Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کو باز رکھنے کیلئے سعودی دباو تھا، سابق امریکی سفیر

ریاض ..... ریاض میں متعین سابق امریکی سفیر جوزف وسٹل نے بتایا کہ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ امریکہ سمیت بڑے ممالک کے ایٹمی معاہدے پر کسی قسم کا کوئی احتجاج نہیں کیا تھا البتہ سعودی حکام شام، یمن اور مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں میں مداخلت سے ایران کو باز رکھنے کیلئے واشنگٹن پر دباوڈالتے رہے۔ انہوں نے ڈیفنس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ سعودی امریکی تعلقات میں بگاڑ کا اصل سبب ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ نہیں بنا البتہ ایٹمی معاہدے کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات مشکلات سے دوچار ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ میرے پاس سعودی عہدیداروں کو حقائق سے آگاہ کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ میں مذاکرات میں شریک نہیں تھا۔ میرے پاس مطلوبہ معلومات نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو امریکہ طاقتور اور اہم حلیف سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہے۔ اوباما نے اپنے عہدہ صدارت کے دوران 4بار سعودی عرب کا دورہ کیا۔ خادم حرمین شریفین سے بارہا ٹیلیفونک رابطے کئے۔ ولی عہد اور نائب ولی عہد کے سا تھ وائٹ ہاوس میں ملاقاتیں کیں جبکہ امریکی صدر وائٹ ہاوس میں صرف سربراہان ریاست ہی سے ملاقات کرتاہے۔ سابق امریکی سفیر نے کہاکہ سعودی عرب نے داعش کے خلاف جنگ میں زبردست طریقے سے حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی اور واضح کیا کہ وہ اس کے لئے پوری طرح سے تیار ہے۔ ریاض دہشتگردی کے انسداد کی بڑی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسکے پاس تمام جدید ترین سیکیورٹی آلات ہیں۔سعودی عرب اور امریکہ دہشتگرد جماعتوں کی مالی اعانت کار استہ روکنے کیلئے بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔سابق امریکی سفیر نے اطمینان دلایا کہ جاسٹا قانون کا سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں پڑیگا البتہ امریکہ اور عوام ، مسلح افواج اور بیرون ملک موجود امریکی فوجی اس سے متاثر ہونگے۔
 

شیئر: