Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلی اور تیسری

 
پولیس کو لے لیجئے، کہنے کو تو یہ عوام کی خدمت کےلئے بنائی جاتی ہے،مگر یہ عوام کی لترول کرنے، قانون ہاتھ میں لینے، جرم و مجرم سے لا علم رہنے اور معصوم کو ملزم قرار دینے میں مگن رہتی ہے 
 
شہزاد اعظم
 
پہلی دنیا، کر ہ ارض کا وہ خطہ ہے جوترقی یافتہ ممالک پر مشتمل ہے مگر اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہاںسارے کے سارے ممالک ہی مثالی ہیںبلکہ وہاںاکا دکا ایسے ملک بھی ہیں جو تیسری دنیا کے کھڑ پینچ ممالک کی ٹکر کے ہیں۔ اسی طرح تیسری دنیااس روئے زمین کا وہ حصہ ہے جہاںپھسڈی ممالک آباد ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہاں سارے کے سارے ممالک ہی ترقی سے ناآشنا ہیں بلکہ ایسے ممالک بھی ہیں جوپہلی دنیا کے ”چکا چوند“ ممالک کا انتہائی موثر انداز میں منہ چڑا سکتے ہیں۔پہلی اور تیسری دنیا میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ پہلی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار،انصاف،جان و مال کی سلامتی ا ور امن وغیرہ جیسے بنیادی حقوق میسر ہیں جبکہ تیسری دنیا کے زیادہ تر ملکوں میںتعلیم، صحت، روزگار،انصاف،جان و مال کی سلامتی ا ور امن وغیرہ جیسے بنیادی حقوق کا فقدان ہے ، ان کے علاوہ باقی سب کچھ میسر ہے۔ پہلی دنیا میں اعلانیہ حقوق کے علاوہ متعدد ”خاموش حقوق“ ایسے ہیں جو ہر کسی کوبن مانگے ہی مل جاتے ہیں مثال کے طور پرپہلی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں آنوں بہانوںمختلف عنوانات کے تحت ایک سے زائدمونثوں کو شرکت ِ حیات عطاکرنے کا خاموش حق حاصل ہے جبکہ تیسری دنیا کے ممالک میں ”اعلانیہ حقوق“ کے علاوہ متعدد ”خاموش حقوق “بھی ایسے ہیں جو کسی کو مانگنے سے بھی نہیں مل پاتے ۔ مثال کے طور پرہمارے وطن عزیز جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ہر مرد کوایک سے زائد شادیاں کرنے کا اعلانیہ حق حاصل ہے۔ اس کے باوجود مردانِ پاکستان کو یہ حق حاصل کرنے کی کامل آزادی نہیں۔ اس حوالے سے پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ ہم جیسا نوجوان 16سال کی عمر سے 4کے خواب دیکھنا شروع کرتا ہے مگر جب 20 برس کا ہونے کے باوجود خواب حقیقت نہیں بنتا تووہ تعداد کم کر کے 3کے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے پھر25برس کا ہونے کے باوجود اس کاخواب حقیقت نہیں بنتا تو وہ تعداد 2تک لے آتا ہے مگر جب 30 کی عمر کو پہنچنے پر بھی وہ ناکام رہتا ہے تو وہ اپنے خواب کو محض ایک شریک ِ حیات تک محدود کر دیتا ہے اور انتظار و انتظام کرتے کرتے 48 برس کی عمر میں دولہا بن کر 10یا بمشکل 12سال کی شادی شدہ زندگی روتے جھینکتے ،کلبلاتے ، پچھتاتاتے گزار کر 60سال کی اوسط عمر میں بیوی کو بیوہ بنا کر دنیا سے نکل لیتا ہے۔
پہلی اور تیسری دنیا میں خواص و عوام کے حوالے سے بھی انتہائی واضح فرق پایاجاتا ہے مگر اس فرق کی وضاحت کرنے سے قبل یہ حقیقت ذہن میں راسخ کرنا بے حد ضروری ہے کہ پہلی دنیا میں” خواص“ سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکومت کی آنکھوں کا تارہ ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد” آٹے “کے برابر ہوتی ہے جبکہ” عوام“ سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جویا تو بڈھے، فرتوت، کھپٹ قسم کے ہوتے ہیں اور یا پھر کسی نہ کسی وجہ سے حکومت کی عنایات سے محض وقتی طور پر محروم رہ جاتے ہیں، ان میں زیادہ تر تعداد غیر ملکی تارکین و پناہ گزینوںکی ہوتی ہے اور یہ محض 2فیصد یعنی آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔
تیسری دنیا میں ”خواص“ وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام پر مسلط ہوتے ہیں۔ یہ خود ہی اپنی آنکھوں کا تارہ ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے ۔ ان میںیا تو بڈھے، فرتوت، کھپٹ قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور یا پھر وہ ہستیاں جو کسی نہ کسی وجہ سے ، کسی ددھیالی ، ننھیالی یا سسرالی ناتے کی وجہ سے یا بلا وجہ سرکاری عنایات سے مستفید ہونے کی حقدار قرار دے دی جاتی ہیں۔ان کی تعدادمحض 2فیصد یعنی آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے جبکہ عوام سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی تعداد” آٹے“ کے برابر ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے عوام ایک لحاظ سے ذرا خوش قسمت نہیں ہیں کہ انہیں قدم قدم پر مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ جسے دیکھو، وہ عوام کی ایسی کی تیسی کرنے پر تلا دکھائی دیتا ہے۔اس حوالے سے خاصی طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے تاہم یہاں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ چند عنوانات ہی گِنوانا پسند فرمائیں گے :
پولیس کو لے لیجئے، کہنے کو تو یہ عوام کی خدمت کے لئے بنائی جاتی ہے، قانون کے تحفظ اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانا اس کے فرائض میں شامل ہوتا ہے مگر یہ عوام کی لترول کرنے، قانون ہاتھ میں لینے، جرم و مجرم سے لا علم رہنے اور معصوم کو ملزم قرار دینے میں مگن رہتی ہے ۔ گاہے بگاہے اپنی بندوق سے بے قصور لوگوں کے گولی شولی مار دیتی ہے۔ ڈاکٹروں کو لے لیجئے ، ان میں شامل نوجوان ، ادھیڑ عمراورکھوسٹ معالجین نے اپنی اپنی تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ یہ لوگ اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہڑتالیں کر دیتے ہیں، مریضوں کے علاج سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہ حکومت سے کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے مطالبے پورے کرو، پھر ہم مریضوں کا علاج کریں گے۔یوں ”دکھی انسانیت کے زیادہ تر خادم“اپنی انا اور ضد کے باعث ”دکھے انسانوں“ کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ دل کاکوئی مریض لاہور میں دل کے اسپتال پہنچ جائے تولاکھوں کے عوض اس کے دل کی شریان میں چند سو روپے کا جعلی، سستا اور ناقص اسٹنٹ ڈال دیاجاتا ہے۔وہ بے چارہ تیزی کے ساتھ ملک عدم کے سفر کی تیاری کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مریض دوا لینے کے لئے اسپتال چلا جائے توگاہے اسے نقلی دوا دے دی جاتی ہے جسے استعمال کر کے وہ موت کی نیند سو جاتا ہے۔ یوں نہیں تو دوا ساز و دوا فروش ہڑتالیں شروع کر دیتے ہیں اور مریض دوائیں نہ ملنے کے باعث ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ موت کے سوداگر خطرناک کیمیکلز ملا کرسفید مائع تیار کر کے اسے دودھ کے بھاو فروخت کر دیتے ہیں جو شیر خئاروں اور ان کے اماں ابا کو بتدریج موت کی جانب دھکے دیتے دیتے بالآخر قبر میں پہنچا دیتا ہے ۔ جو مریض نہ ہو، دوا نہ کھاتا ہو، دودھ نہ پیتا ہو، اسے موبائل فون چھیننے والے، لوٹ مار کرنے والے ، دکانیں لوٹنے والے گولی فائرنگ کر کے مار ڈالتے ہیں۔ جو اتنا غریب ہو کہ اس کی جیب میںلٹوانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو تو اسے خود کُش بمبار تہس نہس کر دیتا ہے۔ اگر وہ دہشتگردی سے بھی بچ جائے اور کسی اسٹاپ پر بس وغیرہ کا انتظار کر رہا ہو تو تیز رفتاربس یا کوچ اُس کھڑی ہوئی ہستی کو سڑک پر لٹا کر اس پرچڑھ جاتی ہے ، بعد ازاں لوگ اسے اٹھا کر دفنا دیتے ہیں۔اگر عوام میں شامل افراد پولیس، معالجین، اسپتالوں، دہشتگردوں، ڈاکوﺅں ، لٹیروں ، تیز رفتار گاڑیوں وغیرہ سے بھی بچ جائیں تو حکومت مہنگائی کا بم گرا کر غریب عوام کو ٹھکانے لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی ۔ اگر حکومت ٹیکسوں کی شکل میں یہ بم گرانا بھول جائے تو بجلی، گیس اورپیٹرول وغیرہ جیسی ناگزیر اشیاءاور خدمات کے نرخ اتنے بڑھا دیتی ہے کہ زندہ رہنے والابے انتہاءکوشش کرتا ہے مگر وہ جی نہیں پاتا۔
******

شیئر: