Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وے مٹی نہ پھرو ل جو گیا!

 
منظور الحق صرف ایک سفیر کا نام نہیں ہے،منظور الحق ایک درویش ہے، ایک شاعر ہے، اس کے اندر ایک موزارٹ چھپا بیٹھا ہے،وہ ایک ناقد ہے، اس کی حس مزاح انتہائی لطیف اور دلکش ہے
 
جاوید اقبال
 
قومی ایئرلائن کی پرواز پی کے ۔ 756 کے پہیئے گزشتہ جمعرات دن کے ساڑھے 12بجے شاہ خالد ایئرپورٹ کی کولتار پر سے اٹھے اور آہستہ آہستہ جہاز کے شکم میں لپٹتے عازم اسلام آباد ہوگئے۔
میں منظور الحق کو 2 برس قبل نہیں جانتا تھا۔ پہلی بات چیت بھی عجیب تھی۔ انہوں نے سعودی وزارت خارجہ میں اپنی دستاویزات جمع کرائی تھیں چنانچہ مجھے اس کے بارے میں اردو نیوز کے لئے خبر تیار کرنا تھی۔ بہر گفتگو بہانہ ہاتھ آگیا۔ میں نے فون پر مدعا بیان کیا۔ ضروری معلومات دینے کے بعد بولے، رپورٹ تیار کرنے کے بعد مجھے سنادیں۔ نیا معاملہ تھا، اخلاقاً ہاں کردی۔ اپنی تحریر کی گئی خبر انہیں سنا رہا تھا کہ ایک جگہ انہو ںنے ٹوک دیا کہ یہ جملہ حذف کریں اور اس کی جگہ یہ لکھیں۔ انہوں نے ایک نیا جملہ دے دیا۔ تبدیلی لائی گئی۔ تھوڑا آگے بڑھے تو انہوں نے پھر روک دیا کہ یہ جملہ بھی نکال دیں اور یہ نیا جملہ لکھیں۔ 2برادر حکومتوں کے تاریخی تعلقات کا معاملہ ہے اس لئے ہمیں محتاط رہنا چاہئے۔ وہ بولے اور ایک نیا جملہ دے دیا۔ میں ٹھٹک گیا۔ 30 سالہ صحافت نالی میں بہی جاتی تھی تاہم خاموشی میں ہی بہتری تھی۔ یوں تقریباً نصف درجن جگہوں پر الفاظ تبدیل کرنا پڑے۔ اگلے دن خبر اشاعت پذیر ہوئی تو انہو ںنے جدہ فون کرکے میرے بارے میں معلومات جمع کرلیں۔ تب میں نے یہ شعار بنایا کہ ان کے خطاب کو ریکارڈ کرکے بعد میں اسے حرف بہ حرف تحریر کر دیتا یا کسی نوآموز کی طرح ان کا کہا ہر لفظ کاغذ پر گھسیٹتا رہتا اور پھر اسے خبر کا حصہ بناتا۔ پورے 2 برس انہیں اعتراض کرنے کا موقع نہ دیا۔ 
منظور الحق صرف ایک سفیر کا نام نہیں ہے۔ منظور الحق ایک درویش ہے، ایک شاعر ہے، اس کے اندر ایک موزارٹ چھپا بیٹھا ہے۔ وہ ایک ناقد ہے۔ اس کی حس مزاح انتہائی لطیف اور دلکش ہے۔ منظور الحق ایک ایسا منور گولا ہے جو ہر لمحہ رنگ بدل کر انجمن کو مبہوت اور دلشا د رکھ سکتا ہے۔ وہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس رہ کر اپنے حاجتمند ہموطنوں میں گھل مل کر بیٹھ جائے گا اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوگا۔ اقبال اور فیض اس کی رگ و پے میں بسے ہیں اور ان موضوعات پر وہ گھنٹوں بول بھی سکتا ہے اور سننے کی سکت بھی رکھتا ہے۔ اسے زبان کی آموختگی اور اس کے رموز جاننے سے بے حد دلچسپی ہے اور بھرے مجمع میں بھی وہ اپنی کسی غلطی کی اصلاح پر اظہار مسرت کرتا ہے۔ پنجابی زبان زیادہ نہ جاننے کے باوجود فرمائش کرکے خوش گلو محمد اصغر چشتی سے میاں محمد بخش اور بلھے شاہ کا کلام انتہائی محویت سے سنتا ہے۔ قاری صداقت علی کی قرا¿ت قرآن کو بھی یوں انہماک اور لگاوٹ سے سنتا ہے جیسے وہ نطق و بحر و اٹھان کے رموز سے بخوبی واقف ہے۔ مصر میں اپنی سفارت کے دوران منظور الحق نے قاہرہ کے گلی کوچوں میں اور نیل کے ساحل پر قاری عبدالباسط محمد عبدالصمد کی گونج ضرور سنی ہوگی۔ اسی فروری کی 12 تاریخ کو قاری سید صداقت علی کی ریاض آمد منظور الحق کی مساعی کا نتیجہ ہی تھی۔
منظور الحق کی ریاض میں تقرری کیا ہوئی، شہر ریگ رنگوں کی چادر اوڑھ گیا۔ وہ جن کے نزدیک سے کبھی ردیف و قافیہ نہ گزرا تھا اچانک محسوس کرنے لگے کہ وہ تو شاعر ہیں۔ محافل آراستہ ہونا شروع ہوئیں ان کی جان منظور الحق کی وہ گفتگو ہوتی تھی جو وہ اختتام پر کرتے تھے۔ پھلجھڑیاں چھوٹتیں، بات سے بات نکلتی اور کشت زعفران وجود میں آتی رہتی۔ ان کی گفتگو سن کر انگریزی کا ایک لفظ PUN یاد آتا۔ بات ہوتی، زیر لفظ مزاح کروٹیں لیتا اور سمجھ آنے پر قہقہے کی پھلجھڑی پھوٹ اٹھتی۔ جب گزشتہ برس فروری میں میرے کالموں کا مجموعہ " آرزوگزیدہ" اشاعت پذیر ہوا تو ان کی دلچسپی قابل دید تھی۔ اس کے سرورق پر کھڑے خزاں زدہ درخت پر اڑتے تقریباً ایک درجن پرندے دیکھ کر بولے کہ یہ اتنے زیادہ یہاں کیا کررہے ہیں؟ اجتماعی خودکشی کرنا چاہتے ہیں؟ چنانچہ تعداد کم کردی گئی۔ پھر ان کے مشورے پر صحرا اور آسمان کے رنگوں میں تبدیلی لائی گئی۔ یوں سرورق کا منظر دلکش ہوگیا۔ 
کتاب کی تعارفی تقریب میں ان کا خطاب انتہائی دلچسپ تھا۔ خاصی دیر ہوجانے اور رات ڈھل جانے کے باوجود حاضرین نے ان کی تقریر کے ایک ایک لفظ سے لطف اٹھایا۔ اس سب کچھ کے علاوہ میں منظور الحق کاایک اور پہلو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ تقریباً ہر یا دوسرے روز ان کا سیکریٹری لیاقت مجھ سے بذریعہ فون رابطہ کرتا اور یوں منظور الحق سے بات کا آغاز ہوتا۔ تقریباً ہر موضوع زیر بحث آتا۔ وہ روس میں بھی پاکستانی سفارتخانہ میں رہ چکے تھے چنانچہ روسی ادب پر ان کا مطالعہ قابل رشک تھا۔ گورکی، ٹالسٹائی، شولوخوف، چیخوف، گوگول پر ان کے تبصرے ان کے گہرے مطالعے کی گواہی دیتے تھے جبکہ میں انگریزی اور افریقی ادب پر بات کرتا ۔ اقبال اور فیض اور منیر اور فراز ہمارے مشترکہ موضوعات ہوتے۔ اکثر اوقات گفتگو ڈیڑھ گھنٹے تک دامن دراز کر جاتی۔ تشنگی پھر بھی رہتی۔
پھر ایک ا ور وقت بھی یاد آتا ہے ۔ گزشتہ گرما میں جب سعودی تعمیراتی کمپنیوں پر بحران آیا تو منظور الحق تقریباً ہر روز کسی نہ کسی کیمپ کا دورہ کرتے اور پاکستانی مزدوروں کو تسلی دیتے۔ انہیں مطلوبہ خوراک پہنچانے کے انتظامات کرتے۔ میں لاہور میں تھا۔ ہر روز 6 بجے مجھے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ کرتے اور سارے دن کی تفصیل دیتے۔ میں اسے خبر کی شکل دے کر جدہ اردو نیوز کے صدر دفتر فیکس کرتا جہاں ابصار سید یا خالد خورشید منتظر ہوتے۔ اگلے دن اشاعت ہوجاتی۔ 
پرواز سے ایک رات قبل ریاض کی 7 سیاسی جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) ریاض کے خالد اکرم رانا کے زیر نگرانی منظور الحق کو چانسری ہال میں الوداع کہا۔ اتنا بڑا اکٹھ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو کبھی ایک چھت تلے بھی نہ دیکھاتھا۔ یہ منظور الحق کی شخصیت کا سحر ہی تھا۔
قومی ایئر لائن کی پرواز پی کے ۔ 756 نے اپنا پر پرواز شاہ خالد ایئرپورٹ سے ہوا کے دوش پر رکھا۔ اس میں منظور الحق بھی تھے جنہیں الوداع کہتے وقت سارا ریاض اداس تھا۔ وہ جس نے نجد کے ریگزاروں میں پاکستانی ثقافت کے پھول اگائے تھے دلوں کو سوگوار چھوڑے جاتا تھا۔
نہیں لبھنے لعل گواچے وے مٹی نہ پھرول جوگیا!
******

شیئر: