Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل میں بہو کیلئے ماں جیسا پیار، حقیقی کمال

 
 ساس کا نام سن کر اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے
 
تسنیم امجد۔ ریاض
 
شادی انسان کی زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہے، زندگی ایک سمندر کی مانند ہے جس میں بہت سے اتار چڑھاﺅ آتے ہیں اور کئی طوفان ساحلوں سے ٹکراکرزندگی کو نیارنگ دے جاتے ہیں۔ اگر سمندر کے ان تھپیڑوں اور طوفانوں کا جو انمردی سے مقابلہ کرلیا جائے تو کامیابیاں قدم بوسی کی منتظر نظر آتی ہیں۔اس حوالے سے ا یک سچی تحریر فرضی نام کے ساتھ قارئین کی خواندگی کی نذر ہے: 
رضوانہ کی آج رات کی فلائٹ تھی ،اسے پیادیس جانا تھا۔ نوید اپنے والدین کے ہمراہ شادی کے ایک ہفتہ کے بعد ہی امریکہ لوٹ گئے تھے۔ وہ اپنا سامان رکھتے ہوئے کھلی آنکھوں حَسین مستقبل کے سہانے خوابوں میں کھوئی رہتی تھی۔ اگر کبھی میکے سے دور جانے کا احساس اس کی آنکھوں سے سیلِ رواں بن کر اُمنڈتا تو وہ اس سیلاب کے آگے ہمت و حوصلے کا بند باندھتے ہوئے خود کو سمجھاتی کہ میرے دولہا کوئی پرائے تھوڑی ہیں، خالہ زاد ہی تو ہیں ۔ اس کی کزنز بھی اس کی قسمت پر رشک کرتی تھیں۔ 
بالآخر وہ امریکہ پہنچ گئی ۔ایئرپورٹ پر خاندان کے سبھی افراد نے اس کا خیرمقدم کیا۔وہ اپنے شوہر کے بنگلے میں پہنچی جو تمام جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اک چہار دیواری تھی۔ اُس نے اپنے دل سے کہا کہ ”رضوانہ! اپنے شوہر کے اس مکان کو تم نے ہی گھر بنانا ہے۔“ اس کا خواب حقیقت بن چکا تھا۔گھر میں خالہ خالو کے علاوہ دو نندیںبھی تھیں جو ابھی یونیورسٹی میں تھیں۔ نویداپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہونے کے ناتے بہت لاڈلے تھے ۔ دو ہی دن کے بعد رضوانہ کو سمجھادیا گیا کہ اس گھر کو اسے ہی سنبھالنا ہے ۔ ایک لمحے کو تو اسے احساس ہوا کہ واہ کیا اپنائیت ہے ، سب ذمہ داریاں مجھے سونپ دی گئی ہیں لیکن پھر فوراً ہی اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ میری رہنمائی کون کریگا؟ نہ گھر کے افراد کے مزاجوں سے آشنا اور نہ کام کا تجربہ۔ وہ خود بھی یونیورسٹی کا امتحان دیکر فوراً ہی پرائی ہوگئی تھی۔
آج سسرال میں گویا اس کا پہلا دن تھا۔ نوید کے سوا ہر فرد اس کے لئے اجنبی تھا۔ نیا آسمان، نئی زمین اور نئے رشتے ۔ اب وہ اس گھر کی بہو تھی ۔ان ”شادی شدہ“ سوچوں کے ساتھ اس نے کچن سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ آج کیا پکایاجائے ؟ بہر حال اس نے کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ کرہی لیا۔ 
باری باری سبھی گھر آئے ، ایک ساتھ ، ایک میز پر کھانے کا رواج یہاں نہیں تھا۔بھابھی کھانا دے دیں ، اس ایک آواز پر وہ حکم بجالاتی۔ چند دن تو یہ سب اچھا لگا لیکن آج تو اس کا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر روئے ۔ سبھی من پسند مصروفیات میں گم تھے اور اس کا کسی کو احساس ہی نہ تھا۔ وہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کی آنکھوں کا تارا بھی تھی۔آخر اس نے ڈرتے ڈرتے نوید سے کہا کہ مجھے واپس جانا ہے۔ یہاں میرا دل گھبرارہا ہے۔ اتنے بڑے گھر میں کسی کو اس سے بات کرنے کی بھی فرصت نہیں۔ میں اب ڈھیر سارے کوکنگ کورسز کرکے آﺅں گی ، یہ میرا وعدہ ہے ۔“لیکن شوہر کی ایک ہی بات سے وہ گنگ ہوکر اسے تکنے لگی ۔ اس نے کہا کہ پتا ہے اتنے ڈھیر سارے نوٹ خرچ کرنے پڑے ہیں تمہیں یہاں بلانے میں۔ بھول جاﺅ،دوسال تک وطن جانے کا نام بھی نہ لینا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ”ان لاز “ یعنی سسرالی تعلقات کی دنیا کا یہ نقشہ بھول بھلیوں اور نشیب و فراز سے گزارتے ہوئے ہمیں سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ کسی بھی تناﺅ سے آزاد رہ کر ہی زندگی سلیقے سے گزرسکتی ہے ۔ساس بہو کے تعلقات پر یہ بحث جاری ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ رشتہ ہموار ہوچکا ہے۔دوستی پکی ٹھہری لیکن تصویر کا اصل رخ یہ ہے کہ اب یہ بیٹے کے ذریعے اپنا پرانا کردار ادا کررہی ہے اور اپنی جبلی مخاصمت کو تسکین پہنچارہی ہے کیونکہ یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والا ہے۔آج یہ بہو کی سہیلی بن کر میٹھی چھری کا کردار ادا کرتی ہیں اور اس احساس کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں کہ ان کے مابین بھانجی یا بھتیجی کا کوئی رشتہ بھی ہے ۔ بہنیں سمدھنیں بن کرسوچنے کا انداز بدل دیتی ہیں۔ پردیس کے ماحول میں شوہر بھی اس طرح بیوی کے نہیں رہتے جیسے اپنے وطن میں ہوتے ہیں۔وہ مثل مشہور ہے ناں کہ ”گھر کی مرغی، دال برابر “ بیوی بے چاری کے لئے یہ بھی ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ 
وہ ماں جسے بیٹے کی شادی کے بڑے ارمان ہوتے ہیں ،چاند سی دلہن کی تلاش میں چاند نگر کا چکر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتیں مگر چاند سی بہولانا کوئی کمال نہیں بلکہ بہو کے لئے اپنے دل میںماں جیسا پیار رکھنا کمال اور اعلیٰ ظرفی ہے ۔ نئی نویلی دلہن کو گھر گرہستی کا تجربہ نہیں ہوتا ، اسے اس فن سے روشناس کرانا انہی کی ذمہ داری ہے ہوتی ہے نہ کہ اس کا امتحان لینا شروع کر دیا جائے۔ عموماً لڑکیاں کھانا پکانے کی ماہر نہیں ہوتیں۔
یاد رکھئے کہ بہوبھی کسی کی بیٹی ہوتی ہے، اس کی عزت نفس کااحترام ضروری ہے۔ بیٹی والی نرمی اور سلوک روا رکھنے سے اس کا دل جیتنا آسان ہو جاتا ہے ۔ساس، بہو کے رشتے کی تلخی کا خاتمہ صرف رویوں سے ہی ممکن ہے۔ اکثر کہتے سنا ہے کہ ساس کا نام سن کر اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے جبکہ بہو کا نام سنتے ہی ساس کے وجود میں ” لٹھم لٹھا“ ہونے کا احساس سرابھارنے لگتا ہے۔ ذرا سوچئے وہ عورت جو حساس ہے اور اپنے رویے سے اپنے کردار کی عظمت کی پاسبان ہے ، ساس بنتے ہی مامتا سے محروم کیوں ہوجاتی ہے۔ حدتو یہ ہے کہ سات سمندر پار جاکر بھی ساسیانہ مخاصمت ماند نہیں پڑتی ۔ کم از کم یہی سوچ لینا چاہئے کہ پردیس میں بہو اکیلی ہے ، ساس کو نہ صرف ساس بلکہ بہو کی ماں کا کردار بھی ادا کرنا چاہئے ۔ میاں بیوی کا بندھن اپنے اندر ایک کائنات سموئے ہوئے ہوتاہے۔ دونوں کے ارد گردموجود رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں جو ہر صورت نبھانے ضروری ہوتے ہیں۔ کوئی رشتہ احترام کا متقاضی ہوجاتا ہے اور کوئی بے تکلفی کا ۔ کوئی محبت چاہتا ہے تو کوئی شفقت ، ہر مزاج کو سمجھنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے، برائے مہربانی یہ وقت ضروردیجئے۔
******

شیئر: