Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لہو نچوڑ کر رنگِ فرحت تو بخشا

ظفر جب بھی سعودی عرب سے چھٹی پر ہندوستان جاتا، رشتے داروں سے ملاقات کے بعد اپنے گاؤں کا رخ ضرورکرتا

ناہیدطاہر ۔۔ ریاض

ظفرجب بھی سعودی عرب سے چھٹی پر ہندوستان جاتا، رشتے داروں سے ملاقات کے بعد اپنے گاؤں کا رخ ضرورکرتا۔جہاں اسکاآبائی مکان تھا اور ساتھ میں کچھ زمینیں اوربچپن کے چندساتھی۔ ظفر کوان سب سے بے حد لگاؤ تھا۔ اسوقت بھی وہ مستقبل کے روشن دیئے جلاتاگاؤں کی جانب اپنی گاڑی کی رفتار تیزکئے سوچ رہا تھاکہ اپنی زمین پر فصل اگا کر مٹی سے سونا حاصل کریگا۔پردیس واپس نہیں جائیگا۔وہ پردیس کی زندگی سے تنگ آچکا تھا گاؤں آچکا تھا وہ گاڑی کو پارک کیا،عبدل جو ظفر کا پرانا خادِم تھااور آبائی مکان کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا دوڑکر قریب آیا "کیا حال ہے عبدل؟‘‘’’مالک کی مہربانی ہے ‘‘۔’’گاؤں کے کیاحالات ہیں؟ ‘‘ظفر نے پوچھا۔۔ ’’ صاحب۔۔ موسم کی بیوفائی نے کسانوں کوطائربسمل کردیا۔ کئی اضلاع کے کسان قرضوں میں مبتلا ، خودکشی بھی کر بیٹھے۔۔! کوئی اچھی خبر سنایار۔۔۔۔۔۔!!! ظفر دکھی ہوگیا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد وہ گاؤں کے لوگوں سے ملاقات کے لئے چل پڑا ،سبھی سے ملاقات کی، کسانوں کے حالات واقعی بہت خستہ اور بدحال تھے۔اکثرکھیت قحط سالی کا شکار نظر آرہے تھے ۔پتہ نہیں کسان کی حالت کس دور میں بدلے گی؟ایک سسکتا سوال ذہن کے پردے پر شور کرنے لگا۔کچھ فاصلے پر ایک لہلہاتے کھیت پر نظر پڑی تو وہ تیزی سے اس کی جانب قدم بڑھادیا۔ یہ کھیت ’لکشمن داس‘ کاتھا،جو اسکے بچپن کے دوست رامو داس کا بیٹا تھا۔چاروں طرف لہلہاتی فصل ظفرکے وجود کو تازگی بخش گئی۔دن بھر کی تھکان اور تلخی ایک پل میں دور ہوگئی۔ پگڈنڈیوں سے گزرنے کے بعد لکشمن نظر آیا۔جو ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھا روٹی کھا رہا تھا۔اسکی بیوی بھی ساتھ تھی۔ آداب صاب ‘‘ وہ دونوں خوشی سے ظفر کو دیکھ کر بولے ، ظفر اِن دونو ں کے قریب ہی بیٹھ گیا۔’’آپ بھی روٹی کھایئے صاب۔روپا بہت اچھی روٹی بناتی ہے۔‘‘ لکشمن نے برتن میں روٹی کے ساتھ پیازاور ہری مرچ رکھ کر اسکی جانب بڑھاتا ہوا کہا۔ ’’یار لکشمن تمہارالنچ آج بھی وہی’پیاز،روٹی‘؟ظفر نے اسکے ہاتھوں سے روٹی کی پلیٹ لیتا ہوا ہنس کر پوچھا۔’’ دنیا چاہے کتنی ہی ترقی کرلے ،لیکن کسان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی صاب !!! مہنگائی گردن کا طوق بنی ہوئی ہے ‘‘ وہ برتن میں رکھی پیاز اٹھا کر بولا’’یہ بھی سونے کے بھاؤ اختیار کرلی ۔اب تو صاب روٹی کوصرف پانی کیساتھ کھانے کی نوبت آگئی۔ ظفر جہاں رہ رہا تھا رہاتھاوہاںپانی سے سستاپٹرول تھا۔بھوک سے ذیادہ کھانا۔خواہشوں سے زیادہ پیسہ !!!دسترخوان پر سجائی گئی ثابت اونٹ اور بکرے کی 'مندی' صرف ذائقہ کے طورپرچند لقمے کھانے کے بعد ’’ٹراش بیگ ‘‘کے حوالے کردی جاتی۔لکشمن اور اسکی بیوی بہت خوش تھے ظفر بہت دیر تک بیٹھا دونوں سے باتیں کرتا رہا،وہ دونوں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اس سے شیئر کرتے رہے فصل کٹنے کے بعد آنے والی رقم کو لے کردونوں نے بہت سارے سنہرے خواب سجا رکھے تھے۔ سعودی عرب واپسی کا خیال دل سے ترک کئے وہ بڑی محنت ومشقت کے ساتھ اپنی زمین کی صفائی کروانے لگا تاکہ باقی زندگی اپنے ملک کی سرزمین پر اپنوں کے درمیان گزار سکے۔صبح کافی خوشگوار تھی۔ ظفر نے موبائیل پر’ای۔میل‘ چیک کرنے کے بعد واٹس اپ کھولا۔ اسکی15 سالہ بیٹی حفصہ نے اپنی کچھ تصویریں پوسٹ کی تھیں،ہر تصویر میں وہ منہ بناتی اپنی بوریت کا اظہار کر رہی تھی۔’’مجھے یہاں اور نہیں رہنا۔۔۔آئی مس مائی سعودی‘‘اسکا مسیج منہ بسورتانظر آیا۔ظفر بے اختیار طنزیہ انداز میں مسکرادیا۔’’بیٹی ہم اس ملک میں اجنبی ہیں اور اجنبی ہی رہیں گے۔عمرکے آخری حصے میں وطن لوٹ کر اپنی کھوئی پہچان تلاش کرنا کسقدر تکلیف داہ مرحلہ ثابت ہوگا،اسکا درد ہم پردیسی ہی جانتے ہیں۔!!!لکشمن اور اسکی بیوی کو دور سے آتا دیکھ کر اِس نے موبائل بند کیا۔ آداب صاب۔۔۔یہ آپ کیلئے۔لکشمن نے ٹفن باکس اس کی جانب بڑھاتے ہو ئے کہا۔صاب کل۔۔۔ چاول کی فصل کاٹی گئی آج گھر پر اسی کا پلاؤ بنایا تھا ،سوچا آپ کو بھی کھِلادوں۔‘‘ ’’سارا دھان کھلے میدان میں جمع کیا ہوں۔۔۔۔کل بوریوں میں بھر کر ٹریکڑر پرلاد کر شہر جاؤنگا۔اسکی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔روپا کے چہرے پر بھی قوس وقزح کے رنگ جھلملاتے نظر آئے۔ ’’روپا۔۔اب تو تمہاری رسوئی سے ہرروز چاول کی خوشبو اٹھا کرے گی۔ !!!‘‘ظفر نے ٹفن سے اٹھتی ہوئی خوشبو سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔ لیکن دوسرے ہی پل وہ لکشمن کے جواب پر بجھ گیا ،وہ کہہ رہا تھا ’’کسان کی قسمت میں یہ سب کہاں۔۔۔اسکا کام صرف محنت ومشقت سے بڑھیا اناج تیار کرکے امیروں کے نظر کرنا ہے اس سے جو پیسہ ہاتھ آئیگا وہ سال بھر کا قرض ،خرچ اور تمام سال کی ضروریات کے لئے بھی نا کافی ہوگا۔‘‘!!! ’’20 ہزار کا قرض ہے صاب۔۔۔۔گاؤں کا مکھیابہت تنگ کررہا ہے،دودن بعداسکا پیسہ اسکے منہ پرماردیں گے۔‘‘۔‘‘لکشمن کی بیوی پتلی سی ناک پْھلاکر کہی تو ظفر ہنس دیا۔۔۔۔۔! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرمئی شام کا خوبصورت آنچل اچانک خوف کے گھنے بادلوں تلے کانپ اٹھا۔۔۔کالے بادل کسی دیوہیکل کی مانند گاؤں پر تیزی سے چھانے لگے، تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ ظفر! ایک جھرجھری لیتا ہوا کھڑکی کے قریب چلا آیا۔’’عبدل لگتا ہے طوفان کی آمد ہے‘‘ ’’مجھے لکشمن کی فکر ہورہی ہے،پتہ نہیں اسکی کٹی فصل کا کیا ہوگا؟؟؟‘‘وہ سوچا۔۔تب ہی ایک زور کی بجلی کڑکی پھر بادل گرج اٹھے۔اسکے بعد بارش ہونے لگی۔پھر بادلوں کی گرج،وحشت زدہ ہوائیں اوربارش میں ایک مقابلہ سا ہونے لگا،کہ کون کس پر سبقت لے جائے گا۔ بجلی بھی چلی گئی۔عبدل نے ایمرجنسی لائٹ لگا دی۔تب ہی دروازے پر دستک سنائی دی کوئی بڑے ہی وحشت زدہ انداز میں ضربیں لگا رہا تھا۔ ’’اتنی طوفان میں بھلا کون ہوسکتا ہے۔؟‘‘عبدل نے بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھولا ۔سامنے لکشمن کھڑا تھا اسکے وجود پر وحشت خیز ہولناکی چھائی ہوئی تھی۔آنکھیں پھٹنے کی حد تک ابل پڑی تھیں۔ ’سب کچھ ختم ہوگیا صاب۔۔۔ سارا دھان مٹی میں مل گیا۔۔۔میں تو لٹ گیا،برباد ہوگیا۔۔۔‘وہ اپنے بال نوچتاغم ویاس کے بادلوں میں گھِرا تنکہ کی مانندٹوٹ کر بِکھرتا نظر آیا۔’’کوئی تو اِس طوفان کو روک لو۔۔۔‘‘ اس نے جنونی انداز میں کہتاہو ئے اپنے دونوں ہاتھ کھڑکی سے باہر لہرادیئے اور بڑی بے بسی سے چلایا۔ ظفر کے اندر لکشمن کے بِکھرے وجود کو سمیٹنے کا حوصلہ باقی نا رہا۔۔۔بارش رحمت ہوتی ہے، لیکن جب اوپر والا صرف ایک نقطے کا اضافہ کردیتا ہے توپھر رحمت ، زحمت کی شکل اختیار کرلیتی ہے یہ ایک نقطہ اپنے اندر اِتنے سارے طوفاں سمیٹ لاتاہے کہ اِنسان اسکے آگے بے بس و لاچار ہوجاتاہے۔!!! ’’عبدل لکشمن کے لئے پانی لاؤ‘‘ظفر نے اپنے آنسو بہ مشکل روکتے بھرائی آواز میں کہا۔ ’’پانی۔۔۔۔پانی توہمارا دشمن بنا صاب۔۔۔۔‘‘وہ ہزیانی انداز میں کہتا ہوا واپس دروازے سے نکل کر اپنی جھونپڑی کی جانب دوڑگیا۔وہ شدتِ غم سے پاگل ہوگیا تھا۔ظفر بڑی بے بسی سے سرکش طوفان کو تکتا رہا۔۔۔ ظفر رات بھر طوفان رکنے کی دعائیں کرتے فجر تک کیلئے سجد ے میں جاگرا ،صاحب جلدی چلئے۔۔۔عبدل دروازے پر کھڑا وحشت زدہ لہجے میں چلارہا تھا۔ظفر وڑتا ہوا باہر آیا، قریب کے بوڑھے درخت کے نیچے ایک ہجوم سا نظر آیا۔ اسکے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔لکشمن نے خودکشی کرلی تھی۔ظفر کے بدن کو ایک جھٹکا سا لگا وہ ہزیانی انداز میں لکشمن کے مردہ وجود کو جھنجھوڑتاچلایا تم کسانوں نے اپنی زندگی کا مذاق بنا رکھاہے !!! اتنی سستی ہے تمہاری زندگی؟20ہزارکا قرض خودکشی۔۔۔بیٹی کی شادی ،بیٹے کی پڑھائی،اپنوں کی بیماری،موسم کی بے وفائی ہر پریشانی کا حل موت !!!یہ فلسفہ کس نے۔۔۔آخر کس نے سمجھایا ہے تمہیں۔۔۔بے وقوف اور بزدل انسان اس حرام چیز کو گلے لگا کر سمجھتے ہیں کے اسطرح تمام پریشانیوں کا حل ہوجائیگا۔ارے نا دانوں۔۔! یہ پریشانی کا حل نہیں بلکہ مصیبتوں کے پہاڑ ہیں جوتم اپنوں کیلئے کھڑے کر جاتے ہو۔۔۔! جسے ساری زندگی تمہارے اپنے جھیلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ روپا زاروقطار رورہی تھی۔اسکا نازک وجود کسی خزاں شدہ پتے کی طرح بکھرتا نظر آرہا تھا،ظفر کی آنکھیں شدت کر ب سے عود آئیں اسکا دم گھٹ رہا تھاوہ وہاں سے فوراً نکل آیا۔۔ حفصہ! مما سے کہنا ہم جتنی جلد ہو سکے یہاں سے جارہے ہیں۔۔۔۔واپسی کی تیاری کرلینا۔اسمیں کوئی شک نہیں سعودی عرب بدن سے لہو نچوڑ کر بدلے میں زندگی کو خوشیوں کے رنگوں سے جوڑتا ضرور ہے اس نے سوچتے ہوئے فون بند کیا اوربچوں کی مانند پھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔

******

شیئر: