن ہے؟ زرداری شاطر کھلاڑی ہیں جو حلیفوں کو پل بھر میں مات دےدیں۔ بلاول سیاست کے میدان میں ابھی نوزائیدہ کی طرح ہے، اُسے تو اُردو آتی ہے نہ سندھی۔ اردو میں تقریر ضرور کرتا ہے لیکن رومن میں لکھی ہوئی۔ جوش خطابت میں نانا (ذوالفقار علی بھٹو) اور والدہ (بے نظیر) کی جیتی جاگتی تصویر لیکن جوش خطابت کے پیچھے کیا ہے وہ اب راز نہیں رہا۔ پارٹی کے سرکردہ رہنما اُسے تقریر رومن میں لکھ کر دے دیتے ہیں، کئی بار ریہرسل کروائی جاتی ہے، تب جاکر کہیں وہ خطاب کرتا ہے لیکن سیاسی خاندان سے ہونے کے ناتے اُس کے خون میں بھی وہی گرمی ہے جو بھٹو اور ماں کی رگوں میں تھی۔ یہ بات تو میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں لیکن جس بات نے مجھے حیرت میں ڈال دیا وہ ایسی داستان ہے جس سے پردہ اُٹھانے پر آج مجبور ہوگیا ہوں۔ 
زرداری کے بارے میں اندرون یا بیرون ملک کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی لیکن بھٹو خاندان کی شہرت کی تو دُنیا گرویدہ ہے۔ بھٹو نے سیاست میںکمزوریاں دکھائیں لیکن ان پر کبھی رشوت ستانی کا الزام نہیں لگا۔ ہاں بے نظیر اس لعنت سے نہیں بچ سکیں۔ شوہر کے کہنے پر کہ نواز شریف پیسے کے بل بوتے پر انتخابات جیتتا ہے اس لئے پیپلز پارٹی کو بھی دولت کمانے کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔ بھٹو کی بیٹی نے بادل نخواستہ اپنا بھی علیحدہ بینک اکاﺅنٹ کھول ڈالا۔ کچھ تو نواز شریف کے زمانے میں اُن کے دست راست سیف الرحمان نے عوام کے سامنے ظاہر کردیا، ہیروں کا ہار، بینک اکاونٹس وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا لیکن بلاول ان سب چیزوں سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہے۔ باپ سے لڑنے کی تو ضرورت نہیں لیکن ان کے خیالات اور نظریہ¿ زندگی سے تو اپنے آپ کو بچا کر رکھا جاسکتا ہے یہی بلاول کی کوشش اور روش رہی ہے۔ کب تک اور کہاں تک اس پر قائم رہے گا فی الحال تو کہنا مشکل ہے لیکن ایک ایسے نوجوان کو جو امیرزادہ ہو، ماں کی طرف سے زمینداری مےں حصّے کا حقدار، ماں کی زندگی کا insurance claim بھی اُس کے حصّے میں آیا، پھر زرداری کی بے پناہ دولت کا بھی شراکت دار ہے۔ اس میں اُس کا اپنا قصور نہیں لیکن باپ کی کمائی تو آخر کہیں نہ کہیں کام آئے گی۔ دنیا اس پر انگلیاں اٹھاتی رہے، اس سے بلاول کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
موضوع سیاست تھا تو دیکھتے ہیں کہ باپ، بیٹے کیسے اور کس طور سے ایک دوسرے سے دُور نظر آتے ہیں اور بلاول کی سیاسی زندگی پر اس کا کتنا اثر پڑے گا اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ بھی آج کل شدّت سے زیر بحث ہے۔ گو اب تک یہ بات منظرعام پر نہیں آئی لیکن چہ میگوئیاں ضرور ہوتی رہتی ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ دسمبر کے آخر میں پیپلز پارٹی نے نواز شریف ہٹاﺅ تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنا تھا، ساری تیاریاں ہوچکی تھیں۔ بلاول نے ہفتہ، 10 روز پنجاب میں گزارے، کوشش کی کہ وہاں پارٹی کی عزت و وقار کو بحال کرسکے، کچھ زیادہ کامیابی تو نہ ہوسکی لیکن انسان اگر کسی کام میں مگن ہو تو کچھ نہ کچھ تو نتیجہ آتا ہی ہے، یہ قانونِ فطرت ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ بلاول بہت پرامید نظر آرہا تھا، اس نے پنجاب میں دو ایک جلسے بھی کیے اور ایک بھرپور پروگرام بھی تیار کرلیا گیا۔ جب تحریک نزدیک آئی تو زرداری صاحب لندن اور دبئی کے دورے سے وطن واپس پہنچے اور کافی غوروخوض کے بعد فیصلہ صادر فرمادیا کہ پلان فی الحال ملتوی کردیا جائے، وہ جمہوریت کے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے کو ناپسند کرتے تھے۔ حکمرانوں کے خلاف لانگ مارچ ملک میں افراتفری کا باعث بنے گا، اس لئے تجویز کو طاق پر رکھ دیا گیا۔ بلاول کو فیصلے سے اختلاف تھا۔ اُس نے بجاطور پر پنجاب میں پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کا یہی واحد راستہ سوچا تھا۔ پارٹی کارکنان جو اپنی قیادت سے مایوس نظر آتے ہیں، دوبارہ جوش میں آسکتے تھے، اگر انہیں اس بات پر یقین ہوتا کہ پارٹی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے لیکن فیصلہ چونکہ باپ کا تھا، اس لئے خاموشی ہی بہتر تھی۔ اسے بلاول نے ایک فرمانبردار بیٹے کی حیثیت سے قبول کرلیا لیکن زرداری کے فیصلے کے پارٹی احکامات ان کی ہمشیرہ فریال تالپور دیا کریں گی، یہ شاید بلاول کو منظور نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ پھوپھی کی خصلتوں سے اُکتایا ہوا لگتا تھا۔ کئی بار اس پر اُس نے زرداری سے مشورہ بھی کیا اور پارٹی کو بھٹو اور بے نظیر کی طرز پر چلانا چاہا لیکن ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حکومت مخالف تحریک ملتوی کردی گئی اور زرداری دبئی واپس چلے گئے کچھ ہی دنوں بعد اعلان ہوا کہ بلاول بھی امریکہ جارہا ہے۔ اب وہ کئی دنوں سے امریکہ میں ہی ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ وہ سخت مایوس نظر آتا ہے۔
پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ قومی اسمبلی میں 250 سے اوپر عام نشستوں میں پنجاب کی 115 سیٹیں ہیں، جب تک آپ وہاں جیتیں گے نہیں، حکومت نہیں بناسکتے لیکن بلاول اور زرداری دونوں کی کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی اب تک پنجاب میں اپنی مقبولیت دوبارہ بحال نہیں کرسکی۔ بلاول نے اپنے دورہ پنجاب میں خاصی جانفشانی سے کام کیا تھا۔ لوگوں کو اُمید کی نئی کرن بھی نظر آنے لگی تھی۔ اُس نے پورے پنجاب میں تنظیمی کمیٹیاں توڑ ڈالی تھیں اور اب آہستہ آہستہ ہر ایک ڈسٹرکٹ اور ڈویژن میں نئے طور سے تنظیم سازی کی جارہی ہے۔ روز اعلان ہوتا ہے کہ فلاں فلاں ڈسٹرکٹ اور ڈویژن کا صدر، نائب صدر، خزانچی، جنرل سیکریٹری اور کمیٹی کا رکن بنادیا گیا ہے لیکن جب تک پارٹی کے سامنے کوئی واضح مقصد نہ ہو، منزل کے حصول میں مشکلات حاوی رہیں گی۔ یہی کچھ ابھی بھی ہورہا ہے۔ 
سوال ہے کہ زرداری نے آخر یہ سب کیوں کیا۔ جواب صرف ایک ہے جو تسلی بخش ہوسکتا ہے، زرداری نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ دیکھیں سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ افواہیں تو بہت ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ زرداری خود بھی خائف ہیں کہ کہیں سپریم کورٹ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کے بعد اُن پر بھی جھپٹ نہ پڑے کہ تم نے کہاں سے اتنی دولت کمائی اور انہیں خفت اُٹھانی پڑی۔ شاید اسی لیے وہ رفتار دھیمی رکھنا چاہتے ہیں لیکن پھر فریال تالپور کے حوالے سب کچھ کر دینا تو جو الزامات رشوت ستانی کے ان پر اور ان کی بہن پر لگتے ہیں، اس میں تو مزید شدّت پیدا ہوجائے گی جو کسی طرح بھی پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہے۔ ہم صرف لکھ کر دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں، کیا ہوگا، آئندہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا علم غیب کو ہے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: