Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باہمت لوگ جیت جاتے ہیں یا کچھ سیکھ جاتے ہیں

 
آج ہمارے نوجوانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ناکامی کے خوف سے آگے نہیں بڑھتے
 
ابن علی۔ جدہ
 
گاڑی ورکشاپ میں پارک کرنے کے بعد میں نے وہاں کام کرنے والے لڑکے ”ننھے مکینک “سے اس کے استاد کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا استاد گاڑی چیک کرنے گئے ہےں، آتے ہی ہوں گے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے انتظار گاہ کی طرف میری رہنمائی کی۔اس دوران میں ورکشاپ کا جائزہ لینے لگا۔ وہاں ہر قسم کی گاڑیاں موجود تھیں اور لڑکے ان میں کام کر رہے تھے۔
میرے ایک دوست راشد نے سعید مکینک کے پاس گاڑی چیک کروانے کے لئے بھیجا ۔راشد نے سعید مکینک کی بڑی تعریفیں کی تھیں کہ آپ گاڑی ان کے پاس لے جائیں وہ ٹھیک کر دیں گے۔ ”ننھا مکینک “میرے پاس آیااور کہنے لگا کہ آپ کو استاد بلا رہے ہےں۔سعید نے مجھ سے ایک ماہر ڈاکٹر کی طرح سوال کئے اور میں جواب دیتا رہا۔ تقریباً10 منٹ کے سوال و جواب کے بعد اس نے لیپ ٹاپ منگوایا تو میں نے کہا کہ آپ سے پہلے بھی 3چار مکینکوں کو دکھا چکا ہوں ۔ وہ ہنستے ہوئے بولے، "سر آپ پھکر مت کرو ،تم راشد کا دوست ہے، تو اب ہمارا بھی دوست ہے۔“ لب و لہجے سے وہ کوئی تعلیم یافتہ شخص نہیں لگ رہا تھا۔ میں سوچنے لگاکہ یہ شخص ”ای ایف آئی“ یعنی ”الیکٹرانک فیول انجکشن“ گاڑیوں کا کام جانتا بھی ہے یا نہیں؟ اسی دوران انہوں نے لیپ ٹاپ پر بڑی تیزی سے انگلیاں چلانی شروع کیں تو میں ہکا بکا رہ گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے مجھے گاڑی کا ایک پرزہ دکھاتے ہوئے کہا کہ جناب بس آپ یہ الیکٹرانک سوئچ لے آئےں۔ میںبھائی کو اپنی گاڑی دے کربھیجتا ہوں آپ کے ساتھ۔ 
عبداللہ خان گاڑی چلاتے ہوئے مسلسل بولے جارہا تھا۔اس نے کہا کہ میں اسکول، کالج، یونیورسٹی اور پھر چین سے بھی اپنی فیلڈ میں ڈپلومہ کرکے آیا ہوں اور بھائی جان نے ابا کی بیماری کے بعد اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ابا کے بعد گھر میں سب سے بڑے وہی تھے چنانچہ ساری ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آگئی۔ایک جاننے والے نے انہیںورکشاپ پر بھیج دیا۔ اس وقت ان کی عمر بمشکل10 سال کی ہوگی۔ پھر19 سال کی عمر میں وہ پردیس آگئے۔ ان کو کام کرتا دیکھ کر ہر کوئی استعجاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ جنون کی حد تک اپنے کام سے لگاورکھتے ہیں۔ میں جب چائنا سے آٹو موبائل میں ڈپلومہ کرکے آیا، تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اب اسے سیکھنا میرے لئے مزید آسان ہوگا۔ آپ خود سوچیں کہ جس شخص کو کمپیوٹر کی بنیادی یعنی ”کاپی اینڈ پیسٹ“ کی بھی معلومات نہ ہوں، انہوں نے 45سال کی عمر میں صرف 2سال کے مختصر عرصے میں اس ہمالیہ کو سر کیا ۔انہوں نے نہ صرف سافٹ ویئر میں مہارت حاصل کی بلکہ ہارڈویئر میں بھی مکمل عبور حاصل کیا ۔
ہم اپنی مطلوبہ دکان پر پہنچے، سامان خریدا اور واپس روانہ ہوئے۔اس نے بتایا کہ پرزوں میں اکثر چھوٹی چھوٹی خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیںاور پھر مپیوٹر پرزوں والا معاملہ۔ایک عرصے تک ہم بھی لکیر کے فقیر بنے رہے پھربھائی نے خراب پرزوں پر کام شروع کیا۔ بھائی کے اس شوق اور جنون سے ہمارے باقی کام متاثر ہوئے۔ ایک ایک پرزے پر ہفتے اور مہینے لگتے لیکن پھر بھی پلے کچھ نہ پڑتا۔ اکتاہٹ، بیزاری، گراں اور ناممکنات جیسے الفاظ ان کی ڈکشنری میں نہیں تھے ۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے پہلی ہارڈ ڈرائیو ٹھیک کر کے گاڑی میں لگائی تو وہ بہت زیادہ خوش تھے۔ دنیا میں ایسی کوئی گاڑی نہیں جس کا کام کرنے سے انہوں نے انکار کیا ہو۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ سعید بھائی آپ نے نہ مکمل تعلیم حاصل کی ، نہ کوئی اسپیشل کمپیوٹر مہارت، پھر اس ٹیکنالوجی کو کیسے مات دی؟ انہوں نے ایک جاندار قہقہہ لگایا، اور کہا کہ میں آپ کو تھوڑی دیر کیلئے اپنے گاﺅں کی مسجد میں لے کر جانا چاہتا ہوں۔ میری عمر 10 سے 12 سال کے لگ بھگ ہوگی۔ مولوی صاحب جنگ موتہ کاواقعہ سنا رہے تھے۔ 3 ہزار کے مقابلے میں2لاکھ کا لشکر، وہ بھی مکمل کیل کانٹے سے لیس۔ مولوی صاحب نے حاضرین سے سوال کیا کہ ذرا غور کیجئے کہ 3 ہزار اور2 لاکھ کا کوئی مقابلہ ہے؟نہیں ناں، تو وہ کیا چیز تھی جس کی بنا پر مسلمان میدان میں ڈٹے رہے،میں آپ کو بتاتا ہوں۔ سب سے پہلے اللہ کریم کی مدد اور پھر اپنے آپ پر بھروسہ اور کامیابی کا یقین۔ یہ وہ تمام اعمال ہےں جو زندگی کے ہر میدان میں آپ کے کام آتے ہیں۔ 
اس دن کے بعد میں نے یہ باتیں اپنے پلے باندھ لیں۔ اب میں مشکل سے مشکل کام اللہ کریم کی مددسے،اپنی فہم و فراست سے، مجبوری سے نہیں، شوق سے اور ناکامی کے ڈر سے نہیں بلکہ کامیابی کے یقین کے ساتھ کرتاہوں، چاہے وسائل محدود ہوں، راستہ کتنا ہی کٹھن اور پر خطر ہو، چاہے کوئی ساتھ دے یا نہ دے۔ ہاں ایک دفعہ ارادہ کر لیا تو پھر صبر اور ہمت کا دامن نہیں چھوڑتا۔ یاد رکھیں، باہمت لوگ کبھی ہار انہیں کرتے، وہ جیت جاتے ہیں یا کچھ سیکھ جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں وہ فائدے میں رہتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس تو بڑی رحیم و کریم ہے کسی کی محنت رائگاں نہیں جانے دیتی۔
آج ہمارے نوجوانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ناکامی کے خوف سے آگے نہیں بڑھتے، کوشش ہی نہیں کرتے کہ جہاں ہے، جیسے ہے، ٹھیک ہے۔ کامیابی کے لئے کوشش کرناضروری ہے اور جس نے کوشش کی دراصل وہی کامیاب ہے۔ آپ چھوٹے بچے کی مثال لے لیں۔ وہ بار بار چلنے کی کوشش کرتا ہے، گرتا ہے، گرنے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے، اس کے باوجود وہ چلنے کی کوشش جاری رکھتاہے۔ اگر بچے کے دل میں گرنے کا ڈررہے تو وہ کبھی چلنے کی کوشش ہی نہ کرے۔ جانتے ہیں وہ کس اُمید پر یہ کوشش کرتا ہے، فقط کامیابی کے یقین پر۔
******

شیئر: