Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارک نماز کافر ہے یا محض فاسق!

 
تارکِ نماز سے اللہ کاذمہ بری ہوجاتاہے جواس کے ملّتِ اسلامیہ سے خروج کی دلیل ہے ،اگروہ اسلام پر ہو تا تو اُسے ذمہ حاصل ہوتا ہے
 
گزشتہ سے پیوستہ
 
محمد منیر قمر۔ الخبر
 
قارئین کریم تارک نماز کے کفر یا فسق کی یہ بحث کئی اقساط پر پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔ اس سلسلے کا آخری مضمون روشنی کے گزشتہ شماروں
 میں شائع ہوا تھا۔ اب اس بحث کو مزید آگے بڑھایا جارہاہے۔
 
سابقہ مضامین میں ہم نے تارکِ نماز کے بارے میں کفر کی رائے رکھنے والوں کے قرآنی دلائل ذکر کئے ہیں جبکہ ان کا استدلال متعدد احادیث سے بھی ہے جن میں سے بعض احادیث ترکِ نماز کے انجام کے ضمن میں بھی ذکر کی جاچکی ہیں ۔مثلاً 
صحیح مسلم ، ابو داود ، ترمذی ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت جابر ؓسے مروی ارشادِ نبوی ہے :بندۂ مومن اور کفر کے مابین صرف ترک ِنماز (کاہی فرق) ہے ۔ 
جبکہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں  
بندۂ مومن اور شرک وکفر کے ما بین صرف نماز ہی کافرق ہے۔
 
دوسری حدیث سننِ اربعہ ، صحیح ابن حبان ،مستدرک حاکم اورمسند احمد میں حضرت بریدہؓسے مروی ہے جس میں وہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے نبی اکرم کویہ فرماتے ہو ئے سنا : ہمارے اور ان کفار ومشرکین کے مابین جو عہد ہے وہ نماز ہے جس نے اسے چھوڑ دیا، اس نے کفر کیا ۔
 
تیسری حدیث ہبۃ اللہ لا لکائی کی کتاب شرح اصولِ اعتقادمیں ہے ، نبی اکرم کے آزاد کردہ غلا م حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا 
بندے اور اس کے کفر وایمان میں وجۂ تمیز یہ نماز ہی ہے، جب اس نے نماز چھوڑ دی تواس نے شرک کیا ۔
 
چوتھی حدیث معجم طبرانی کبیراورکتاب الصلٰوۃ مروزی میں ہے ، حضرت عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے ہمیں وصیت کی اور فرمایا  
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ اور جان بوجھ کر نماز مت چھوڑ و اور جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی ، وہ ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہو گیا ۔
 
 بعض روایات انفرادی طور پر تو ضعیف و متکلم فیہ ہیں البتہ ایک دوسرے کی شاہد ہیں ۔  
ان میں سے ایک مسند احمد و معجم طبرانی کبیر میں حضرت معاذ ؓسے مرفوعاً مروی ہے جس میں ہے 
جس نے کوئی فرضی نماز ترک کی ، اس سے اللہ کاذمہ بری ہوگیا۔
 
ان میں سے دوسری روایت میں حضرت امّ ایمنؓ  مرفوعاً بیان فرماتی ہیں 
جان بوجھ کر نماز نہ چھوڑو،پس جس نے جان بو جھ کر نماز چھوڑ دی ، اس سے اللہ اور اس کے رسول کاذمہ بری ہو گیا ۔
 
 ان میں سے تیسری روایت ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ابو دردا ء ؓسے مروی ہے جس میں وہ بیان کر تے ہیں کہ مجھے ابو القاسم   نے یہ وصیت فرمائی 
میں جان بوجھ کر نماز نہ چھوڑوں ، جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑدی، اس سے اللہ کاذمہ بری ہوگیا ( یعنی وہ اللہ کے ذمہ سے نکل گیا) ۔
 
اِن آخری تینوں روایات کے مجموعی مفاد سے معلوم ہواکہ تارکِ نماز سے اللہ کاذمہ بری ہوجاتاہے جواس کے ملّتِ اسلامیہ سے خروج کی دلیل ہے کیو نکہ بقول علامہ ابن قیم ؓاگروہ اسلام پر ہی ہو تا توپھر اُسے اسلام کاذمہ حاصل ہوتا ہے ۔
 
اسی موضوع کی آٹھویںحدیث صحیح ابن حبان ، معجم طبرانی کبیر ، معجم طبرانی اوسط اور مسند احمد میں ہے جو کہ نماز پر عدمِ پابندی کے ضمن میں بھی گزر چکی ہے جس میں حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاصؓ  فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم نے نماز کا ذکر کر تے ہو ئے فرمایا 
جو شخص اس پر محافظت کر ے گا ا سکے لئے یہ قیامت کے دن نورِ ایمان وراہِ صراط ، دلیلِ خیر اور ذریعۂ نجات بن جائے گی اور جس نے اس پر محافظت وپابندی نہ کی تویہ نہ اس کے لیٔے نور ہو گی ، نہ بر ہان ودلیلِ خیر اور نہ ہی ذریعۂ نجات ۔اور آگے فرمایا
قیامت کے دن اس شخص کا حشر قارون وفرعون ، ہامان اور ابیّ بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ 
اس حدیث کی تشریح ہم نماز میں عدمِ پابندی کے ضمن میں ذکر کر چکے ہیں کہ ان بدنامِ زمانہ لوگوں کے ساتھ اس کاحشرکیوں ہو گا ؟ اور نماز پر عدمِ محافظت وعدمِ پابندی کے نتیجہ میں عالمِ کفر کے ان4 ستونوں کے ساتھ حشر ہو نے کو بنیا دبناتے ہو ئے بھی تارکِ نماز کے کفر کی رائے اختیار کی گئی ہے ۔   
 
 ان کے دلائل میںسے نویں دلیل وہ ارشادِ نبوی ہے جو ترمذی وابن ماجہ، الایمان لابن ابی شیبہ اور مسند احمد میں ہے جسے تعدّدِ طرق کی بنا پر صحیح قرار دیا گیا ہے ۔اس میں حضرت معاذ بن جبل ؓ بیان کر تے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا  : امرِ دین کی چوٹی اسلام ہے اور اس کاستون نماز ہے ۔ 
اس حدیث سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کامقام اسلام میں ایسے ہے جیسے کسی خیمے کاستون ہو اور جس طرح ستون گر جانے سے خیمہ ہی گر جاتاہے اسی طرح نماز چھوڑ دینے سے بھی اسلام چھوٹ جاتاہے ۔ امام احمدؒنے تارکِ نماز کے کفر پر اسی حدیث سے بعینہٖ یعنی ہو بہو ایسے ہی استدلال کیا ہے ۔
 
ان دلائل میں سے ایک دسویں حدیث صحیح بخاری شریف،سنن نسائی اور دیگر کتب میں حضرت انسؓسے مروی ہے جس میں ارشادِ نبوی ہے 
جس نے ہماری طرح نماز پڑ ھی ، ہمارے قبلے کی طرف رُخ کیا اور ہماراذبیحہ(گوشت) کھایاوہ مسلمان ہے ،اس کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور اس پر وہی واجبات ہیں جوہم پر ہیں ۔
اس حدیث سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ نبی اکرم نے اُسے ان تینوں امورکی موجودگی میں مسلمان کہا ہے، اگر یہ نہیں تووہ مسلمان نہیں ہو گا ۔ دوسرے یوں کہ اگر کوئی شخص مشرق (غیر جہت ِ قبلہ ) کی طرف منہ کرکے نماز پڑ ھے تووہ مسلمان نہیں ہوگا اور کہاں وہ شخص جو بالکل ہی نماز ترک کردے ،وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے ؟
 
تارکِ نماز کے سلسلہ میں قائلینِ کفر ایک گیا ر ہویں حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں جوکہ صحیح بخاری ، ترمذی ونسائی ، ابن حبان وابن خذیمہ ، معجم طبرانی کبیر، بیہقی،ابی یعلی اور مسند احمد میں حضرت جابرؓسے مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا  
اسلام کی بنیاد 5چیزوں پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔
 
اس حدیث سے کئی طرح سے استدلال کیا گیا ہے ۔پہلی صورت یہ کہ نبی اکرم نے اسلام کو ایک قبہ یا ایک گنبد قرار دیا ہے جو 5ارکان پر کھڑا ہو ، پس جب اس کا کوئی رکن گر جائے تو وہ پورا ہی گر جاتا ہے ۔ یوں بھی استدلال کیا گیا ہے کہ نبی اکرم نے ان5 ارکان کو اسلام قرار دیا ہے اور یہ پانچوں ہی اسلام کی حقیقت کے اجزاء ہیں یعنی اس کی حقیقت ِ مسمّی میں داخل ہیں ۔ پس جب ان میں سے بعض چیزیں نہ رہیں تو مسمّیٰ ہی نہ رہا ۔ خصوصاً جبکہ وہ چیز اس کے ارکان میں سے ہونہ کہ ایسے اجزاء سے جو کہ اس کے ارکان نہیں جیسے گھر کی دیو ار ہے جب وہ گر جائے تووہ گھر ہی گر جاتا ہے ۔ بر عکس اس کے کہ کوئی لکڑ ی یا اینٹ گر جا ئے تو گھر گر نے نہیں پاتا ۔ 
 
گو یا نماز گھر کی وہ دیو ار ہے جس پر شہتیر رکھا ہو تاہے ۔ جب وہ دیوار ہی نہ رہے گی تووہ گھر یا کمرہ بھی نہیں رہے گا۔ اسی طرح جب کوئی نماز ہی کاتارک ہو گا تو اس کااسلام منہدم ہو جائے گا ۔ 
 
اسی طرح قائلینِ کفرکا استدلال ان احادیث سے بھی ہے جن میں مذکور ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر میں یا ڈیرے پر نماز پڑ ھ چکاہواور جماعت ہو تی دیکھے تو دوبارہ اس میں شامل ہو جا ئے ۔ یہ نماز اس کے لئے نفلی ہو جا ئے گی جیسا کہ اس مسئلہ کی تفصیل بھی ہماری ایک دوسری کتاب ’’نماز کی جماعت و امامت ‘‘ میں ذکر کی جاچکی ہے کہ پہلی فرض اور دوسری پڑ ھی گئی نماز نفل ہو گی ۔ اس میں ہم نے اس موضوع پر دلالت کر نے والی متعدد احادیث بھی ذکر کی ہیں جبکہ زیرِ بحث مسئلہ پر دلالت کر نے والی حدیث نسائی ، مؤطا امام مالک ،صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم اور مسند شافعی و احمد میں حضرت محجن بن ادرع اسلمی ؓسے مروی ہے جس میں وہ بیان کر تے ہیں کہ میں نبی اکرم کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اذان ہوئی ۔ نبی اکرم اٹھ گئے اور نماز پڑ ھ کر جب لو ٹے تودیکھا کہ میں اسی جگہ بیٹھا ہوں تو آپ نے فرمایا 
تمہیں نماز سے کس چیز نے روکاہے ؟ کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟ ۔ 
اس پر حضرت محجن ؓ فرماتے ہیں  
میں مسلمان ہوں البتہ میں نے نماز اپنے اہل وعیال کے ساتھ پڑ ھ لی تھی۔
 تب آپ نے فرمایا  : جب تم آؤتولوگوں کے ساتھ مل کر نماز پڑ ھ لوچاہے تم پہلے نماز پڑ ھ ہی کیوں نہ چکے ہو ۔
اِس ارشاد کے الفاظ :کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ 
اِن میں نبی اکرم نے مسلم وکافر کے مابین تفریق کر نے والی چیز نماز کو قرار دیا ہے ۔ اس حدیث کے بین السطور میں یہ چیز محسوس کی جاسکتی ہے کہ اگر تم مسلمان ہو تے تو نماز پڑ ھتے اور اگر نماز کے بغیر بھی کسی کااسلام ثابت ہو تا تو نبی اکرم اس شخص کو جس نے 
آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑ ھی تھی ، اسے آپ یہ نہ کہتے کہ کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟ گویا یہ الفاظ تارکِ نماز کے کفر کی دلیل ہیں۔ 
 

شیئر: