Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خوف زدہ اکثریت

 
 ہندو دھرم کے ٹھیکیداروں نے کبھی نچلی ذات کے لوگوں کو گلے نہیں لگایا ، ردعمل کے طورپر انہوں نے دیگر مذاہب کا دامن تھاما ہے
 
معصو م مرادآبادی
 
اسمبلی انتخابات میں اپنی شکست کی آہٹ محسوس کرتے ہوئے بی جے پی لیڈران ہرروز ایک ایسا فرقہ وارانہ بیان داغ رہے ہیں جس سے سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوجائے اور وہ ووٹوں کی فرقہ وارانہ تقسیم کا فائدہ اٹھاسکیں لیکن بی جے پی لیڈروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک رائے دہندگان ان کے دام فریب میں نہیں آئے ۔ امور داخلہ کے وزیر مملکت کرن رجیجونے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ” ملک میں ہندووں کی آبادی گھٹ رہی ہے اور ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ وہ تبدیلی مذہب پر یقین نہیں رکھتے جبکہ اس ملک میں اقلیتوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔“
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ کسی بی جے پی لیڈر نے ملک میں ہندووں کی آبادی کم ہونے اور اقلیتوں کی آبادی بڑھنے کا رونا رویا ہے۔ اس سے قبل بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈران مسلسل یہ الزام عائد کرتے رہے ہیںکہ مسلمان چونکہ خاندانی منصوبہ بندی پریقین نہیں رکھتے اس لئے ان کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جبکہ ہندو خاندانی منصوبہ بندی کی پیروی کرتے ہیں، اس لئے ان کی آبادی گھٹ رہی ہے۔ آپ کو یادہوگا کہ گزشتہ دنوں بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے ”4بیویاں اور 40بچے‘ ‘کا بیان بھی اسی تناظر میں دیا تھا۔ سنگھ پریوار کے لوگوں کو مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی فرضی آبادی کااتنا خوف ہے کہ وہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر ملک میں مسلمانوں کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو وہ ایک دن اکثریت میں آجائیں گے اور ہندو اقلیت میں پہنچ جائیں گے۔ 
شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو جہاں کی اکثریتی آبادی کو خوف زدہ کرنے کے لئے وہاں کی اقلیتی آبادی کے بڑھنے کا ڈھول پیٹا جاتا ہو لیکن ہمارے ملک میں فرقہ پرست اور فسطائی ٹولہ ہندووں کو مشتعل کرنے اور انہیں مسلم دشمنی پر آمادہ کرنے کے لئے ہر وہ بات کہتا ہے جوعقل وشعور کی کسوٹی پر کھری نہیں اترتی۔ سنگھ پریوار کے لوگ ہندووں کو مسلمانوں سے خوف زدہ کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس ملک کی زمینی صورت حال کیاہے۔ ہندو نہ صرف اس ملک کی غالب اکثریت ہیں بلکہ ملک کی تمام اہم تنصیبات پر ان ہی کا قبضہ ہے۔ حکومت، سیاست، تجارت اور صنعت ہر جگہ ہندووں کی اجارہ داری ہے اور انہیں کی طوطی بولتی ہے جبکہ بے چارے مسلمان اس ملک میں بدترین سیاسی ، معاشی ، تعلیمی اور سماجی پسماندگی کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود یہ مضحکہ خیز پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے کہ مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اس ملک کی اکثریت کو نگل جائے گی۔ 
کرن رجیجو کا تازہ ترین بیان اروناچل پردیش کانگریس کمیٹی کے ایک بیان کے جواب میں آیا ہے۔ اروناچل پردیش کانگریس کمیٹی نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ مودی سرکار اروناچل کو ہندواکثریتی صوبے میں بدلنے کی کوشش کررہی ہے۔ کرن رجیجو نے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہاہے کہ” مودی جی اروناچل کو ہندو اکثریتی صوبہ کیسے بناسکتے ہیں؟ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو آزادی حاصل ہے اور وہ امن سے رہتے ہیں۔“ انہوں نے کہاکہ” ملک میں ہندووں کی آبادی اس لئے کم ہورہی ہے کیونکہ وہ تبدیلی مذہب نہیں کراتے جبکہ اقلیتوں کی تعداد دوسرے ملکوں کی بہ نسبت یہاں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔“ کانگریس نے رجیجو کے بیان کو انتخابی فائدہ حاصل کرنے اور مذہبی صف بندی کی کوشش قرار دیا ہے۔ کانگریس ترجمان منیش تیواری نے کہاہے کہ 5صوبوں کے انتخابات میں شکست سامنے دیکھ کر بی جے پی مایوسی میں ایسے بیان دے رہی ہے۔ 
جہاں تک مسٹرکرن رجیجو کے اس بیان کا تعلق ہے کہ اس ملک میں ہندووں کی آبادی اس لئے کم ہورہی ہے کہ وہ تبدیلی مذہب نہیں کراتے جبکہ اقلیتوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر مسٹر کرن رجیجو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اقلیتوں کی تعداد میں اضافے کا بڑا سبب تبدیلی مذہب ہے تو اس سلسلے میں انہیں سنگھ پریوار کے ان لیڈروں سے رجوع کرنا چاہئے جو اس کا سبب خاندانی منصوبہ بندی پر عمل پیرا نہ ہونے کو قرار دے چکے ہیں۔ تبدیلی مذہب کے بارے میں ایک تلخ سچائی ہم مسٹر کرن رجیجو کے ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں، جس کا ذکر انہوں نے اپنے بیان میں نہیں کیا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ملک میں سب سے زیادہ تبدیلی مذہب کے واقعات ہندو دھرم میں ہوتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہندودھرم میں چھواچھوت اور ذات پات کا ایک ایسا خطرناک نظام موجود ہے جس میں پسماندہ ذاتوں کے لوگوں کو انسان ہی تصور نہیں کیاجاتا۔ہندودھرم کو ماننے والے دلتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے ساتھ صدیوں سے غیر انسانی سلوک کیاجارہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں دلت، ہندو مذہب ترک کرکے عیسائی، بودھ، یا مسلمان بنتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں دوسروں پر الزام عائد کرنے سے پہلے ہندو مذہب کے ٹھیکیداروں کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ وہ اپنے مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندو دھرم کے ٹھیکیداروں نے کبھی نچلی ذات کے لوگوں کو گلے نہیں لگایا اور ردعمل کے طورپر انہوں نے ہندومذہب ترک کرکے دیگر مذاہب کا دامن تھاما ہے۔ خود ہندوستانی آئین کے معمار ڈاکٹر بھیم راوامبیڈکر نے ذات پات کے نظام سے عاجز آکر بودھ دھرم اختیار کرلیا تھا۔ سنگھ پریوار کے لوگ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ہندودھرم میں شامل کرنے کے لئے ”گھرواپسی“ جیسا مضحکہ خیز پروگرام تو چلاتے ہیں لیکن وہ اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے۔ 
جہاں تک ہندووں کی آبادی گھٹنے اور اقلیتوں کی آبادی بڑھنے کا سوال ہے تو مردم شماری کے ماہرین پہلے ہی یہ ثابت کرچکے ہیں کہ اس ملک کی آبادی میں اضافے کی شرح تقریباً تمام فرقوں میں یکساں ہے۔ ہندووں اور مسلمانوں کی آبادی میں اتنا بڑا فرق موجود ہے کہ اگلے دوسوسال تک بھی اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ اس لئے ہندووں کے ذہنوں میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی کا خوف بٹھانے کا مقصد انہیں تنگ نظری اور تعصب کے اندھے کنویں میں دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں ۔ 
******

شیئر: