Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایس ایل فکسنگ: خمیازہ قوم کو بھی بھگتنا پڑیگا

 
کرکٹ بورڈ نے 2010ءکے واقعہ کے بعد سزا یافتہ کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع دیکر فاش غلطی کی، نیا اسکینڈل بھی اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے، وقت ہے کہ سبق سیکھ لیا جائے
 
 جمیل سراج۔ کراچی
 
 اسپاٹ فکسنگ میں مبینہ طور پر ملوث دونوں کرکٹر ز شرجیل خان اور خالد لطیف کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے باضابطہ طور پر جارج شیٹ دیدی گئی جس کے بعدان کھلاڑیوں کو 14 روز کے اندر پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ کو جواب دینے کا پابند کیا گیا ہے،اس پر ماہرین نے ان کرکٹرز کے مستقبل کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا اس کے مطابق ان کا مستقبل روشن کی بجائے تاریکی کی جانب جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے،اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہوسکتی کہ ہمارے قومی کرکٹرز کوئی پہلی بار اس فاش غلطی کے مرتکب نہیں ہوئے، ان کا گویا وطیرہ بن گیا جو آئے روز کسی نہ کسی ایونٹ ، سیریز میں یہ گل کھلاتے پھر رہے ہوتے ہیں، ان کو اپنے کرکٹ بورڈ سے پھر بھی کسی خیر کی توقع رہتی ہے۔سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود، سابق ٹیسٹ کرکٹرز سرفراز نواز، راشد لطیف،محمد یوسف، راشد خان، سکندر بخت،شعیب اختر، جلال الدین ، رمیز راجہ اور ٹیسٹ بیٹسمین فیصل اقبال نے اسپاٹ فکسنگ کے حالیہ تازہ واقعہ پر بے حد افسوس کا اظہار کیا۔ ان سب کا یہی کہنا ہے کہ یہ سب پاکستان کرکٹ بورڈ کا کیا دھرا ہے، قومی کرکٹرز اخلاقیات کی تمام حدیں جب عبور کرجائیں تو ان سے کیا بڑے سے بڑے متقی و پرہیز گار سے کوئی خیر کی توقع نہیں کرسکتا۔ یہاں پر بالکل ایسا ہی ہوا ہے ۔کرکٹرز خود سر، ہٹ دھرم اور راتوں رات امیر کبیر بننے کی کوشش میں گویا اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں۔انہیں ملک و قوم کی عزت و ناموس کی ذرہ برابر فکر ہے نہ پریشانی، یعنی جب کسی انسان میں آگے بڑھنے اور پیسے کی طمع پیدا ہوجائے تو وہ کسی بھی انتہائی اقدام اٹھانے میں ہچکچاتا نہیں وہ اسے کر گزرتا ہے، اس کو اپنے مستقبل کی کوئی فکرہوتی ہے نہ ہی ملک وقوم کی عزت کی وہ بس اپنے مفاد کی باتیں کرتا اور خود کو ایک با اختیار فرد تصور کرنے لگتا ہے۔دوسری طرف پی سی بی کے ترجمان اور ذمہ دار امجد حسین بھٹی سے جب گفتگو کی گئی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کوضابطہ اخلاق کی کاپی دی گئی ، جس میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ 14دنوں میں اس پر اپنا جواب داخل کردیں،کھلاڑیوں کے الزامات کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں ٹربیونل قائم کیاجائےگا جس کی سربراہی ریٹائرڈ جج کریں گے جبکہ کمیٹی میں سابق کرکٹرز اور سول سوسائٹی کا ایک رکن بھی شامل ہوگا۔ ادھر پاکستان کرکٹ بورڈکے قانونی مشیر جناب تفضل حسین رضوی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا بھی دو ٹوک موقف سامنے آگیا۔ان کے مطابق ” ٹربیونل کے فیصلے کےخلاف کھلاڑی پی سی بی کی اپیل کمیٹی سے رجوع کرسکتے ہیں، انہیں تمام دستیاب شواہد اور ثبوتوںکی موجودگی میں ” نوٹس آف چارج “دیا گیا تاکہ کسی قسم کا ابہام ان کے ذہنوں میں باقی نہ رہے،پی سی بی ایسا ہرگز نہیں چاہتا کہ کسی کرکٹر سے بلا وجہ کھیلنے کا حق سلب کیا جائے تا وقت کہ کوئی کرکٹر غیر قانونی، غیر اخلاقی طریقے سے اور محض پیسوں کیلئے خود کو اس کرپشن کے دلدل میں دھنسا ئے۔جہاں تک اس معاملے میں ملوث ہونے یا اس کا جرم ثابت ہونے پر کرکٹرز پر کون سی پابندی لگ سکتی ہے تو اس کی وضاحت پہلے بھی کی جا چکی ہے کہ اسپاٹ فکسنگ جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی سزا6 ماہ سے لیکر تا حیات پابندی ہے جبکہ اس کیس میں اگرکھلاڑی اپنی سزاکےخلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا ارادہ کرے تو اسے پاکستان کرکٹ بورڈ کے تمام تقاضوں کو ہر حال میں پورا کرنا لازمی ہوگا،اسکے بغیر ان کی وہاں کوئی شنوائی نہیں ہوسکے گی۔ماہرین میں 2معتبرنام سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود اورچوہدری ذکاءاشرف بھی اس کیس کے رونما ہونے اور اسکے نتیجے میں 2کھلاڑیوں کے مستقبل کو تاریکی کی جانب جاتے دیکھ کر اس پر یہی تبصرہ کر رہے ہیں کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی کرکٹرز کے ساتھ مایوس کن رویہ روا رکھا گیا جس کیلئے پی سی بی حکام کی غلط منصوبہ بندی اور کھلاڑیوں کے معاملات کو ناقص انداز میں چلانا ہے۔پہلے کیس میں کرکٹرز کو سزائیں دلاکر انہیں قومی اور بین الا قوامی سطح پر کھلانے کی فاش غلطی کی گئی جبکہ دوسری بار بھی انہیں کھیلنے کے حق سے محروم نہ کرنے کی یقین دہانی ابھی سے کرائی جا رہی ہے جب ہمارے ادارے جرم ثابت ہونے پر مجرموں کے ساتھ اس قسم کا نرم سلوک کریں گے تو دیگر کھلاڑیوں یا کچے ذہن کے افراد کو حوصلہ تو ملے گا۔ یہاں پر من و عن ایسا ہی ہوا ہے جس کا خمیازہ ان کرکٹرز کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر قوم کو بھی بھگتنا پڑے گا،دیگر کئی سابق کرکٹرز ان دونوں کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں۔ ان سب کا یہی کہنا ہے کہ پیسوں کی خاطر ملک و قوم کے نام کو بیچنے والوں کو معاف کرنے والوں کا پہلے کسی نے احتساب کیا نہ اب ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے،اگر ماضی کے کیس میں قومی کرکٹرز کے ساتھ پی سی بی سخت رویہ رکھتے ہوئے انہیں سزائیں کاٹنے کے بعد بھی سائڈ لائن تک ہی محدود رکھتا تو ہمیں آج اس خفت کا سامنا نہ ہوتا، پی سی بی کے ان غلط رویوں اور منفی روائت کو فروغ دینے کی وجہ سے آج کا کرکٹر ایسی کرپشن کو کرنے میں زیادہ سوچ وفکر نہیں کرتا، اسے جو مواقع ملتے ہیں وہ اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے کرگزرتا ہے ، اسے اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ ملک و قوم کی عزت کا خیال ،اسے بس ایسا کرنا ہے، کی فکر رہتی ہے ۔اسے اس بات کا بھی یقین ہے اگر کرپشن کرتا ہوا پکڑا گیا تو زیادہ سے زیادہ سزا ہوگی جو کاٹ لوں گا،اس کی معافی مانگ کر اسے پھر کھیلنے کا موقع مل جائے گا اور بس، اس پر سابق تیز بولر سرفراز نواز نے برجستہ کہا ” جب کرکٹرز کی یہ سوچ اور اپروچ ہوگی تو کسی بورڈ اور کرکٹر سے کوئی بھی جرم سرزد ہوسکتا ہے۔
******

شیئر: