Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیشی کارکردگی ہندوستانی کرکٹ انتظامیہ کیلئے لمحہ فکریہ

 
میچ شروع ہونے سے پہلے ہی بنگلہ دیش کی شکست نوشتہ دیوارتھی لیکن اس بات کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا کہ مہمان ٹیم ہندوستانی وکٹوںپر اس کے تباہ کن بولنگ اٹیک کے خلاف دونوں اننگز میں100سے زائد اوورز کھیلنے میں کامیاب ہو جائے گی
 
اجمل حسین۔ نئی دہلی
 
لگاتارٹیسٹ میچوں کی پہلی اننگز میں تیسری بار ہندوستان کا600سے زائد اور مہمان ٹیموں کا 400یا اس سے زائد رنز بنانے کا ریکارڈ جہاں ایک جانب اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں اب وکٹوں نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے یا وکٹیں اب اس حکمت عملی کے تحت تیار کی جارہی ہیں کہ پہلے 3 روز اور چوتھے روز کے نصف تک تو اس کی خصوصیت صرف بیٹنگ بمقابلہ بیٹنگ کی اور آخری ڈیڑھ دن میں اسپن بولنگ بمقابلہ بیٹنگ کی ہو اور ظاہر ہے ایسی صورت میں اگر چوتھے یا پانچویں روز خود ہندوستانی ٹیم کو بیٹنگ کرنا پڑے تو حریف ٹیم کی غیر موثر اسپن بولنگ کے خلاف ہوم پچوں پر رنز کے انبار لگانے میں مہارت رکھنے والے بلے باز کسی دقت کے بغیر جیت کا مطلوبہ ہدف بآسانی پار کرسکتے ہیں اور اگر مہمان ٹیم کو آخری ڈیڑھ دن بیٹنگ کرنا پڑے تو انہیں مطلوبہ ہدف تو دور کی بات اس کا نصف پورا کرنا بھی نہ صرف بھاری پڑجائے ۔
ہوم سیریز میں ایسا تسلسل سے دیکھنے میں آرہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہاف سنچری، سنچری ڈبل سنچری حتیٰ کہ ٹرپل سنچری بنانے میں افتتاحی بلے باز سے لے کر 7ویں اور آٹھویں نمبر تک کے بلے باز کو دشواری محسوس نہیں ہوئی اور مہمان ٹیم کی دوسری اننگز میں میزبان اسپنروں کو فی کس5یا پانچ سے زائد وکٹ لے کر حریف ٹیم کے بلے بازوں کا جلوس نکالنے میں کوئی دقت نہیں آئی۔ایسی ہی صورت حال کمزور اور ناتواں ٹیم بنگلہ دیش کے خلاف واحد ٹیسٹ میچ میں دیکھنے میں آئی۔جس میں ہندوستانی ٹیم نے تو بنگلہ دیش کو فالو آن پر مجبور نہیں کیا لیکن بنگلہ دیش نے ہندوستانی ٹیم کے پہلی اننگز کے ہمالیائی اسکور کا دلیری سے جواب دیتے ہوئے اسے ضرور دوبارہ بیٹنگ کرنے پر مجبور کر دیا۔اس کی بھی وجہ یہی تھی کہ آخری ڈیڑھ دن مہمان ٹیم کو ہی بیٹنگ پر مجبور کر کے اپنے اسپنروں کو اس کی بلے بازی کی صف میں مار کاٹ کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
آسٹریلیا، جنوبی افریقہ ،نیوزی لینڈ اور انگلستان کے بر عکس بنگلہ دیش نے ہندوستانی پچ پر ہی ہندوستان کو زبردست ٹکر دیتے ہوئے سب کو حیران کر دیا۔ اس واحد ٹیسٹ میچ میں بنگلہ دیش نے بھی میچ کو نہ صرف آخری دن کے تقریباً آخری سیشن تک لے جانے میں کامیابی حاصل کی بلکہ رنز کے زبردست بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا اور فاسٹ اور اسپن کے ملے جلے اٹیک کے خلاف 100سے زائد اوورز تک مزاحمت کرتے رہے۔ مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو بنگلہ دیش اپنی ناقص فیلڈنگ اور تیسرے فاسٹ بولر خاص طور پر مستفیض الرحمٰن کی عدم موجودگی کے باعث ہارا ہے ورنہ وہ ہندوستان کو پہلی اننگز میں 450تک روک سکتے تھے اور پہلی اننگز میں ہی 38رنز کی سبقت بھی حاصل کر سکتے تھے۔پجارا جس وقت11 اور پھر21رنز پر تھے تو دونوں بار خوش قسمت رہے کہ پہلی سلپ میں آوٹ ہونے سے بال بال بچے اور 83رنز بنا گئے۔مرلی وجے اس وقت رن آوٹ ہونے سے بال بال بچے جب وہ36رنز پر تھے۔لیکن اس کے بعد وہ سنچری بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
میچ شروع ہونے سے پہلے ہی بنگلہ دیش کی شکست نوشتہ دیوار ہو گئی تھی لیکن اس کا تو کسی کوگمان بھی نہیں تھا کہ وہ ہندوستانی پچوںپر اس کے تباہ کن بولنگ اٹیک کے خلاف دونوں اننگز میں100سے زائد اوورز کھیلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جب اس وقت دنیاکی سب سے مضبوط اور عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر فائز اس ہندوستانی ٹیم کے خلاف بنگلہ دیش جیسی ٹیم دباو میں بھی تقریباً400رنز بنا سکتی ہے تو ہندوستانی ٹیم کو چلانے والوں کے لیے یہ کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی بولرز خواہ وہ فاسٹ ہوں یا اسپن۔ جب ہوم پچوں پر حریف ٹیموں حتیٰ کہ بنگلہ دیش کو بھی بڑا اسکور بنانے سے نہیں روک سکتے تو ان بولروں سے کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایشیا خاص طور پر ہندوستان سے باہر کھیلیں گے یا اسی ماہ سے شروع ہونے والی آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز میںٹیم کے غیر مفتو ح رہنے کا سلسلہ برقرار رکھ سکیں گے کیونکہ آسٹریلیا کی بیٹنگ مضبوط ہے اور وہ پوری تیاری سے آرہی ہے۔ نیوزی لینڈ سے بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز تک کم و بیش ہر میچ میں ہندوستانی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو حریف فاسٹ بولرز کے خلاف کھیلنے میں کافی دشواری ہوتی رہی۔ کئی بار افتتاحی رفاقت 50رنز سے پہلے ہی ٹو ٹ جانا اور کچھ میچوں میں 100رنز تک پہنچتے پہنچتے 3، 4 وکٹ گنوا دینا فاسٹ بولنگ کے خلاف اس کی کمزوری ظاہر کرتی ہے ۔
******

شیئر: