Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے ضابطگیوں پر شکوہ کناں خود خدمت کیوں نہیں کرتے

 
وہ سوچنے لگا کہ جھونپڑی نما دکانیں بنا ئیں تاکہ لوگ چھوٹے پیمانے پر تجارت کرسکیں
 
اُم مزمل۔جدہ
 
وہ دودھ پتی کی چائے بنا بنا کر تنگ آگئی تھی چنانچہ کہنے لگی کہ یہ آخری ٹرے بھجوارہی ہوں، اب کچن کا رُخ مت کرنا ۔ چھوٹے بھائی نے کہا”آہستہ بولیں،کہیں مہمانوں تک آواز نہ پہنچ جائے جنہیں اپنے وطن کی کوئی بات یاد رہی ہو یا نہیں لیکن اپنے علاقے کے ڈھابے پر بننے والی دودھ پتی کی یاد انہیں ضرور آتی ہے ۔ کہہ رہے تھے ”بھلا فلاسک کی چائے کوئی پینے والی ہوتی ہے ؟ مزہ تو جب ہے کہ آپ کے سامنے تازہ چائے دودھ، پتی ،الائچی ڈال کر تیارکرکے آپ کو پیش کی جائے۔ اس چائے کے آگے کوئی مشروب ایک آنکھ نہیں بھاتا جب آپ تھکے ہوئے ہوں۔ گرما گرم چائے سردی ، گرمی ، بہار اور خزاں ہر موسم میںجانفرا لگتی ہے جس سے انسان بشاشت محسوس کرتاہے۔ 
وہ کمر پر ہاتھ رکھے اسے ہوبہو تقریر دہراتے دیکھ کر انتظار کرتی رہی کہ وہ اپنی بات مکمل کرے تاکہ وہ کہہ سکے کہ بس یہی ایک چیز یاد رکھی انہوں نے، اسکے علاوہ مہمانوں کو کوئی موضوع نہیں ملا وقت گزاری کا؟وہ اشتیاق سے سنی ہوئی بات بتانے لگا کہ وہ بتارہے تھے کہ راستے میں ہر جگہ سڑکوں پر رش کا سامنا کرنا پڑا، وہ جہاں رہتے ہیں وہاں ایسی صورتحال سے واسطہ نہیں پڑتا۔ وہ تیز لہجے میں کہہ بیٹھی ”پھر آئے کیوں ہیں ہمارے یہاں، ہمارے شہر کی خرابی بیان کرنے ، ٹریفک کے اصول سمجھانے یا سڑک پر موجود ٹھیلے لگانے والوں کی تربیت فراہم کرنے؟ وہ اسے غصے میں آجانے کے باعث آہستگی سے کہنے لگا ”آہستہ بات کریں ناں ! “ وہ بھی غصہ پر قابو پاچکی تھی مسکراتے ہوئے کہنے لگی فکر مت کرو عمر رسیدہ لوگوں کے کان ذرا کمزور ہوجاتے ہیں،وہ اونچا سنتے ہیں اسی لئے ہماری آواز ان تک نہیں پہنچی ہوگی۔ 
وہ اسکی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتانے لگاکہ ان میں ایک حضرت تو ایسے بھی ہیں جو عمررسیدہ نہیں ،ان کے کان تو درست حالت میں ہونگے۔ ہو سکتا ہے کہ ان تک ہماری کہانی پہنچ گئی ہو۔ پھر کچھ یاد آنے پر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں بھی چائے کی باتوں میں یہ بھول گیا کہ انہوں نے سادہ پانی کا گلاس منگوایا تھا۔ وہ گیارہویں جماعت کے طالب علم کو جامع انداز میں سمجھا رہی تھی کہ اب اگر کوئی بات شہر کی ترقی کی ہو تو ادب کے دائرے میں رہ کر کچھ اس طرح کی بات کرنا کہ وہ جو وطن سے دور رہ کر اپنی قابلیت ، صلاحیت اور محنت دوسروں کے شہروں کی ترقی میں صرف کررہے ہیں اور اپنے وطن میں بے ضابطگیوں پر شکوہ کناں ہیں ، خود اپنی مٹی کی خدمت کیوں نہیں کرتے تاکہ ہمارے قابل لوگوں کی ذہانت سے ہمارے وطن میں بھی لوگوں کو سہولت ملے۔ وہ پانی کا گلاس لئے باہر گیا تو وہ انتظار ہی کررہا تھا۔ اس کا چہرہ سنجیدہ تھا اور محسوس ایسا ہی ہورہا تھا جیسے وہ بھائی بہن کی گفتگو سننے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ 
چند دنوں کے بعد ہی معلوم ہوا کہ انکے رشتے دار مہمان کے صاحب زادے کا رشتہ ان کے لئے آیا ہے۔سہیلیاں جمع ہوگئیں ، پوچھنے لگیں کیا بات ہوئی تھی تمہاری ایسی کہ وہ صاحب جن کو ہمارے ملک اتنے سال تک واپسی کا خیال تک نہ آیا، ہمیشہ یہاں رہ جانے کی بات کرنے لگے ہیں؟ یہاں کی سڑک بنوانے اور اس کے گرد اونچی چوڑی راہ داری بنانے اور اس کے نیچے تمام پائپ لائنیں بچھانے کی بات کررہے ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ باہر کے ممالک میں سڑک چونکہ چھوٹی اینٹوں سے بنی ہوتی ہے تو اس کے بار بار توڑ نے اور بنانے کی بجائے شاہراہ کے دونوں اطراف لوگوں کے پیدل چلنے کی جو جگہ ہوتی ہے ،اسی کے نیچے دراصل تمام لائنیں بچھائی جاتی ہیں۔ اس طرح جب کوئی لائن خراب ہوجائے تو اس جگہ کی کھدائی کرکے نیچے بچھائے ہوئے تاروں وغیرہ کی مرمت ہوجاتی ہے ۔ سڑک کو توڑنے اور دوبارہ مرمت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔وہ سوچنے لگا کہ اب ہم اس پلان پر کام کریں گے کہ چلنے کی جگہ چوڑی بنائیں اور اس پر جھونپڑی جیسی شکل کی چھوٹی چھوٹی دکانیں بنا دیں تاکہ لوگ اس پر چھوٹے پیمانے پر تجارت کرسکیں اور سڑک پر گاڑیوں کی روانی میں روکاوٹ بھی نہ ہو۔
ایک کزن نے جو اسکے خیالات جانتی تھی کہ ٹریفک کے معاملات میں وہ ہمیشہ نئی نئی باتیں سوچا کرتی تھی،آج معلوم کرنا چاہ رہتی تھی کہ کیا اس نے اپنے رشتے کے سلسلے میں کچھ ایسی باتیں کی تھیں ؟ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ جو باتیں ہونے والی ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی ذریعے سے ہوکر رہتی ہیں۔ 
جو لوگ قابل ہیں ،تعلیم یافتہ ہیں، ان کا اپنے ملک میں واپس آکر خدمات انجام دینا کوئی انوکھی بات نہیں چاہے اس کا سبب کوئی بھی واقعہ کیوں نہ بن جائے۔
******

شیئر: