Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زبان، تخت پر بٹھائے، تختے پر چڑھائے

 
 اس عضو میں ہڈی موجود نہیں مگریہ دوسروں کی ہڈیاں تڑوانے کی طاقت رکھتی ہے
 
عنبرین فیض احمد۔ریاض
 
جب ہم اس جہاں فانی میں غوں غاں کرنے کی عمر میں آئے تو ہماری والدہ ماجدہ نے ہمیں خبردار کردیا کہ دیکھو بیٹا جو بچے مہذب ہوتے ہیں لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔تمہاری بدتمیزی یہاں نہیں چلنے والی اور ساتھ ہمیں یہ سبق بھی دے دیا گیا کہ باادب بانصیب، بے ادب بدنصیب، یعنی جو بچے بدتہذیب اور بدزبان ہوتے ہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔
ہم نے اپنی امی جان کہ منہ سے ایسی ہی باتیں سنتے سنتے بچپن سے شعور تک کا سفر طے کرلیا مگرامی جان کی گردان ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی کہ اپنے بزرگوں اور گھر کے بڑوں کے آگے اپنی زبان نہیں کھولنی۔ ان کی ہر بات میں سعادت مندی کا مظاہرہ کرنا ہے اور جی حضوری کی مشق کبھی نہیں بھولنی ۔سعادت مندی سے گردن کو جھکا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانی ہے ۔خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ کہہ رہے ہوں مگر تمہاری زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلنا چاہئے ۔جہاں ہم کچھ عرض کرنے کی کوشش کرتے تو فوراً کہا جاتا کہ اپنی زبان کو لگام دو۔یوں اپنے بزرگوں کی سعادت مندی میں ہم اتنی بری طرح پھنس چکے تھے کہ ان کے سامنے گردن جھکائے جھکائے گردن میں درد رہنے لگا ۔
زبان کتنی بڑی چیز ہے ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا ، یہ انسان کو تخت پر بھی بٹھاسکتی ہے اور تختے پر بھی چڑھاسکتی ہے ۔ ہم نے امی جان کی نصیحتوں کو اپنے دوپٹے کے پلو سے باندھ لیا ۔جب عمر کی کچھ اور سیڑھیاں پھلانگیں توعقل و شعور سے مزید آگہی ہوئی، پتہ چلا کہ زبان کی مار تو بڑی ہی بری ہوتی ہے ۔ یہ زبان کبھی گھروں میں آگ لگاجاتی ہے۔ کبھی ساس، بہو میں تو کبھی میاں بیوی میں ہونے والی تو تکار اسی کی کارستانیاں ہوتی ہیں۔ فتنہ و فساد کی جڑیہ زبان ہی ہے۔ کہیں ساس اپنی انا کی تسکین کی خاطر بہو کونیچا دکھانے کی کوشش کرتی ہے تو کہیں بہو ساس کے خلاف گھر کے دوسرے افرادکے کان بھرتی ہے ۔ شاید یہی ہے ہمارے معاشرے کا چلن۔کبھی یہی زبان انسان کو گھوڑے پر سوار کرواتی ہے اور کبھی اسی کی وجہ سے گدھے پر بیٹھ کر گلی محلوں کی سیر کرنی پڑتی ہے۔ 
ہماری والدہ ماجدہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ زبان سے ادا کئے گئے الفاظ کے دانت نہیں ہوتے مگر جہاں پر یہ کاٹتے ہیں ،زندگی بھر کا ناسور بنادیتے ہیں اس لئے بی بی اپنی زبان کو حرکت دینے سے پہلے ذراسوچ لیا کرو کہ منہ سے پھول جھڑرہے ہیں یا پھر آگ اُگلی جا رہی ہے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ زبان سے ایسی مار مارتے ہیں کہ تلواریا بندوق کی ضرورت نہیں رہتی۔ خاندانوں کے خاندان اُجڑ جاتے ہیں اور پھر ان کی نسلیں اس کا بدلہ چکاتی ہےں۔ویسے زبان ایک نعمت ہے لیکن اس نعمت کا آج کے دور میں بہت غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمارے سیاست دان میڈیا پر آکر اپنی حریف پارٹی کے لیڈران پر دنیا بھر کے بہتان لگا کر ، طعنے دے کراورانہیں برے برے القاب سے نواز کر چلے جاتے ہیں اور دل کی ساری بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان کی زبان جتنی لمبی ہوتی ہے، اسے اتنی ہی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج کے دور میںسچ بہت کم لوگوں کی زبان پر ہوتا ہے ۔ زبان کے ذریعے تو ہم زیادہ تر دوسروں کی غیبت ، برائی ، عیب جوئی میں لگے ہوتے ہیں اور خود نمائی میں تو زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
دیکھا جائے تو زبان ہمارے جسم کا وہ عضو ہے جس کے ذریعے انسان اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے ۔زبان کی وجہ سے ہمیں معاشرہ عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور زبان پھسل جائے تو ذلت و رسوائی گلے پڑتی ہے ۔ زبان کی اہمیت تو اسی کو معلوم ہوسکتی ہے جس کے منہ میںزبان ہی نہ ہو۔ زیادہ زبان کو حرکت میںلانے سے ہم رسواہی ہوتے ہیں اور یہ سننے کو ملتا ہے کہ دیکھو تو اس کی کیسی قینچی کی طرح زبان چل رہی ہے ۔ اگر خاموشی کو اپنایا جائے تو شاید یہ سننے کو ملے گا کہ اس کے منہ میں زبان نہیں مگر ایسے بے زبان آج کے دور میں شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں ۔ زبان کیسا عضو ہے جس میں ہڈی موجود نہیں مگر یہ دوسروں کی ہڈیاں تڑوانے کی طاقت رکھتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: