Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”یو اے این“

 
 ماضی کے مقابلے میں سائنسی ترقی کی رفتار کہیں زیادہ ہو گئی ہے، پہلے اگر سائنس پیدل تھی تو آج کل دوڑ رہی ہے اور اگر پہلے بھی دوڑ رہی تھی تو آج سرپٹ دوڑے جا رہی ہے 
 
شہزاد اعظم
 
سائنس ہمیشہ سے ہی ترقی کرتی رہی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا ہرگز نہیں ہوگا کہ سائنس نام ہی ایسے علم کا ہے جو تحقیق پر مبنی ہوتا ہے اور جو ترقی کی شاہراہ پر سب سے آگے دوڑتا ہے ۔دوسری جانب یہ بات بھی صد فیصد درست ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سائنسی ترقی کی رفتار کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ پہلے اگر سائنس پیدل تھی تو آج کل دوڑ رہی ہے اور اگر پہلے بھی دوڑ رہی تھی تو آج سرپٹ دوڑے جا رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج ہم انتہائی اسمارٹ، خوبصورت ، جاذب نظر، اچھوتی اور شفاف کردار کی حامل کوئی بھی شے مثلاًموبائل فون یا کچھ اور گھر لے کر آئیں تو اس کی تمام تر خوبیاں محض چند روزکے لئے ہی مثالی شمار ہوتی ہیں کیونکہ پھر یکا یک کسی اس کا ”توڑ“ سامنے آجاتا ہے اور اتنے ارمانوں سے خریدی یا اپنائی گئی شے جدت کے حوالے سے ”پسماندہ، از کار رفتہ “اور بے کارشمار کی جانے لگتی ہے ۔جیسے ہم نے ایک موبائل خریدا جس کے نام کے ساتھ 5منسلک تھا۔ اگلے روز صبح کو سو کر اُٹھے تو ٹی وی پر اشتہار دیکھا ، اسی فون کا جدید پرتو فروخت کے لئے پیش کیاجا چکا تھا جس کے نام کے ساتھ 6کا لاحقہ موجود تھا۔ ہم نے فوراً ہی دکاندار سے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ بڑے صاحب! اب تو نیا فون ”6“ آ چکا ہے، ”5“ پرانا ہو چکا، اب اسے کون پوچھے گا، ہم محض اس لئے آدھی قیمت پر واپس لے لیں گے تاکہ گاہک خراب نہ ہو۔ بہر حا ل” 5“کے ازکار رفتہ ہونے کا قلق اتنا زیادہ تھا کہ کئی روز تک ہم سے پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھایاگیا، ہماری آنکھوں سے لُو کی مانند گرم لپٹیں نکلتی محسوس ہوتی رہیں جو اس” اندوہ“ کے باعث آنکھوںمیں نمودار ہونے والی نمی کو گالوں تک پہنچنے سے پہلے ہی بھاپ بنا کر اُڑاتی رہی۔ہم پر ایسی ”پژمردہ“ کیفیات اُس وقت تک طاری رہیں جب تک اُس موبائل فون کا ”7کے لاحقے والا پرتو فروخت کے لئے پیش نہیں کر دیا گیا۔
اب ایک لمحے کے لئے ذرا ماضی میں چلئے ۔یہاں ما ضی سے مراد وہی دور ہے جب ٹیکنالوجی مقابلتاً پسماندہ تھی اور لینڈ لائن فون دنیا کی ”حیرت انگیز ٹیکنالوجیز“ میں شمار کیاجاتا تھا۔ اکثرمحافل میں ذکر ہوتا تھا کہ یہ ٹیلی فون بھی کیا شے ہے،کان سے ریسیور لگائیے اور پھراس کے وجود میں نمایاں سوراخ دار پہئے میں دکھائی دینے والے ہندسوں پر انگلی رکھ کر گھمائیے،اس طرح مخصوص عددتحریر فرمائیے تو کان میں طنطناہٹ سنائی دے گی،پھر اچانک انسانی آواز نمودار ہوگی جو اس طنطناہٹ کو ایک ہی جھماکے میں پامال کر دے گی اور ”ہیلو“ کہہ کر آپ کو اپنی موجودگی کا پتا دے گی جسے سنتے ہی آپ جان جائیں گے کہ یہی تو وہ ہستی ہے جو نہ جانے کون سے نگر میں بستی ہے، اس سے بات کرنے کو زبان ترستی ہے۔ واقعی سائنس نے حیرتناک ترقی کی ہے۔اُس دور میں جس کے ہاں ٹیلی فون لگ جاتا تھا، وہ ”غیر ٹیلی فونی“ حضرات سے بات کرنا بھی اپنے وقار اور شان و شوکت کے منافی سمجھتا تھا۔”ٹیلی فونی“ خاندان کی خواتین ، غیر ٹیلی فونی عورتوں کے ہاں جا کر اکڑ فوں دکھاتی تھیں اور انہیں وہ تمام باتیں سناتی تھیں جن میں کسی نہ کسی طور ٹیلی فون کا ذکر ہوتا ہو۔ یوں وہ سننے والی کو احساس ِ کمتری 
کی دلدل میں دھکیل دیتی تھیں۔کہاں وہ دور اور کہاںآج کا دور کہ ہر گلی محلے، اسپتال، بازار، اسکول، کالج،شادی ہال اورشاپنگ مال ہر جگہ ہاتھ در ہاتھ گرفتار اسمارٹ فونز سے ”ٹُنگ ٹُنگ ٹکاکا ، ”ٹُنگ ٹُنگ ٹکا“ کی صدائیں سماعتوں پر تیر برساتی محسوس ہوتی ہیں کیونکہ یہ بالکل مفت دستیاب صوتی خدمات کی انتباہی دستک ہوتی ہے چنانچہ اس پر کی جانے والی گفتگو بھی انتہائی غیر ضروری قسم کی ہوتی ہے مثلاً کہاں ہو، اگر بازار میں ہو تو کیا خریدا جا رہا ہے، آج کیا پکانے کا ارادہ ہے،گھریلو کام کاج کےلئے کسی ماسی واسی کا بنددوبست ہوا یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
”عالم فونیات“میں اس ارزانی کا سب سے زیادہ فائدہ بلکہ افسوس کی حد تک بے جا استعمال”یونی ورسل اکاﺅنٹ نمبر“ یعنی ”یو اے این“کی شکل میں کیا جا رہا ہے ۔ابتداءمیں مختلف کمپنیوں نے اپنے انتظامی معاملات ” یو اے این“ کے سپرد کئے ۔ پھر یہ روش عام ہونے لگی اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آپ فون پر کسی بھی قسم کی معلومات کرنا چاہیں تو آپ کو فوری طور پر ”یو اے این“ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔انتہاءتو اس وقت ہوئی جب ہم نے اپنے ایک دوست کی شادی کے لئے نامی گرامی شادی دفتر سے رجوع کرنے کا قصد کیا۔ اس مقصد کے لئے ہم نے ٹیلی فون سیٹ کا اسپیکر آن کیا۔ شادی دفتر کا نمبر ملایا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ”شادی دفتر میں خوش آمدید۔اگر آپ کو دولہا کی تلاش ہے تو ایک دبائیں، دلہن تلاش کرنا چاہتے ہیں تو 2دبائیں۔ ہم نے فوراً2دبا دیا۔وہاں سے جواب آیا کہ کنواری دلہن چاہتے ہیں تو وَن دبائیں، مطلقہ دلہن کے لئے 2دبائیں، بیوہ کے لئے 3کا بٹن دبائیں۔ ہم نے فوری ”1“ دبایا۔ اب وہاں سے جواب آیا کہ حَسین ترین دلہن کے لئے ”1“ دبائیں، خوبصورت کے لئے 2، قبول صورت کے لئے 3اور ناقابلِ دید صورت والی دلہن کے لئے 4دبائیں۔ ہم نے انتہائی احتیاط کے ساتھ 2دبا دیا۔اُدھر سے جواب آیا کہ امیر کبیر دلہن کے لئے ”1“دبائیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کی صلاحیت رکھنے والی دلہن کے لئے 2دبائیں، غریب کے لئے 3دبائیں اور مانگ کر کھانے والی دلہن کے لئے 4دبائیں، ہم نے فوراً2دبا دیا۔اُدھر سے جواب موصول ہوا کہ گوری رنگت والی دلہن کے لئے ایک دبائیں، گندمی رنگت والی کے لئے2، سانولی کے لئے 3 اور سیاہ فام کے لئے 4دبائیں۔ ہم نے فو راً ایک دبا دیا۔وہاں سے جواب آیا کہ میٹرک یا اس سے کم تعلیم یافتہ دلہن کے لئے ”1“ دبائیں، گریجویٹ کے لئے 2دبائیں، پروفیسر، ڈاکٹر یا انجینیئر کے لئے 3 دبائیں۔ ہم نے فوری 2دبایا۔ جواب آیا کہ لمبے بالوں والی دلہن کےلئے ”1“ دبائیں،مقطوعہ بالوں والی کے لئے 2دبائیں۔ ہم نے ایک دبادیا، جواب آیا کہ 5فٹ تک کے قد والی دلہن کے لئے ایک دبائیں، 5فٹ 4انچ تک کی دلہن کے لئے 2دبائیں اور اس سے لمبے قد کے لئے 3دبائیں۔ ہم نے فوراً2دبا دیا۔اب جواب موصول ہوا کہ لوگوں سے گھل مل کر رہنے والی دلہن کے لئے ”1“ دبائیں، ہمسایوں سے کبھی کبھار علیک سلیک کرنے کی عادی دلہن کے لئے 2دبائیں ا ور کسی کی شکل دیکھنے تک کی روادار نہ ہونے والی دلہن کے لئے 3دبائیں۔ ہم نے باہم مشورے کے بعد 2نمبر دبا دیا۔اُدھر سے جواب آیا کہ شوہر کی خدمت کو اپنا شعار سمجھنے والی باوفا دلہن کے لئے ایک دبائیں، نوکروں کو شوہر کی خدمت پر مامور کرنے والی دلہن کے لئے 2دبائیں اور شوہر سے خدمت کروانے والی دلہن کے لئے 3دبائیں۔ ہم نے فوری طور پر ”1“ دبا دیا جس کے فوری بعد جواب موصول ہوا کہ ”ہم معذرت خواہ ہیں،مطلوبہ سہولت آپ کو میسر نہیں۔“ یہ سن کر ہم نے اپنا سر پیٹ لیا۔ اسی دوران اسکرین پر ایک عبارت ابھری ”عالم سیاسیات ، پاکستان“ میں خوش آمدید، اپنے پسندیدہ مرد سیاستدان کا انتخاب کرنے کے لئے ”1“دبائیں، پسندیدہ خاتون سیاستدان کے انتخاب کے لئے 2دبائیں۔ ہم نے 2دبادیا ۔ قبل اس کے کہ اُدھر سے جواب آتا، ہمارے دوست کی اہلیہ نے فون کا تار کاٹ دیا۔ہم نے وہی نمبر اپنے گھر جا کر ملایا، پھر کیا ہوا، یہ پھر کبھی سہی۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: