Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موت کے سوداگرپھرسرگرم ہوگئے

 
دہشتگردوں کی فکر اور سیاسی نظریات کو کنٹرول کرنے والوں پر کاری ضرب لگائے جانے تک شدت پسندوں کی پیداوار جاری رہیگی
 
ارشادمحمود
 
موت کے سوداگر پھرسرگرم ہوچکے ہیں۔ملک بھر میں ایک بار پھر دھماکوں کی گونج سنائی دی۔فرقہ وارانہ بنیادوں پر کچھ سیاسی اور مذہبی شخصیات پر بھی حملے کیے گئے۔مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں ترقی کے پہیے کو الٹا گھمایا جائے۔یہ قصہ لاہور سے شروع ہوا اور رفتہ رفتہ ملک کے دیگر حصوں تک پھیل گیا۔
پولیس اور فوج کے جوانوں نے بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا لیکن مشکل یہ ہے کہ 20 کروڑ لوگوں کے ملک میں ہر عمارت اور نامور شخصیت کے ساتھ پہرے دار نہیں رکھے جاسکتے۔خفیہ ادارے فعال اور سرگرم تو ہیں لیکن دہشت گردوں کے ارادوں اور عزائم کی کھوج لگانے اور انہیں بروقت ناکام بنانے کی استعداد میں مزید اضافے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
گزشتہ 3،4 سال میں پاکستان نے بڑی کامیابی کے ساتھ دہشت گردوں، ان کے حامیوں اور سرپرستوں کا سر کچلا۔ انہیں کمین گاہوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالااور جیل کی کال کوٹھریوں میں سڑنے کو چھوڑا لیکن اس کے باوجود ایسا لگتاہے کہ رسی جل گئی ہے لیکن ابھی بل نہیں گیا۔چراغ جب بجھ رہاہوتاہے تو اس کا شعلہ پوری قوت کے ساتھ بھڑکتاہے۔دہشت گردوں کے یہ آخری وار ہیں۔ اللہ کا شکرہے کہ اب ملک میں ان کا کوئی نام لیواباقی نہیں۔وہ زمانہ لد گیا جب ہزاروں لوگ ان کےجنازوں کو کندھا دیتے اور سیاستدان انہیں خراج تحسین پیش کرتے تھے۔آج ایسا تصورکرنے والے معاشرے کے اچھوت بن چکے ہیں۔مولانا فضل الرحمان اور سمیع الحق بھی انہیں قومی دھارے میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔
نیشنل ایکشن پروگرام کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مساجد اور مدارس میں پائے جانے والے شدت پسند بھی محتاط ہوگئے۔سرکاری اداروں نے ایسے اماموں اور علماء کا ناطقہ بندکیاجو نفرت انگیز تقاریر کرتے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے تھے۔اب وہ بھی سرخ لکیر عبور کرنے سے قبل سو بار سوچتے ہیں۔شہر آباد ہیں اور بازار رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ گلیوں میں لگے ناکے اٹھ چکے ہیں۔بھتہ خور غائب ہوچکے ہیں۔بندوق کی نوک پر سیاسی جماعتوں کےلئے چندہ جمع کرنے والوں کا نام ونشان باقی نہیں رہا۔ شہریوں کے چہرے اطمینان اور سکون سے تمتما رہے تھے کہ دشمن نے ایک گہری چال چلی۔ایک نہیں ایک ساتھ2 دھماکے کرڈالے تاکہ پاک چین راہ داری کے ساتھ آنے والی عالمی سرمایہ کاری کو روکا جاسکے۔ پاکستان کو ایک بار پھر غیر محفوظ ملک ثابت کیا جاسکے جہاں دہشت گردوں کا راج ہے۔شہریوں کا اطمینان اور ریاستی اداروں پر بحال ہوتاہوا اعتماد ایک بار پھر متزلزل کردیا گیا۔پاکستان کے حریف بخوبی جانتے ہیں کہ امن کا طویل وقفہ پاکستان کو اپنے پاوں پر کھڑا کرسکتاہے۔یہ ایک ایسا ملک ہے جو صرف راہداری ہی لینا شروع کردے تو خوشحالی کے تمام دروازے چوپٹ کھل سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پرعزم لوگوں کا ملک ہے۔ جو بحرانوں اور مسائل کا بہادری سے مقابلہ کرنے کا گر جانتے ہیں۔مشکل ترین حالات میں بھی گھبراہتے ہیں اور نہ ہتھیار ڈالتے ہیں۔صابر اور شاکر عوام نے ماضی میں دہشت گردی کے بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کیا لیکن سرنہیں جھکایا۔وہ اب بھی پرعزم ہیں لیکن حکومت کو جہاں اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنا ہوگی وہاں اپنے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی تاکہ ان کی عداوت میں کمی آسکے۔لاہور حملے کے بعد بھی افغانستان سے کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے لیکن جب تک افغانستان سے اخوت اور اعتماد کے رشتے مستحکم نہیں ہوں گے اس وقت تک صدر اشرف غنی دوستی اور محبت کے دعوے تو کرتے رہیں گے لیکن ان کے خفیہ ادارے پاکستان کی جڑیں کاٹتے رہیں گے۔
توقع ہے کہ حکومت اور عسکری ادارے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن وار کریں گے۔ان کے سیاسی اورنظریاتی سرپرستوں کو بھی بے دست وپا کرنے کی سبیل نکالیں گے کیونکہ محض طاقت کے استعمال سے چند گروہوں اور افراد کا قلع قمع کیا جاسکتاہے لیکن دہشت گردوں کو نظریاتی غذا فراہم کرنے والوں کا کچھ بگاڑا نہیں جاسکتا۔جب تک ان کی مذہبی فکر اور سیاسی نظریات کو کنٹرول کرنے والوں پر کاری ضرب نہیں لگائی جاتی اس وقت تک ملک میں دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی پیداوار جاری رہےگی۔
اگر چہ کسی اور موضوع پر بات کرنے کا یہ محل نہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جعلی ادویہ فروخت کرنے والے بھی دہشت گردوں سے کم نہیں۔وہ شہریوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔محض منافع خوری اور دولت کی ہوس کے مارے یہ لوگ ہرروز موت بانٹتےہیں لیکن کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں۔اب پنجاب حکومت نے جعلی دوائیں فروخت کرنے والوں کے خلاف ایک قانون پاس کیا تو سب کی چیخیں نکل گئی۔وہ یہ بھول گئے کہ کوئی دن جاتا نہیں کہ جعلی دوائیوں کے باعث شہری ہلاک نہ ہوتے ہوں۔
رئیس طبقات ملک میں علاج کراتے ہی نہیں۔انہیں مقامی معالجوں کی مہارت پراعتماد ہے اور نہ دوائیوں پربھروسہ۔اشرافیہ کو معمولی سا فلو بھی ہوجائے تو وہ لندن اور دبئی تشریف لے جاتے ہیں۔دواکی ضرورت پڑھ جائے تو ولایت سے منگوا لیتے ہیں۔چند دن قبل ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔کہنے لگے سعودی عرب عمرے کی سعادت حاصل کرنے گیا۔طبعیت کچھ بگڑی تو معالج سے رجوع کیا۔ انہوں نے پرانا نسخہ دیکھا اور کہا کہ تشخیص تو درست ہے لیکن شاید ادویہ جعلی ہیں۔وہی ادویہ جدہ سے خریدیں تو فوری افاقہ ہوگیا۔ صرف یہی نہیں چند سال قبل پرویز مشرف گرفتار ہوئے تو ملک میں علاج کرانے سے انکار کردیا۔کہنے لگے کہ ان ڈاکٹروں نے میرے والد کو بھی ماردیاتھا ۔میں لندن سے علاج کراوں گا۔
جعلی ادویہ کی فروخت کا کاروبار اپنے عروج پر ہے اور ہر اسٹور پر یہ ادویہ سرعام فروخت ہورہی ہے۔اللہ بھلا کرے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا انہوں نے ان جعلسازوں بلکہ موت کے سوداگروں کے خلاف علم جہاد بلند کیا ہے۔دنیا کے ہر ملک نے جعلی ادویہ بنانے والوں اور فروخت کرنےوالوں کے خلاف نہ صرف عبرت ناک سزائیں مقرر کی ہیں بلکہ انہیں نشانہ عبرت بھی بنایا جاتاہے تاکہ انسانی زندگی سے کھیلنے کا تصور بھی نہ کیاجاسکے۔
امید ہے کہ پنجاب حکومت معاشرے کو ایسے عناصر سے پاک کرنے کی سعی جاری رکھے گی۔دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلی کیلئے بھی مشعل راہ بنے گی اور وہ بھی اپنے اپنے صوبوں میں جعلساز کمپنیوں کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔
******

شیئر: