Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشتگردی کے اسباب کے خلاف کوئی آپریشن

 
پا ک، چین امن کو ششوں کو سبو تاژکرنے کی سازش کی جا رہی ہے تاکہ علاقے میںکشید گی میں اضافہ ہو
 
سید شکیل احمد
 
لا ہو ر میں دہشت گردی کے ایک روز کے وقفے کے بعد پشاور اور قبائلی علا قے میں دہشت گردی کے 4 افسوس نا ک واقعات رونما ہوئے ، جس میں 7 افراد شہید اور9 شدید زخمی ہو ئے ۔ ایک خودکش حملہ پشاور میں ججز کو لے جانے والی گاڑی پر کیا گیا ۔ دوسرا حملہ مہمند ایجنسی کے ہیڈکوارٹر غلنئی میں پو لیٹیکل انتظامیہ کے دفتر کے گیٹ کے قریب ہو ا جبکہ شبقدر میں مہمند ایجنسی سرحد آپریشن کے دوران ایک خود کش حملہ آور نے خودکو اڑا لیا۔حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے کا رروائی کر کے 5 دہشت گرد ہلا ک اور67 مشکو ک افراد کو گرفتار کرلیا۔ اس کے علا وہ باجو ڑ ایجنسی کے ہیڈ کوا رٹر میں کر فیو نا فذ کر دیا گیا ہے ۔ ان دھماکو ں اور دہشت وتخریب کا ری کے واقعات کے بعد مختلف جانب سے رد عمل بھی سامنے آیا ہے جس میں سرکا ر کے علا وہ سرکا ری ادارو ں کے سربراہ ، سیا ست دان اور عوامی حلقے شامل ہیں۔ ایسے سانحات پر رد عمل کا سامنے آنا فطری عمل ہے ، جو ہونا بھی چاہیے مگر افسو س تو یہ ہے کہ عمو ما ًایسے درد نا ک واقعات کو بھی بعض عنا صر اپنے مقاصد کےلئے اچھالتے ہیں۔ پاکستان 19،20 سال سے بھیا نک دہشت گردی کا شکا ر ہے۔ اس ہشت گردی کا منبع ایک شخصیت ہے مگر دہشت گردی پر تنقید کر نے والے یا مذمت کر نے والے اس کا ذکر کسی کھا تے میں نہیں کر تے ۔وہ شخصیت ہے پر ویز مشرف ،وہی پاکستان میں دہشت گردی لایا تھااور پرائی آگ کے شعلو ں سے پا کستان کو پھو نک دیا مگر ہو تا یہ ہے کہ جب بھی ایسا بہیما نہ واقعہ رونما ہو تا ہے تو حکومت اور حکومتی اداروںکو تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کبھی دہشت گردی کا ایسا کوئی سنگین واقعہ رونما ہو تا ہے تو بعض سیکور ٹی ادارو ں کی جانب سے لمحہ مو جو د میں اطلا ع جا ری کر دی جا تی ہے کہ حکومت کو پہلے ہی دہشت گردی کے واقعات کے خدشے سے مطلع کردیا گیا تھا ۔اگر پہلے ہی نشاند ہی کر دی جا تی ہے تو حکو مت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کہ وہ ان اطلا عات کی روشنی میں بند وبست کیوں نہیں کر تی ۔ جہا ں تک پاکستان کے سیا ست دانوں کا تعلق ہے تو اس میں سے وہ ایسے افسو س ناک واقعات پر بھی اپنی دکا ن چمکانے سے نہیں چوکتے حالا نکہ ان میں سے ایسے کئی سیا ست دان اور جما عتیں ہیں کہ وہ ماضی قریب میں خود بر سراقتدار رہی ہیں اور ان کے زمانے میں بھی تو اتر سے دہشت گردی خاص طورپر خودکش بم دھما کے ہوتے رہے ، مثلا ً جب کے پی کے صوبہ میں اے این پی اور پی پی کی متحدہ حکومت تھی، اس وقت خود کش دھماکے تسلسل کے ساتھ جا ری تھے اور ہر مرتبہ یہ مو قف پیش کیا جا تا تھا کہ خود کش بمبار کو روکنا دنیا میں سب سے مشکل امر ہے۔ اب وہی عنا صر تنقید کر رہے ہیں ۔
سب سے زیا دہ دلچسپ تنقید اور تبصرہ عمران خان کا ہے۔ان کو اس دہشت گردی میں کہیں بھی پر ویز مشرف کا چہر ہ نہیں نظر آتا کہ انھوں نے پرائی آگ کے شعلے پا کستان میںبھڑکائے ہیں مگر ان کی منطق ان کے دیگر سیا سی مطالبات کی طرح انو کھی ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک فاٹا کو صوبہ کے پی کے میں ضم نہیںکیا جا ئے گا ،اس وقت تک دہشت گردی نہیں رکے گی۔ اب تک قوم یہ سمجھ رہی تھی کہ دہشت گردی میں ملو ث عنا صر کے کچھ اورہی مقاصد ہیں مگر عمر ان خان کے انکشاف سے معلوم ہو ا کہ یہ ساری دہشت گردی فاٹا کو خیبر پختونخوا میںضم کر انے کی مہم کا حصہ ہے ۔ایسے ایسے انوکھے انکشافات کیے جا تے ہیں کہ عقل دنگ رہ جا تی ہے ۔ 
سانحہ لا ہو ر کے بعد پنجا ب میں آپر یشن کا غلغلہ اٹھا، گویا اب پنجا ب میں آپر یشن کے بعد دہشت گرد ی کا قلع قمع ہو جا ئے گا۔ آپریشن ملک میں تو کسی نہ کسی ڈھنگ میں جا ری ہے اور پر آپر یشن کے مو قع پر حکومت کی جانب سے دعوی کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی ہے ، دہشت گر دی پر قابو پالیا گیا ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات ختم تو نہیں ہو ئے البتہ ان میںوقفہ آتا رہا ہے اور جب تک دہشت گردو ں کے مرکز محفو ظ ہیں، اس وقت ان کا خاتمہ ممکن نہیںہو سکتا ، چنا نچہ پہلی ضرورت ہے کہ اس کو ختم کیا جا ئے ۔ یہ با ت حقیقت رکھتی ہے کہ جو عنا صر پا کستان میں دہشت گردی میں ملو ث ہیں ،ا ن کی پشت پناہی کر نے والے بھی ہیں ، اس مر تبہ حکومت پا کستان نے صحیح جا نب قد م اٹھایا ہے کہ پا کستان کے دفتر خارجہ نے افغان نا ئب سفیر عبدالنا صر کوطلب کر کے افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کےلئے استعمال ہو نے پر شدید احتجا ج کیا ہے ۔پاکستا ن کے دفتر خارجہ کا مو قف ہے کہ افغان حکومت اپنی سر زمین پاکستان کےخلا ف استعمال ہو نے سے روکے ۔ جماعت الاحرار افغانستان سے پاکستان میں دہشتگرد حملے کر رہی ہے اور افغانستان کی سرزمین ان کی پنا ہ گا ہ بنی ہو ئی ہے ۔ پا کستان نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پنا ہ گا ہو ں ، مالی معاونت کر نے والو ں اور سہولت کارو ں کے خلا ف فوری طو رپر کا رروائی کر ے ۔ 
افغانستان اور ہند میںجب بھی کوئی واقعہ رونما ہو تا ہے، لمحہ بھر کے وفقہ کے بغیر پاکستان پر بنا کسی ثبو ت کے الزام دھر دیا جا تا ہے جبکہ پا کستان کے پاس ٹھوس شواہد ہو تے ہیں مگر پا کستان کبھی براہ راست الزام چسپا ںنہیں کرتا ، ایسی کو نسی مجبو ری ہے، یہ اربا ب حل وعقد ہی بتا سکتے ہیں تاہم اس امر کا اندیشہ ہے کہ خطے میںپا کستان اور چین مل کر امن و امان کی جو کو شش کررہے ہیں،ان کو سبو تاژکرنے کی سازش کی جا رہی ہے تاکہ علاقے میںکشید گی میں اضافہ ہو جائے اور افغانستان میںامن کے سلسلے میںعلا قائی طا قتوں کا مجو زہ اجلا س نا کامی سے دوچار ہو جا ئے ۔ جب پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا سانحہ رونما ہو ا تھا، اس وقت فوجی قیا دت نے افغانستان اور نیٹو کوثبوت فراہم کئے تھے ، ان ثبوت پر کیا کا رروائی ہو ئی، عوام آج بھی بے خبر ہے۔
دہشتگردی کے واوقعات پا کستان میں سنگینی رکھتے ہیںجن کو نظر اند از نہیں کیا جا سکتا اور اس کا تدارک بھی لازمی ہے ۔ توقع ہے کہ چین اورپاکستان علا قائی امن کی کا وشو ں کو فروغ دینے میںقدم بڑھا ئیںگے ۔کسی رکا وٹ کو حائل نہیںہونے دیں گے چنا نچہ سیاست دانو ں کو چاہیے کہ وہ محض سیاست بازی نہ کریں ،یہ پا کستان کے استحکا م کا معاملہ ہے۔ وہ دہشت گردی کے مسئلے پر قومی کر دار اد ا کریں کیونکہ یہ پوری قوم سے متعلق ہے ۔
******

شیئر: