Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کی تقدیر کب بدلے گی؟

 
 
سندھ میں 8 سال سے کرسیوں پر قبضہ جمائے بیٹھے لوگوں سے توقع فضول ہے، ان کی بات پر کان دھرنا بھی بیوقوفی ہوگی
 
صلاح الدین حیدر
 
کراچی کہنے کو تو عروس البلاد، روشنیوںکا شہر، پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے، 2 کروڑ کی آبادی، ملک بھر کے لوگ تلاش معاش کے لئے آتے اور پھر یہیں کے ہوجاتے ہیں۔ سرائیکی ہوں یا بلوچی، پٹھان ہوں یا سندھی یا پنجابی، ہر نسل، زبان اور عقیدے کے لوگ، عورت، مرد، بچّے، پورے کے پورے خاندان یہاں آباد ہوتے جارہے ہےں۔ شہر بھی ایسا وسیع القلب ہے کہ ہر ایک کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ پاکستان کی صنعت و حرفت کا مرکز، بینکنگ اور مالی معاملات کا منبع لیکن یتیم و یسیر، کوئی والی وارث نہیں۔ سڑکیں ہیں کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار، پانی کی کمیابی، اکثر علاقوں میں تو کئی کئی روز تک وضو کے لئے بھی پانی نہیں ہوتا، نہانا دھونا تو دُور کی بات۔ خدا خدا کرکے بلدیاتی انتخابات بھی ہوئے، وہ بھی سپریم کورٹ کے کہنے پر ورنہ پیپلز پارٹی تو یہاں پچھلے 8 برسوں سے برسراقتدار ہے لیکن کوئی کام نہیں کیا، بجٹ میں تو اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے دِکھائے جاتے ہیں لیکن خرچ کہاں ہوتے ہیں کچھ پتا نہیں۔ 
قصّے کہانیاں مشہور ہیں ہر قسم کی۔ کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ، لیکن جہاں دھواں ہو تو چنگاری تو ہوتی ہی ہے۔ کچھ نہ کچھ تو صداقت ضرور ہوگی کہ سالانہ تخمینے میں خوردبرد روزِ اوّل سے چلی آرہی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں وزارت اور اعلیٰ عہدے تک بکتے ہیں، کون کتنی بڑی رقم پارٹی کے کرتا دھرتاﺅں کو پہنچائے گا۔ کرپشن تو بس ایک نام، ایک لفظ بن کر رہ گیا ہے، دولت ہے کہ دونوں ہاتھوں سے لوٹی جارہی ہے، کوئی پرسان حال نہیں۔ بچپن میں ایک کہاوت سنتے تھے کہ ٹکے سیر بھاجی، ٹکے سیر کھاجا۔ کچھ ایسا ہی حال کراچی میں بھی ہے۔ اﷲ بھلا کرے بلاول بھٹو کا جس نے 85 سالہ قائم علی شاہ (جو مسلسل8 سال سے وزارتِ اعلیٰ پر براجمان تھے اور کام دہیلے کا نہیں کرتے تھے) کو نکال باہر کیا اور باپ کی حمایت کے باوجود اُن سے استعفیٰ طلب کرلیا۔مراد علی شاہ کا ایسے اہم عہدے کےلئے انتخاب تو بہت اچھا تھا لیکن ان کی دوڑ دھوپ، شب و روز کی محنت کا نتیجہ صفر ہے۔ نوکر شاہی، ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی ہے، بات سادہ سی ہے۔ کوئی زیادہ دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں۔ باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیّا یعنی ان کے لئے پیسہ ہی سب کچھ ہے، بس یہی آج کا زریں اصول ہے۔ ہر وزیر، مشیر، افسران بالا، بس لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے، بے پیندے کا گھڑا بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بے شمار دولت ملک سے باہر بھی بھیجی جارہی ہے۔ باتیں تو ایسی بھی سننے میں آتی ہیں کہ مُراد علی شاہ کچھ لو اور کچھ دو کے سودے کے بعد وزیراعلیٰ بنے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ سنی سنائی باتیں ہیں، وثوق سے کہنا مشکل ہے اسلئے کہ ثبوت کوئی نہیں۔ 
400 ملین گیلنز کا K-4 منصوبہ جو عرصہ¿ دراز التوا کا شکار تھا، اب شروع ہوچکا ہے، حکومت کا دعویٰ ہے کہ آدھے سے زیادہ کام ہوچکا ہے لیکن اگر آئندہ دو تین سال بھی اس کی تکمیل میں لگ گئے تو اُس وقت تک العطش، العطش کا نعرہ لگا لگا کر لوگ آخری آرام گاہ تک پہنچ چکے ہوں گے۔ نہ جانے مالک کائنات نے مجھ پر کیا کرم کیا کہ مشتاق احمد یوسفی صاحب کے کچھ فکر انگیز جملے نظر سے گزرے جن سے استفادہ نہ کرنا جرم ہوتا.... آپ بھی سن لیجیے اس صدی کے سب سے بڑے مزاح نگار فرماتے ہیں کہ: ”میرا خیال ہے کہ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پریشر اور گالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اﷲ ہے یا وہ خود حالاتِ حاضرہ کا ذمے دار ہے۔“ اس سے بہتر تبصرہ موجودہ حالات پر ممکن ہی نہیں۔ یوسفی صاحب کے کیا کہنے، کاش مجھے انور مقصود مل جاتے اس وقت تو اُن کے جملے بھی گوش گزار کردیتا لیکن حسرت ہی کیا جو پوری ہوجائے۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے کی مثال یہاں پوری طرح صادق آتی ہے۔ 
وزیراعلیٰ سپریم کورٹ کے کہنے پر بلدیاتی انتخابات سے آنکھیں تو نہ چرا سکے لیکن قوانین میں تبدیلی کرکے سارے اختیارات خود اپنے پاس رکھ لیے بے چارہ میئر یا ڈپٹی میئر اور یونین کونسل کے چیئرمین تو صرف رسمی طور پر زندہ ہیں۔ کہنے کو تو وسیم اختر اور ارشد وہرہ مراعات بھی پارہے ہیں، گاڑی، جھنڈا، سیکیورٹی، سب کچھ لیکن بے سروپا۔ کراچی جو کبھی پاکستان کےلئے باعثِ فخر تھا، آج یہاں کچروں اور گندگیوں کے ڈھیر ہیں، اسکول کی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، پینے کا پانی نایاب، سڑکیں ہیں کہ گاڑی چلانے والے اپنا سر پیٹ لیں، گاڑیاں استعمال تو ہورہی ہیں لیکن اُن کے مالکان سے پوچھئے کہ ان کی کاروں کا کیا حال ہے، نئی خریدی ہوئی گاڑی، جو 10 سے 20 لاکھ اور کئی تو ایک یا دو کروڑ روپے کی ہیں، اُن کی زندگی کتنی باقی رہ گئی ہے، کتنے دنوں میں وہ گاڑیوں کے ہاسپٹل یا گیراج اور مکینک کے پاس پہنچادی جاتی ہیں۔ پراپرٹی ٹیکس، روڈ ٹیکس، واٹر ٹیکس، سب تو صوبائی حکومت جمع کرتی ہے اور اُس میں جتنا اُس کا من چاہے، میئر یا ڈپٹی میئر یا کراچی مےٹروپولیٹن کارپوریشن کو دے یا نہ دے۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ میئر اپنی پارٹی یعنی ایم کیو ایم کے ٹکڑے ہونے کے بعد اس پوزیشن میں نہیں کہ زورِ بازو دِکھا سکیں، بس بے چارے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ 
کراچی کو اس وقت کم از کم 100 کروڑ کی رقم درکار ہے، جس سے وہ عام شہریوں کو سہولتیں فراہم کرسکے لیکن یہاں تو ایک بٹا آٹھواں حصّہ بھی نہیں ملتا۔ بے چارہ کراچی لاوارث بن چکا ہے، اُس پر طرّہ کہ وزیراعلیٰ صاحب کہتے ہیں آخر کراچی اُن کا بھی تو شہر ہے، وہ بھی یہاں پلے بڑھے، پڑھے، کرکٹ کھیلی، وہ کراچی کو پیرس بنا کر رہیں گے۔ بنا دیجیے حضور، ہم بھی دعاگو ہیں لیکن آخر کیسے یہ معجزہ ظہور پذیر ہوگا؟ ہماری سمجھ میں تو نہیں آتا، آپ ہی سمجھا دیں۔ ایم کیو ایم کی حکومت تھی، صدر پرویز مشرف کے زمانے میں تو اُس وقت کے میئر مصطفیٰ کمال نے کایا ہی پلٹ کے دِکھلا دی۔ کراچی بالکل پاکستان سے جدا یورپ کا کوئی شہر نظر آنے لگا تھا۔ وہ عہدہ کی میعاد پوری کرنے کے بعد 2010 ءمیں فارغ ہوئے اور اُس کے بعد پوری کایا ہی پلٹ گئی۔ مراد علی شاہ کا یہ فرمانا کہ مصطفی کمال نے 300 کروڑ روپے برباد کردیے، کسی مذاق سے کم نہیں۔ خود تو کام آتا نہیں اُس پر طرہ دوسروں پر الزام تراشی.... شکایت کرنا بھی بے کار ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے ہی وتیرہ رہا ہے کھاﺅ، پیو اور گھر کی راہ لو، ترقی تو درکنار، اُن سے مکھی بھی نہیں ماری جاتی۔ یہ لوگ جو 8 سال سے کرسیوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، ان سے توقع ہی فضول ہے، یہ صرف پیسوں کے غلام ہیں۔ ان کی بات پر کان دھرنا بھی بے وقوفی ہوگی۔
******

شیئر: