Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نبوت کا جھوٹا دعویٰ، پرکھنے کی کسوٹی کیا ہے؟

 
گزشتہ سے پیوستہ
 
ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ
 
ابنائے قادیانیت اس امر میں غور کریں کہ کیا مسلمانوں میں صرف ایک شخص ’’متبع کامل‘‘ ہوا ، جسکی مخصوص جھوٹی نبوت، خیر امت، اسکے سچے نبی کے لئے کسی فضیلت کا سبب نہیںہو سکتی۔ یہ محض مرزائی قیاس باطل ہے بلکہ تمام تر فضیلت صرف اور صرف حضرت خاتم النّبیین ، ان کی ذات پر نبوت کے سلسلے کو ختم ماننے ہی میں ہے۔
 
مرزا قادیانی ’’ تشحیذ الاذہان‘‘ میں حقیقت ختم نبوت کے عنوان سے یوں رقمطراز ہے
اگر غور سے دیکھا جائے تو ہمارے نبی کریم کی جو آپ کے بعد کسی دوسرے کے نبی نہ کہلانے سے شوکت ہے او ر حضرت موسی کے بعد اور لوگوں کے بھی نبی کہلانے سے ان کی کسر شان کیونکہ حضرت موسی بھی ایک نبی تھے اور ان کے بعد ہزاروں اور بھی نبی آئے تو ان کی نبوت کی خصوصیت او رعظمت کوئی نہیں ثابت ہوتی، بر عکس اس کے کہ آنحضرت کی ایک عظمت اور آپ کی نبوت کا پاس اور ادب کیا گیا ہے کہ آپ کے بعد کسی دوسرے کو اس نام سے کسی طرح بھی شریک نہ کیا گیا۔
 
ابنائے قادیانیت اپنے بانی کی مذکورہ تصریح میں غور کریں کہ آنحضرت کی عظمت اسی میں ہے کہ آپ پر سلسلہ نبوت کو ختم اور ان کے بعد اسے جاری نہ مانا جائے اور اس لقب خاتم النّبیین میں کوئی ان کا شریک نہ ہو ، اس باب میں قرآن وسنت کی نصوص میں تدبر کرنے سے ہر عقل مند ، حق وصواب کو پا سکتا ہے اور وہ اس نتیجہ پر علی وجہ الیقین پہنچے گا کہ قرآن وسنت حضرت خاتم النّبیین کے بعد کسی کے لئے سلسلہ نبوت کو جاری نہیں کر رہے ۔ آنحضرت کے بعد نبوت نہ ہونے میں نبوت تشریعی اور غیر تشریعی میں فرق نہیں۔ حضرت خاتم   کے بعد کسی بھی اسلامی مرجع میں ’’تابع نبوت‘‘ کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ اہل اسلام کے ہاں ’’تابع نبی‘‘ کا کوئی تصور نہیں۔
 
قادیانیت بھی، خیر القرون میں، مسلمانوں کے تمام طبقات میں، وہ صحابہ ہوں، تابعین ہوں، تبع تابعین ہوں، ائمہ مفسرین اور محدثین ہوں سبھی میں ’’تابع نبوت‘‘ کی قائل نہیں۔
 
 محدَّث و مجدِد کا وجود شرعی طور پر اپنے اپنے دائرہ میں ہے۔ محدَّث کا بالقوہ نبی ہونا اور بالفعل نہ ہونا اسکی کوئی شرعی اصل نہیں نہ قادیانیت کے ’’تابع نبی‘‘ کی کوئی شرعی مرجعیت ہے۔مرزا کی مخصوص قسم کی انوکھی نبوت کے منکر کے حکم میں بھی قادیانیت کے ہاں واضح تناقض ہے جومستقل طور پر قادیانیت کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔ قادیانیت کا بانی اپنے منکرین کی تکفیر کرتا ہے، اسکے متبعین کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ شاید کہ مرزا کی اس مخصوص نبوت کے منکرین کے حکم میں جو ’’تناقض‘‘ قادیانیت میں ہے، اس میں ابنائے قادیانیت نے کبھی تفکر نہیں کیا، اب ہم قادیانی تحریرات کی روشنی میں اسی امر کو پیش کرتے ہیں۔
 
مرزا’’ تبلیغ دین‘‘ میں یوں راقمطراز ہے
یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں لیکن صاحب شریعت ہونے کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدث ہیں، گو وہ کیسی ہی جناب الہی میں اعلی شان رکھتے ہوںاور خلعتِ مکالمہ الہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔
 
ہم کہتے ہیںکہ اگرمرزا کی نبوت بزعم مرزا، غیر تشریعی ہے اور وہ صرف ملہم ومحدث تھا اور مکالمات الہیہ سے مشرف تھا اور اس نے اپنی امت کو ایسی نبوت کے منکرین کی تکفیر نہ کرنے کا کہا تو پھر اس نے خود اپنے منکرین کی تکفیر کیوں کی؟ اور اسکا اپنے ہی ساتھ کیونکر یہ تناقض ہے؟ اور اپنے منکرین کی تکفیر کرتا ہے اور انہیں جہنمی کہتا ہے۔
 
وہ تریاق القلوب میں لکھتا ہے
ہر وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی اور اس نے مجھے قبول نہ کیا، وہ مسلمان نہیں۔ 
وہ ڈکٹر عبدلحکیم کے نام خط میں لکھتا ہے جو’’ حقیقت الوحی‘‘ کے ص163پر ہے
 ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ ،خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔
وہ’’ حقیقت الوحی ‘‘میں لکھتا ہے
کفر دو قسم پر ہے، ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت کو خدا کا رسول نہیں مانتا اور دوسرے یہ کفر کہ مثلاً مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت جھوٹا جانتاہے۔
وہ آخر میں کہتا ہے
اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔
 
مرزا غلام احمد کا بیٹا مرزا بشیر الدین محمود جریدئہ الفضل میں بتاریخ4 اپریل 1920ء ایک سائل کے جواب میں رقمطراز ہے
دوسرا سوال آپ کا کفر کے متعلق ہے کہ بعض جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء کے کفر کا فتویٰ لگانے کی وجہ سے غیر احمدیوں کو کافر قرار دیا ہے اور دوسری جگہ اپنے نہ ماننے کی وجہ سے انہیں کافر ٹھہرایاہے ،اس میں کوئی تناقض نہیں، یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں جمع ہو سکتی ہیں، مؤمن کو کافر کہنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے اور ’’ماموریت‘‘ کے نہ ماننے کی وجہ سے بھی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’امتی نبی‘‘ تھے، امتی نبی کو کافر کہہ کر بھی غیر احمدی کافر ہوگئے اور آپ کو نبی نہ مان کر بھی کافر۔
سوم: یہ کہ کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کانام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرے عقائد ہیں‘‘۔
 
مرزا غلا م احمد اور اس کے بیٹے کی مذکورہ تصریحات سے یہ امر واضح ہو تا ہے کہ مرزامخصوص قسم کی نبوت کا مدعی تھا اور وہ ’’تابع نبوت‘‘ اور ’’امتی نبی‘‘ ہونا ہے، ’’تشریعی‘‘ نبوت کا نہیں۔ پھر اس نے یہ بھی تصریح کردی کہ صرف ’’تشریعی نبوت‘‘ کے منکرین کی تکفیر ہوتی ہے تو ہم قادیانیت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اس نے ڈاکٹر عبدالحکیم کو مرتد کیونکر کہا؟ جیسے کہ سیرت المہدی کے میں موجود ہے جبکہ مرزاقادیانی تو ’’تابع نبوت‘‘ یا’’ غیر تشریعی‘‘ نبوت کا مدعی تھا جسکے منکرین کی تکفیر نہیں ہوسکتی۔
 
ابنائے قادیانیت مندرجہ ذیل امور میں غور کریں
 مرزا غلام احمد نبوت کے باب میں عملِ تدریج کو اختیار کئے ہوئے تھا جو اللہ کے انبیاء کا شیوہ نہیں۔
مرزا کے اس تناقض میں بھی غور کریں جو اسکے ’’غیر تشریعی‘‘ نبوت کے منکرین کی تکفیر اور عدم تکفیر میں پایا جاتا ہے۔
مرزا قادیانی نے نبوت کو جن دو قسموں میں تقسیم کیا وہ یہ ہیں۔
 رسول ونبی جو شریعت کے ساتھ ہو ۔
 نبی اوررسول جو شریعت کے بغیر ہو۔
وہ’’ تبلیغ رسالت‘‘ میں کہتا ہے
رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی شریعت کے۔
ہم اس امر کی وضاحت چاہتے ہیں کہ نبوت کی دو قسمیں: تشریعی نبی اور غیر تشریعی نبی یہ تو معروف ہیں مگر نبوت کی یہ مخصوص قسم کہ نبوت بغیر کسی شریعت کے ہو یہ خصوصی قسم صرف قادیانی صناعت ہے۔ یہاں پر ہم قادیانیوں کو دعوت تدبر دیتے ہیںکہ وہ مرزا اور ان کی بیٹے کے عقیدہ میں تبدیلی والے بیان میں غور کریں پھر عقیدہ میں تبدیلی کے نقطئہ نظر میں بھی تدبرکرلیں۔
 
مرزا نے اپنی نبوت کو تشریعی نبوت ثابت کرنے کی ناکام سعی کی، وہ’’ اربعین ‘‘میں نمبر 4 اور صفحہ6پر رقم طراز ہے
اگر کہو کہ ’’صاحب شریعت‘‘ افتراء کرکے ہلاک ہوتا ہے یا کہ ہر ایک مفتری اول تویہ دعوی بلا دلیل ہے، خدا نے افتراء کے ساتھ ’’شریعت‘‘ کی کوئی قید نہیں لگائی، ماسوا اس کے، یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعے جتنے امر ونہی بیان کئے اور اپنی امت کیلئے قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا، پس اس تعریف کی وجہ سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔
 
اور یوں مرزا قادیانی باب نبوت کے پانچویں مر حلے میں جو اسکے زعم کے مطابق ’’تشریعی نبوت‘‘ ہے میں داخل ہوجاتا ہے اور وہ اس پر استدلال اپنی وحی میں اوامر و نواہی کے وجود سے کرتا ہے۔ اس سلسلے میں مرزا نے جو مثال دی ہے، وہ حضرت نبی خاتم   کی وحی ہے۔ یقینا یہ مرزا کا دجل ہے، حضرت نبی کریم نے معجزانہ طور پر بالکل سچ فرمایا کہ ان کے بعد مدعی نبوت کذّاب اور دجال ہوگا ۔
 
مرزا قادیانی ’’تشریعی نبوت‘‘ کے دعویٰ کے بعد، اپنے اور نبی خاتم کے مابین وحدت الوجود کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے ، وہ اپنے اور نبی خاتم کے مابین برابری اور عدم ثنائیت کی بات کرنے لگتا ہے ،وہ اپنے آپ کو عین حضرت سید السادات، محمد اور احمد کہتا ہے، وہ اپنے وجود کو ان کا وجود قرار دیتا ہے، یہی اسکا ظل و بروز کا نظریہ ہے، پھر وہ اپنے باطل نظریہ ظل و بروز کو بروئے کا ر لاکر یوں لکھتا ہے ، میرے تشریعی نبوت کے دعویٰ سے ، آنحضرت کی ختم نبوت کی مہر بھی نہیں ٹوٹتی کیونکہ میں تو بعینہ وہی ہوں، مزید یہ بھی کہ، جس نے مجھ میں اور مصطفی میں فرق کیا، اس نے مجھے نہیں پہچانا۔ ابنائے قادیانت غور کریں کہ ان تمام امور اور دعووں میں مرزا قادیانی کسی بھی قرآنی آیت سے یا کسی حدیث نبوی سے استدلال نہیں کرتا۔ وہ صرف اور صرف اپنے باطل اور خود ساختہ نظریہ ’’بروز‘‘ کو ہی بروئے کار لاتا ہے۔ 
 
مرزا قادیانی ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘میں یوں راقم طراز ہے
خاتم النّبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردئہ مغائیرت کا باقی ہے ،اس وقت تک اگر کوئی ’’نبی‘‘ کہلائے گا تو گویا اس مہر کا توڑنے والا ہوگا جو خاتم النّبیین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النّبیین میں ایسا گم ہوکہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیرت کے اسی کا نام پالیا اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہوگیا تو وہ بغیر مہر توڑنے کے ’’نبی‘‘ کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے، ظلی طور پر۔ 
 
ابنائے ملت قادیانیت غور کریں کہ مرزا قادیانی گویا آنحضرت کے بعد مدعی نبوت کی دو قسمیں کرتا ہے۔
 ختم نبوت کی مہر کا توڑنے والا۔
 ختم نبوت کی مہر کا نہ توڑنے والا۔
اور یوں وہ نبوت کا بھی مدعی بنتا ہے اور ختم نبوت کو بھی توڑنے والا نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو(معاذ اللہ) عین محمد و احمد کہتاہے۔ 
ہم کہتے ہیںکہ مرزا کا اسی وحدت الوجود اور آنحضرت کے اور اس کے مابین ثنائیت نہ ہونے کا قول اور دونوں کے مابین مکمل اتحاد کا دعویٰ کہ حضرت محمد اور مرزا غلام احمد قادیانی کے مابین کوئی فرق نہ ہو اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ۔ رہا اسکا نظریہ ظل وبروز جسکو بروئے لا کر وہ ایسا دعویٰ کرتا ہے اس باطل نظریہ کا کتاب وسنت میں کوئی وجود نہیں بلکہ یہ تو انسانی معاشروں میں، وہ مثقف ہوں یا غیر مثقف اسکا کوئی نام ونشان نہیںپایا جاتا۔
 
نظریہ بروز کا سہارا لیکر مرزا قادیانی، اولاً تو درجہ برابری اور مقام عینیت اور وحدت الوجود کا مدعی ہوا کہ اس نے کہا کہ وہ بعینہ ’’محمد‘‘ ہے اور حضرت محمد دوبارہ اس کے بروز میں ظاہر ہوئے ہیں، پھر اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ وہ آنحضرت سے تفوق اور بڑھ چڑھ  کرہونے کا بھی مدعی ہوا، وہ کہتا ہے کہ آنحضرت کی روحانیت، مرحلہ بروز میں اپنے اصل اور پہلے مرحلے سے بڑھ کر ہے۔ پہلے مرحلے میں تو آپ کی فتوحات عظیم تھیں اب اعظم اور اظہر ہیں۔ اس طرح پہلے مرحلے میں تو آپ  ہلال (نامکمل چاند) تھے اور اس دوسرے مرحلے میں بدر (مکمل چاند) ہیں اور یوں وہ آنحضرت پراپنی قوقیت کو ثابت کرنا چاہتا ہے۔
 
مرزا قادیانی خطبہ الہامیہ ’’ روحانی حزائن‘‘میں یوں رقم طراز ہے
اور یہ جان لو کہ ہمارے نبی جیسے پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے ایسا ہی مسیح موعود کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر میں مبعوث ہوئے اور ان کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں بنسبت ان سالوں اقویٰ، اکمل ، اور اشد ہے۔
 
یہی وہ آخر مرحلہ جس تک مرزا غیر شرعی اسالیب اختیار کرتا رہا، ہم ابنائے قادیانت کو مندرجہ ذیل امور میں غور فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں
مرزا کے ان دعووں سے بڑھ کر اورکیا جسارت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بروز محمد کہے؟
 بزعم مرزا نبی کریم مرزا کی شکل اختیار کرلیں ۔(معاذ اللہ)؟
آپ کی روحانیت مرزا کی شکل اختیار کرنے میںزیادہ شدید، زیادہ کامل اور تام ہو؟
 نبی خاتم کی فتح تو فتح مبین ہو اور مرزا کی فتح، فتح اظہر ہو؟
 

شیئر: