Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خطیبِ رسولﷺ ، سیدنا ثابت بن قیسؓ

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے رسولکی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو جبکہ میری آواز تو بلند ہے،مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں جہنمی نہ بن جاؤں
 
عبدالمالک مجاہد۔ ریاض
 
بنو تمیم عرب کا مشہور اور بڑا قبیلہ ہے۔ ایک مرتبہ ان کا وفد مدینہ منورہ آتا ہے۔ یہ بدو لوگ تھے، انہیں اپنے شاعروں اور خطیبوں پر بڑا فخر تھا۔ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو انہوں نے آپکے رہائشی کمروں کے قریب جا کر زرو زور سے کہا: محمد() ذرا اپنے گھر سے باہر آئیے۔ اللہ کے رسولکو ان کا اس طرح نام لے کر پکارنا اچھا نہ لگا۔ صحابہ کرام سے میں کسی کی مجال نہ تھی کہ اس طرح بات کریں یا آپ کو نام لے کر پکاریں، اس لیے کہ آپ کو آپ کے نام سے پکارنا تو بے ادبی ہے۔ کیا ہم اپنے والد کو اس کے نام سے پکار سکتے ہیں۔ اس لیے یا محمد() کہہ کر کبھی نہیں پکارنا چاہیے۔
 
اللہ کے رسولاپنے گھر سے باہر تشریف لائے تو ملاقات کے لیے آنے والوں کا سردار بولا
 ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہم اپنے قبیلے کے لیے فخر ومباہات کا اظہار کر سکیں۔ اس لیے آپ ہمارے شاعر اور خطیب کو اجازت دیں کہ وہ اپنے اشعار اور خطابت کے جوہر دکھاکردوسروں پر اپنی برتری ثابت کر سکیں۔ 
 
اس زمانے میں عربوں کو اپنی زبان دانی پر بڑا فخر تھا۔ شاعر اپنے اشعار سے لوگوں میں آگ لگا دیتے۔ وہ اشعار کیا پڑھتے لوگ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے۔ اسی طرح خطیب بھی بڑا کمال دکھاتے، وہ تقریر کرتے، ایسی خوبصورت اور بہترین تقریر، اس میں الفاظ کا انتخاب اس قدر خوبصورت ہوتا کہ لوگ حیرت کے سمندر میں گم ہو جاتے اور ان پرخطیب کے کلام کا سحر طاری ہو جاتا۔ اللہ کے رسول کی ایک حدیث ہے:بعض خطابات اور بیانات جادو اثر اور مسحور کن ہوتے ہیں۔
 
اللہ کے رسولسے اجازت پا کر بنو تمیم کا شاعر اشعار پیش کرتا ہے۔ پھر ان کا خطیب عطارد بن حاجب کھڑا ہوکر بڑی زبردست تقریر کرتا ہے۔ اپنے قبیلے کی خوبیاں ،اپنے مال و دولت اور کثرت تعداد کا ذکر کرتا ہے۔ پھر لوگوں سے پوچھتا ہے: بتاؤ! زمانے بھر میں ہمارے جیسا کوئی اور شخص ہے؟ وہ اپنے قبیلے کے فخر بیان کر کے کہتا ہے کہ آئے کوئی ہمارا مقابلہ کرے۔ اللہ کے رسولنے شاعر اسلام سیدنا حسان بن ثابتؓ  کو اشارہ کیا اور انہوں نے بنو تمیم کے شاعر کا بڑا خوبصورت جواب دیا۔ پھر آپنے اپنے صحابی ثابت بن قیسؓ  کو اشارہ کیا کہ اب تم بنو تمیم کے خطیب کے جواب میں اپنا خطاب پیش کرو۔
 
سیدنا ثابت بن قیسؓ انصار کے مشہور قبیلے بنو خزرج کی ایک شاخ بنو نجار سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتے ہیں۔وہ اتنے زبردست خطیب تھے کہ انہوں نے چند منٹوں میں عقیدہ توحید، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اللہ کے رسولکے مقام ومرتبہ اور آپ کے اخلاق وکردار کا بہت خوبصورت تذکرہ کیا۔ انہوں نے آپ کی شان بیان کرتے ہوئے کہا 
ہمارے آقا نے لوگوں کو ایمان کی دعوت دی۔ مکہ مکرمہ کے مسلمان آپ پر ایمان لائے، ان میں آپ کے رشتہ دار بھی تھے۔ یہ لوگ حسب و نسب کے لحاظ سے بہترین لوگ تھے،یہ لوگوں میں سے خوبصورت ترین چہروں والے اورتمام لوگوں سے بڑھ کرحسین ترین اعمال والے ہیں۔ پھرحضرت ثابت ؓنے انصار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا :ہم لوگ اللہ کے مدد گار اور اس کے رسول کے وزراء ہیں۔ ان کا خطبہ کیا تھا، خوبصورت اور گہرے معانی سے بھرپور موتیوں کی ایک لڑی تھی۔ ان کا خطاب بنو تمیم کے خطیب کا نہایت خوبصورت جواب تھا۔
 
بارگاہ رسالت کے شاعر اور خطیب خاموش ہوئے تو بنو تمیم کے سردار نے تسلیم کیا کہ اللہ کے رسولکا شاعر ہمارے شاعر سے بہتر اور آپکا خطیب ہمارے خطیب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ 
 
معزز قارئین کرام!: سیدناثابت بن قیسؓ  جن کا ذکر آپ نے ابھی پڑھا ہے،بہت سی خوبیوں سے مالا مال تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی اونچی آواز سے نوازا تھا۔ وہ بڑی بھاری اور گرج دار آواز کے مالک تھے۔سامعین ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کے جادو میں کھو جاتے۔ قدرت نے ان میں فصاحت و بلاغت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔ یہ شاعر بھی تھے، پڑھنا لکھنا بھی جانتے تھے اور اعلیٰ درجے کی عقل سلیم کے مالک تھے۔ آپ نے دیکھا کہ جب بنو تمیم کے خطیب نے اپنی خطابت کے جوہر دکھائے تو اس کا جواب دینے کے لیے اللہ کے رسولنے نے سیدنا ثابت بن قیسؓ ہی کاانتخاب فرمایا۔
 
سیدنا ثابت بن قیس ؓمدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے۔ بڑے بہادر اور شجاع تھے۔مدینہ منورہ کا پرانا نام یثرب تھا۔ یہاں دو بڑے قبیلے اوس وخزرج آباد تھے۔ دونوں قبائل کے بڑے آپس میں چچا زاد بھائی تھے اور یمن سے ہجرت کر کے یثرب میں آباد ہو گئے تھے۔ دونوں قبائل کے درمیان گاہے بگاہے چھوٹی بڑی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ یثرب کی دولت پر اصل قبضہ یہودیوں نے جمایا ہواتھا۔ وہ ان دونوں قبائل کو سود پر رقم دیتے اور دونوں کو آپس میں لڑاتے رہتے۔ اسلحہ کی تیاری اور فروخت کا کاروبار بھی یہودیوں نے سنبھال رکھا تھا۔یہ دونوں قبائل یہودیوں سے اسلحہ خریدتے اور آپس کی لڑائیوں میں استعمال کرتے۔ اوس اور خزرج کے درمیان ہجرت سے5 سال پہلے بعاث کے مقام پربہت بڑی لڑائی ہوئی تھی جس میں ثابت بن قیس نے بھی شرکت کی تھی۔ بعاث کا مقام آج کل مسجد قبا کے قرب و جوار میں بنتا ہے۔ 
 
ثابت چونکہ بلند پایہ شاعر اور زبردست خطیب تھے،اس لیے انہوں نے اپنی خطابت اور شاعری سے اپنی قوم کو خوب بھڑکایااور انہیں لڑائی پر آمادہ کیا۔ اس لڑائی میں دونوں طرف سے کتنے ہی لوگ مارے گئے۔ خزرج قوم ہر چند کہ تعداد میں بڑی تھی مگر اس جنگ میں میدان قبیلہ اوس کے ہاتھ رہا۔ اللہ تعالیٰ نے بعد میں جلد ہی اہل یثرب پر بہت بڑا انعام فرمایا جو امام کائنات سید ولد آدم محمدکی تشریف آوری کی صورت میں ہوا۔جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے آئے تو یہ دونوں قومیں آپس میں شیر و شکر ہو گئیں۔ تمام پرانے اختلافات ختم ہو گئے اور یہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
 
ثابت بن قیس کی زندگی کا وہ دن بڑا ہی خوبصورت اور روشن تھا جب مکہ مکرمہ سے سیدنا مصعب بن عمیرؓ اللہ کے رسولکے سفیر کی حیثیت سے یثرب میںتشریف لاتے ہیں۔ ان کا قیام حضرت اسعد بن زرارہؓ کے گھر میں تھا۔ ان کا تعلق بھی بنو نجار سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنامصعب بن عمیرؓ  کی زبان میں نہایت عجیب و غریب تاثیر رکھی ہوئی تھی۔ وہ بات کرتے تو لوگوں کے دلوں میں اترتی چلی جاتی۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے تو اللہ کے رسولنے ان کی کامیابی کے لیے خوب دعائیں کی تھیں۔ وہ بڑی حکمت اور محبت بھرے انداز میں لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے۔ قرآن پاک کی تلاوت اتنی خوبصورت کرتے کہ دلوں میں اتر جاتی۔ سیدنا اسعد بن زرارہؓ اپنی قوم کے سردار تھے، لوگ ان کے ساتھ بے حد عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ یہ ان خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جنہوں نے مکہ مکرمہ کی ایک گھاٹی میں اللہ کے رسولسے ملاقات کی تھی اور اسلام قبول کیا تھا۔ ایک روشن صبح کو ثابت بن قیس اپنے قبیلہ کے سردارحضرت اسعد بن زرارہؓ کے گھر جاتے ہیں۔سیدنا مصعب بن عمیرؓکی محبت اور پیار بھری گفتگو سنی۔ ثابت عربی زبان کی نزاکتیں اورباریکیاں خوب جانتے اور سمجھتے تھے ۔ بس گویا مصعب کی گفتگو ان کے دل کی آواز تھی۔ قرآن ان کے دل میں اترتاچلا گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں قوم کا زبردست خطیب اور شاعر اسلام کی دعوت قبول کر چکا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ ان کے والدہ کبشہ بنت واقد بڑی عقل مند اور سمجھدار خاتون تھیں ،وہ بھی اسلام قبول کر لیتی ہیں۔ انہی کے گھرانے کی ایک معزز خاتون حبیبہ بنت سھل بھی اسلام قبول کرتی ہیں۔ آنے والے ایام میں ان کی شادی ثابت بن قیس سے ہو جاتی ہے۔
 
مدینہ کی فضا بدل چکی تھی، کفر اور شرک کی بجائے اب ہر گھر میں مؤمن وموحد مسلمان تھے۔ وہ اللہ کے رسولکی تشریف آوری کے منتظر تھے۔ آخر کار وہ مبارک دن بھی آہی گیا جب اللہ کے رسولہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔
 
اللہ کے رسولجب خیر و عافیت سے مدینہ طیبہ پہنچ گئے تو مسلمانوں کوآپ کی تشریف آوری کی بے حد خوشی تھی۔ شروع میں آپ کچھ عرصہ کے لیے بنو نجار کے ایک فرزند سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کے ہاں بطور مہمان ٹھہرے۔ مدینہ کے انصار نے اللہ کے رسولکی راہوں میں آنکھیں بچھائیں اور بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔ سیدنا ثابت بن قیسؓ  تو بڑے زبردست خطیب تھے۔ انہوں نے اللہ کے رسولکا خیر مقدم کرتے ہوئے عرض کی : اللہ کے رسول ہم آپ کا دفاع اسی طرح کریں گے جس طرح اپنی جانوں اور اولاد کا دفاع کرتے ہیں۔ مراد یہ تھی کہ اگر کوئی آنکھ آپ کی طرف میلی نگاہ سے دیکھے گی تو اس آنکھ کو پھوڑ دیا جائے گامگرسیدنا ثابتؓ نے ایک اہم سوال بھی پیش کیا کہ اللہ کے رسول،یہ تو بتائیں، پھر ہمیں ملے گاکیا؟ اللہ کے رسول نے اپنے اس پیارے صحابی کے جواب میں فرمایا: تمہیں اس کے بدلے جنت ملے گی۔ سیدنا ثابت بن قیسؓ  سمیت اس مجلس میں موجودتمام انصار نے یک زبان ہو کر کہا : اللہ کے رسول! ہم اس پر دل و جان سے راضی ہیں۔ کسی بھی مسلمان کا اسلام قبول کرنے سے واحد مقصد رضائے الہٰی اوراللہ کی جنت کا حصول ہے۔ جسے جنت عطا ہوگئی اور جہنم سے نجات مل گئی وہی در حقیقت کامیاب ہے۔
 
اللہ کے رسولنے اپنے صحابہ کرام کو سادگی کا درس دیا۔ انہیں تعلیمات دیں کہ دیکھیں کوئی آپ کی خوشامد نہ کرنے پائے۔ آپ کے منہ پر تعریف نہ کرے۔سیدنا ثابت بن قیسؓ  تو شاعر اور خطیب تھے، لوگ ان کی تعریف بھی کرتے تھے۔ آج بھی کوئی شاعر عمدہ اشعار پڑھتا ہے یا کوئی اچھا خطیب خطاب کرتا ہے یا کوئی مصنف اور مؤلف ہے تو لوگ انہیں داد دیتے ہیں اور ان کی تعریفیں بھی کرتے ہیں۔ چونکہ اسلام نے منع کیا ہے کہ کوئی آپ کے منہ پر بے جا تعریف نہ کرے۔ سیدنا ثابت بن قیسؓ  کو یہ قلق اور پریشانی لاحق تھی کہ میںیہ تو پسند کرتا ہوں کہ لوگ میری تعریف کریں مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات اللہ کی ناراضی کا سبب بن جائے اور میرے تمام اعمال ضائع ہو جائیں۔ یہ قلق اور پریشانی انہیں ایک دن اللہ کے رسولکی خدمت میں لے جاتی ہے۔ ثابت اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں: اللہ کے رسول! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے نیک اعمال غارت نہ ہو جائیں ۔ اس لیے کہ میں تو خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں۔ اللہ کے رسولنے اپنے ساتھی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ثابت! کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تم قابل تعریف زندگی گزاروپھر اللہ کی راہ میں شہید ہو جائو اور جنت میں داخل ہو جائو۔
 
سیدنا ثابت بن قیسؓ  کی ایک بار پھر یہ خوش نصیبی تھی کہ انہیں رسالت مآب کی زبان اقدس سے دوسری مرتبہ جنت کی خوش خبری ملتی ہے۔ ثابت اللہ کے رسولکے ساتھ ہر معرکہ میں، ہر میدان میں شرکت کرتے ہیں اور اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ اسی دوران ایک اور واقعہ پیش آ جاتا ہے اور انہیں تیسری مرتبہ اللہ کے رسولکی زبان اقدس سے جنت کی خوشخبری مل جاتی ہے۔
 
قرآن پاک میں آیت کریمہ نازل ہوتی ہے: {یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوتِ النَّبِيِّ…}’’ ایمان والو! اپنی آوازیں اللہ کے نبیکی آواز سے اونچی نہ کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سب اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں پتہ تک نہ چلے۔ سیدنا ثابت نے یہ آیت سنی تو اپنے گھر میں بیٹھ گئے۔ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ ان کی آواز قدرتی طور پر بلند تھی۔ جب بات کرتے تو عام آدمی سے ان کی آواز بلند ہوتی تھی۔ جہاں تک اللہ کے رسولکی آواز کا تعلق تھا تو وہ معتدل تھی، نہ بہت زیادہ پست اور نہ ہی بہت زیادہ اونچی۔سیدنا ثابت بن قیسؓ  سوچ رہے ہیں کہ میری آواز تو صحابہ کرام کی نسبت کہیں زیادہ اونچی ہے۔ جب میں اللہ کے رسول سے ملاقات کرتا ہوں تو میری آواز تو آپ کی آواز سے سے بھی بلند تر ہوتی ہے۔ اس ساری بات کا معنیٰ اور مفہوم یہ ٹھہرا کہ میں تو جہنمی ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس نے میرے رسولسے اپنی آواز کو بلند کیا، اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور جس کے اعمال ضائع ہو گئے وہ جہنم میں جائے گا۔
 
اپنی آخرت سنوارنے کی یہ سوچ و فکر بڑی مثبت تھی۔ یہاں تک کہ سیدنا ثابتؓ نے چند دنوں کے لیے مسجد میں با جماعت نماز پڑھنا بھی چھوڑ دی۔ وہ اللہ اور اس کے رسولکی نا فرمانی کے خوف سے اپنے گھر میں بیٹھ کر روتے رہتے اور یہی سوچتے کہ میں تو جہنمی ہوں۔ اب نہ تو اللہ کے رسولکو اپنی شکل دکھاتے نہ مسجدمیں آتے۔
 
ان کی ہمسائیگی میں سیدنا سعد بن معاذؓ  رہتے تھے۔ اللہ کے رسول پنے صحابہ کرام سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ہر ایک صحابی کی خبر گیری فرماتے۔ اگر بیمار ہوتا تو اس کی تیمار داری کے لیے تشریف لے جاتے۔ چند دن گزر گئے۔ حضرت ثابت ؓ  مسجد میں نظر نہ آئے تو اللہ کے رسولنے سیدنا سعد بن معاذؓ سے پوچھا: ابو عمرو! تمہارے ہمسائے ثابت بن قیسؓ  کا کیا حال ہے ؟کیا وہ بیمار ہے کہ مسجد میں نظر نہیں آرہا۔ سیدنا سعد ؓنے عرض کی: اللہ کے رسول! ہاں وہ میرے ہمسایہ ہیں مگران کی بیماری کی تو کوئی اطلاع نہیں۔
 
شام ہوئی توحضرت سعد بن معاذؓ ان کے گھر چلے گئے۔ ان کو بتایا کہ اللہ کے رسولتمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ تم کہاں ہو؟حضرت ثابتؓ نے جواب دیا:دیکھو معاذ! اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:’’ اللہ کے رسولکی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو۔‘‘ جبکہ میری آواز تو بلند ہے۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں جہنمی نہ بن جاؤں۔ حضرت سعد بن معاذؓ نے اللہ کے رسول سے ملاقات کی۔ آپ کو ثابت کا پیغام پہنچایا۔ اللہ کے رسول نے ثابت کے لیے تیسری مرتبہ جنت کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: نہیں بلکہ وہ تو  جنتی ہے۔
 
حضرت ثابت بن قیسؓ کی زندگی کے کتنے ہی خوبصورت واقعات ہیں۔ ان میں غزوہ بنو المصطلق کا واقعہ بھی بڑا اہم ہے۔ بنو المصطلق مکہ اور مدینہ شریف کے درمیان قدید کے علاقے میں رہتے تھے۔ 5یا 6ہجری میں اللہ کے رسولکو اطلاع ملتی ہے کہ یہ قبیلہ مسلمانوں پر حملہ کی تیاری کر رہا ہے۔ اللہ کے رسولاس کی سرکوبی کے لیے اپنے صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لے جاتے ہیں۔ ان مجاہدین میںسیدنا ثابت بن قیسؓ  بھی شامل تھے۔ اس غزوہ میں کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی۔ دشمن پر ہیبت طاری ہو گئی اور وہ اپنے مال مویشی اور دیگر سامان چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ مال غنیمت میں مال مویشی،عورتیں اور بچے بھی حصہ میں آئے۔ ان عورتوں میں بنو المصطلق کے سردار قبیلہ کی بیٹی بھی شامل تھیں۔ انہوں نے ثابت سے کہا:میں تمہیں کچھ رقم ادا کردوں گی، تم مجھے لونڈی بنانے کی بجائے مکاتب بنا لو۔ مکاتب کا معنی یہ ہے کہ غلام یا لونڈی اپنے مالک کو ایک طے شدہ مبلغ ادا کر کے آزادی حاصل کر لیتا ہے۔ ثابت نے موافقت کر لی۔ سیدہ جویریہ نے مبلغ اکٹھا کرنا شروع کر دیا چنانچہ مدد حاصل کرنے کے لیے وہ اللہ کے رسولکی خدمت میںحاضر ہوتی ہیں۔ چونکہ سردار قبیلہ کی بیٹی تھیں۔ اس لیے آپ نے بنفس نفیس اس سے شادی کرنا مناسب سمجھا اور ثابت بن قیس کو مبلغ ادا کر دیا۔ جب انصار مدینہ کو معلوم ہوا کہ اللہ کے رسولنے سیدہ جویریہ سے شادی کر لی ہے تو انہوں نے بنو المصطلق کے ایک سو گھرانوں کو جو مسلمان ہو چکے تھے، آزاد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا: یہ لوگ چونکہ اب اللہ کے رسولکے سسرالی رشتہ دار بن چکے ہیں، اس لیے ہم انہیں قید میں نہیں رکھیں گے۔ اسی طرح بنو المصطلق کے باقی لوگوںنے بھی اللہ کے رسولکے ساتھ دشمنی چھوڑ دی۔ اس پورے واقعہ میں ثابت بن قیس کا بہت عمدہ اور خوبصورت کردار تھا کہ انہوں نے سیدہ جویریہ کے ساتھ مکاتبت کر لی جس کے نتیجے میں سیدہ جویریہ کویہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی ماں بن گئیں۔
 

شیئر: