Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر میں ہندو پنڈتوں کی آبادکاری سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ، شمیم شال

 
سیمی کالونیز بنانے کے باوجود رائے شماری میں مسلمانوں پر اکثریت حاصل نہیں کی جاسکتی ، ہمارے نوجوانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش بند کی جائے ، تحریک حریت جموں و کشمیر شعبہ خواتین کی جنرل سیکریٹری کا اردونیوز کو خصوصی انٹرویو
 
جدہ ( ارسلان ہاشمی ) تحریک حریت جموں و کشمیر کی سیکریٹری جنرل شمیم شال نے کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت کی جانب سے کشمیر میں ہندو پنڈتوں کی نوآباد کاری کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوگی ۔حکومت ہند کی جانب سے کشمیریوں پر ہر طرح کے مظالم کا سلسلہ روا رکھا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش ، کسب معاش اور دیگر وسائل پر ہندوستانی افواج نے مسلمانوں کے لئے پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں اس کے باوجود کشمیری مسلمان اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر طاغوت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں ۔ اردو نیوز کو خصوصی انٹرویودیتے ہوئے تحریک حریت شعبہ خواتین کی جنرل سیکریٹری نے کشمیر میں ہندوﺅں کی نو آبادیاتی کے حوالے سے سوال پر انہو ںنے مزید کہا ہندوستان کی جانب سے ہندو پنڈتوں کو کشمیر میں آباد کروانے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں بھی اسے ناکامی کا سامنا ہو گا کیونکہ کشمیر ی مسلمان کبھی بھی ہندوستان کی فوج کا حصہ نہیں رہے بلکہ کشمیر ی مسلمان او رہندو پنڈت بھی ڈوگرہ جموں کے انڈرتھے ۔ ہندوستان یہ بھول رہا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت جو کشمیری پاکستان منتقل ہوگئے تھے اس وقت انکی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے ۔ اس طرح اگر جموں و کشمیر او رآزادکشمیر کے علاوہ دیگر ممالک میں مقیم کشمیریوں کی آبادی کا حساب لگایا جائے تو وہ تقریباً 20 لاکھ سے بھی زیادہ ہیں ۔ اگر ہندوستانی نوآبادکاری کی اندازہ لگایا جائے تو وہ کہاں تک بسائے گا زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ اسکے مقابلے میں پاکستان اور دیگر ممالک میں مقیم کشمیریوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ نوآبادکاری سے ہندوستان کا مقصد رائے شماری میں اکثریت ظاہر کرنا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ زیادہ ہوتا ہے یا 5 لاکھ ۔ یہ ہندوستانی حکومت کی خام خیالی ہے کہ وہ اس طرح کامیابی حا صل کر سکے گی دراصل حکومت ہند بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اسے معلوم ہی نہیں ہورہا کہ وہ کیا کررہی ہے ۔ تحریک حریت کی جانب سے ہندوستانی حکومت کے اس غیر آئینی عمل کے خلاف ہر سطح پر احتجاج بھی کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے وکلاءکے ذریعے پٹیشن دائر کرنے کی تیاری بھی کی جارہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ مصنوعی طریقے سے کبھی ووٹ بینک نہیں بنایا جاسکتا ۔ مسلمان میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ مسئلہ کشمیر کی حقیقی تصویر اقوام عالم کے سامنے لائے ۔ہندوستانی میڈیا کی جانب سے سیمی کالونینز کے حوالے سے غلط باتیں ہائی لائٹ کی جارہی ہیں ۔ پاکستان کے میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سیمی کالونینز کی حقیقت سے دنیا کو باخبر کرے اور اس معاملے کو ہرطرح سے ہائی لائٹ کرے تاکہ لوگوں کو حقیقت حال معلوم ہو سکے ۔ تحریکو ںمیں عوامی قوت کی اہمیت کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ۔ عوام بہت بڑی طاقت ہیں ۔ ایک سوا ل پر انہو ں نے کہا کہ ہم نے 90 کی دہائی میں مجبور ہو کر ہتھیار اٹھائے تاہم ہم پر امن لوگ ہیں او رپر امن طریقے سے تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر میں جموں و کشمیر کی واحد تحریک ہے جس پر دہشتگردی کا کوئی الزام نہیں لگا سکتا ۔ ہم اپنا حق حاصل کرنے کےلئے سیاسی طریقے اختیار کر رہے ہیں ۔ تاہم اس امر کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ جس کو جتنا دبایاجائے گا وہ اسی تیزی سے پھٹتی ہے اور اگر ہمارے نوجوانو ں کو مسلسل دیوار سے لگانے اور ظلم و زیادتی کا عمل مسلسل جاری رہا تو ہندوستان بہت بڑے خسارے میں ہو گا ۔ ہمارے لیڈروں کی حکمت عملی اور تدبر ہے کہ انہو ںنے عسکریت کی جگہ اپنا حق حاصل کرنے کےلئے مذاکرات کے عمل کو اپنایا اور نوجوانوں کو بھی اس کاقائل کیا ہے ۔تاہم میں پھریہ کہوں گی کہ اگرہندوستان نے مزید مظالم کے سلسلو ں کو جاری رکھا اور اسی طرح نہتے کشمیریوں کو شہید کرنے سے باز نہ آیا تو کہیں یہ نہ ہو کہ کشمیری نوجوان گن اٹھالیں ۔ اگرایسا ہو تا ہے تو ہندوستان کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔ ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ مذاکرات کے عمل کو جاری رکھا جائے اور تنازع کو ٹیبل پر بیٹھ کر حل کیاجائے ۔ ایک سوال پر انہو ںنے کہا کہ کشمیر ی عوام اپنے حق کے حصول تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے ان پر نہ تو جمود طاری ہے اور نہ ہی بیزاری ۔ ہندوستان کی کوشش ہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں یہ ظاہر کیاجائے کہ کشمیری عوام کے حوصلے پست ہو گئے ہیں اگر یہ حقیقت ہوتی تو ہندوستان کو 7 لاکھ فوج وادی میں رکھنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔ مسلسل کرفیو کس بات کی عکاسی کرتا ہے اگر عوام پر جمود طاری ہوتا اور وہ بے زار ہوچکے ہوتے تو کیامہینوں تک کرفیو لگانے کی نوبت آتی ؟ 

شیئر: