Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”4“

 
ہم نے تو اتنا ہی واقعہ سنایا تھا ، موصوف نے”جوابِ آں غزل“ دینے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس دوران درجن بھر معذرتیں پیش کیں
 
شہزاد اعظم
 
کل شب ہم اک محفلِ دانشوران میں شریک تھے۔محفل تمام ہونے کے بعد ہم ایک کونے میں جا کھڑے ہوئے جہاں ایک ایسے ”دانشور“نے ہمیں آ دبوچا جو بہت کچھ کہنا چاہتے تھے مگر انہیں سامع کوئی نہیں مل رہا تھا۔اُنہیں صرف بولنے کا بہانہ چاہئے تھا۔ ہم نے ”غلطی“ سے ایک حقیقت اُن کے گوش گزار کی کہ ”جناب! نجانے کیا بات ہے، ”ہمارے یہاں“ موجود لوگ اور ہمارے ”یہاں“ موجود لوگ، اکثر ایسے ہیں کہ جن کو 4پہئے میسر آجائیں تو گرن ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔وہ اس ”چو پہیا“ یعنی گاڑی میں بیٹھنے کے بعد خود کو اس ”چہار دروازی“ کا حکمراںاور دوسرے کو کمتر درجے کا انساں سمجھنے لگتے ہیں۔اُن کی حالت اس وقت دیکھنے والی ہوتی ہے جب گاڑی خراب ہوجائے یا ٹائر پنکچر ہوجائے تو اُن کی گردن سیدھی ہو جاتی ہے اور وہ خود کو روئے زمین پر پایا جانیوالا سب سے مظلوم انسان تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ”بھائی! ہے کوئی جو ہماری مدد فرما دے؟“ 
ہم نے تو اتنا ہی واقعہ سنایا تھا ، موصوف نے”جوابِ آں غزل“ دینے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس دوران درجن بھر معذرتیں پیش کیں۔ ہمیں اُن کی بے چارگی پر ترس آیا چنانچہ ہم نے اپنی سماعتیںاُن کی خدمت پر مامور کر دیں۔ اُنہوں نے ہماری کس انداز میں سمع خراشی کی، آپ بھی پڑھئے:
”صاحب! ایک بات طے ہے کہ انسان کے لئے ”4“ کا ہندسہ خاصا کشش اور کشا کشی کا باعث ہے۔اب ذرا دیکھئے، آپ نے ہی فرمایا ہے کہ گاڑی کے 4پہئے انسان کے نیچے آجائیں تو وہ کس قدر مغرور ہوجاتا ہے۔سمتیں بھی 4ہوتی ہیں۔ کسی ریاست کی تکمیل کے لئے ستون بھی ہمیشہ 4 ہوتے ہیںجن پر پورا ملک قائم ہوتا ہے۔دن کے بھی 4پہر ہوتے ہیں ”صبح، دوپہر، شام، رات“۔شعرائے کرام نے بھی زندگانی ، جوانی اور چاندنی کو 4روزہ قرار دیا ہے۔کئی شعراءنے تودنیا کے بارے میں بھی کہہ ڈالا کہ ”یہ دنیا 4دن کی ہے۔“انسان بھی اس وقت مکمل ہوتا ہے جب اس کی4”LIMBS“ ہوں جن میں2 ہاتھ اور2 پیر کی شکل کے ہوں۔ کوئی بھی ہاتھ یا پاوں اُسی وقت مکمل ہوتا ہے جب 4انگلیاں اور ان کا ایک حکمراں انگوٹھا موجود ہو۔انسان جب شادی کے لئے نکلتا ہے تو وہ بیوی پسند کرنے کے لئے مختلف رشتے دیکھتا ہے۔اس دوران اس کی ”آنکھیں 4“ ہوتی ہیں۔ گھر اسی کو کہا جاتا ہے جس کی ”4دیواری “ہو۔دلہن جب بیاہ کے شوہر کے گھر چلی جاتی ہے تو اگلے روز اسے میکے والے لینے آتے ہیں۔ اس رسم کونجانے کیوں ”چوتھی“ کہا جاتا ہے۔شادی کے بعد اکثر افراد کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ”شادی کے بعد سے میں عجب صورتحال سے ”دو4“ ہوں۔“ کہنہ مشق” ماہرینِ تذکیر“کا کہنا ہے کہ مرد کی ازدواجیت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی 4بیویاں ہوں۔انسان ایک ، 2 یا 3 بیویاں رکھ کر پریشان ہی رہتا ہے۔ اسے مکمل سکون و راحت اُسی صورت میسر آتی ہے جب اس کی بیگمات کی کل تعداد 4تک پہنچ جائے جیسے 4پائی ہمیشہ4پایوں سے ہی مکمل ہوتی ہے۔ اگر یہ پائے 3یا2یا ایک ہو تو انسان اذیت میں ہی مبتلا رہے گا،اسے کسی طورسکون میسر نہیں آ سکے گا۔یہی حالت ”کرسی¿ اقتدار“ کی بھی ہے۔اس کی بھی 4ٹانگیں ہوتی ہیں ۔اس پر بیٹھنے کےلئے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی بس عوام کے سامنے قسمیں کھا کروعدے کرنے ہوتے ہیں، عوام اسے اس کرسی پر بٹھا دیتے ہیں اور وہ براجمان ہوتے ہی کرسی کے خمار میں مستغرق ہو کرسب کچھ بھول جاتا ہے۔ اس کرسی کی اگر 3 ٹانگیں ہوں تو کرسی پر بیٹھنے سے قبل اسے ”اتحادیوں“ کی ضرورت پڑتی ہے جو اس کی کرسی کی چوتھی ٹانگ بن کر اسے اقتدار کے مزے لوٹنے کے قابل بناتے ہیں۔اسی لئے صاحبِ اقتدار کو ان اتحادیوں کے تمام تر ”نخرے“ اٹھانے پڑتے ہیں کیونکہ اسے خبر ہوتی ہے کہ چوتھی ٹانگ اگر ہٹ گئی تو یہ کرسی دھڑام سے جا گرے گی مگر اب سنا ہے کہ تبدیلی آنے والی ہے اور تبدیلی لانے والے نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایوانِ اقتدار میں کرسی پر نہیں بیٹھے گا بلکہ کھڑا رہے گا یوںاُسے کسی اتحادی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ 
٭٭٭٭٭٭ 
 

شیئر: