Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپریشن رد الفساد، وقت کاتقاضا

 
پاک افغان کشیدگی دونوں ملکوں اور خطے کیلئے نیک شگون نہیں، افغانستان میں تیسری قوت کے کردار کو پنپنے کا کبھی موقع نہ مل سکا
 
سید شکیل احمد
 
   دہشتگردی کے خلا ف ایک نیا آپریشن ردالفساد کے نام سے شروع کردیا گیا ہے۔ پاکستان عالمی حالا ت کی وجہ جن مشکلا ت کا شکا رہے وہ اپنی جگہ سنگین ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر جس دہشت گردی کا سامنا ہے ، اس نے حالت کو کہیں سنگین تر بنا رکھا ہے۔ ایک معاصر میں ہو لناک خبر شائع ہو ئی کہ بدھ کو امریکہ سے لا ہو ر آنے والا پی آئی اے کا طیا رہ مبینہ طور پر بڑے سانحہ سے دوچا ر ہوتے ہو ئے بچ گیا۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طر ح بیان کی گئی ہے کہ جہا ز میں400 مسافر سوار تھے جب طیا رہ لا ہو ر ایر پو رٹ پر ایک ہزار سے زیا دہ فٹ کی بلندی پر تھا ، اس دوران فرنٹ پائلٹ کو تیز نیلی اور سرخ لیزر لا ئٹس جہا ز کی ا سکرین پر دکھا ئی دیں جس سے پائلٹ کو جہا ز اتارنے میں دشواری کا سامنا ہو ا ۔ پا ئلٹ نے جہا ز کا فوری رخ تبدیل کر نے کی سعی کی تو جہا ز تھو ڑا سا بے قابو بھی ہو گیا ۔ پائلٹ نے لیز ر کی وجہ سے جہا ز کی لینڈنگ میں دشواری کی اطلا ع کنڑول روم کو دی ۔اس اطلا ع پر خفیہ ادارے کے افسر ایلیٹ فورس اور کمانڈوز کے ہمر اہ ایئر پورٹ کے نزدیکی علا قو ں سے ملحقہ آبادیو ں میں لیزر لائٹس ما رنے والو ں کی تلا ش میںنکل پڑے اور علا قے کو حصار میںلے لیا۔ اس دوران 6 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا، جس کے بعد پا ئلٹ کو کلیئرنس دید ی گئی اور اس طر ح جہا ز ایرپو رٹ پر بحفاظت لینڈ کر گیا ۔
      یہ ابتدائی روداد ہے جس کے بارے میں نہ تو کوئی حتمی رائے قائم ہو سکتی ہے اور نہ کوئی گما ن کیا جا سکتا ہے۔اب حکومتی ادارے اس امر کی تحقیق اور تفتیش کر یں گے تو بات کھلے گی تاہم لینڈنگ کے وقت جہا ز کی اگلی اسکر ین پر لیزر ما رنا اس امر کی غما زی کر تا ہے کہ یہ ایک سنگین دہشت گردی کا واقعہ ہو سکتا ہے اور جہا ز کو تباہ کر نے کی ساز ش ہو سکتی ہے۔یہ ہی امکا نا ت میں سے ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ پر نظر ڈالی جا ئے تو اس کی ایک جھلک افغانستان کے شاہ ظاہر شاہ کے دور میں نظر آتی ہے ، جس دور میں ہلکے قسم کے کریکر رات کے وقت بازاروں میں رکھ کر ان کا ہلکا سا دھماکہ کر دیا جا تا تھا اور اس کو پختو نستان کی تاریخ سے جوڑا جا تا تھا۔ 
جب سوویت یو نین نے افغانستان میں مداخلت کی تو پختونستان کا مسئلہ اپنی مو ت آپ مر گیا تاہم دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھی جس کے بارے میں کہا جا تاہے کہ وہ سوویت یو نین کی پشت پنا ہی سے افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد کے ذریعے کی گئی جب پا کستان میں بم دھماکو ں کا سنگین سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس وقت کی جو رپو رٹس ہیں اس دہشت گردی میں خالی خاد ہی ملوث نہیں تھی بلکہ کچھ دیگر بیر ونی طاقتیں بھی شامل تھیں مگر یہ دہشت گردی اس طرح کامیاب یا سنگین صور ت حال سے دوچار نہیں تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنرل ضیاءالحق نے اس دہشت گردی کا منہ تو ڑ جو ا ب دیا تھا ، جس پر اس وقت کی افغان حکومت اور ہندوستانی ایجنسیاں بھی بلبلا اٹھی تھیں ۔
    تازہ حالا ت میں پا کستان اور افغانستان کے درمیا ن کشیدگی کے آثار پائے گئے ہیں جو کسی بھی طور دو نوں ملکوں بلکہ خطے کیلئے بھی اچھا شگون نہیں رکھتے ،بلکہ انتہا ئی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں ۔ کچھ بیر ونی طا قتیں چاہتی رہی ہیں کہ پاکستان کی توجہ اس کی مشرقی سرحدوں سے ہٹا دی جائے چنا نچہ آج کچھ ایسی صورت حال نظر آرہی ہے۔ پاکستان اپنا بھاری تو پ خانہ مغربی سر حد پرلے آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا بھا ری ہتھیا ر و ں سے ممکن ہو سکے گا ۔ ادھر افغانستان نے بھی پاکستان کی سرحد کے قریب اپنا توپ خانہ پہنچا دیا ہے۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ نہ تو پا کستان کو اور نہ افغانستان کو بر اہ راست ایک دو سرے سے کوئی خطرہ ہے ، نہ ٹکر اﺅ ہے بلکہ دونوں کا دہشت گردی کا قلع قمع کر دینے پر اتفا ق رائے ہے ۔ پاکستان کے مشیر خا رجہ سر تا ج عزیز کی افغان سفیر سے ملا قا ت کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے متحدہ طورپر کا وشیں کی جا ئیں گی ۔ بعدازاں پا کستان نے75 مطلو ب دہشت گردو ں کی فہرست بھی افغانستان کے حوالے کیں تھیں ، جس کے جو ا ب میںافغانستان نے 10 کی تعدا د کے اضافے کیساتھ یعنی 85 مطلو ب افراد کی فہر ست پاکستان کو دی دیں ۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان کے منتظم اعلیٰ عبداللہ عبداللہ نے اس امر کا اعترا ف بھی کیا کہ پاکستان انتہا ئی مطلوب شخص ملا فضل اللہ افغانستان میں اپنی محفو ظ گا ہ میں پنا ہ گیر ہے ۔ افغانستان کا پا کستان سے حقانی گروپ کے خلا ف کا رووائی کا مطالبہ ہے اور حقانی گروپ کے لیڈر وں کو افغانستان کے حوالے کرنے کا مطا لبہ ہے ۔
جہا ں تک حقانی گروپ کا تعلق ہے اس کا پاکستان میںکوئی وجو د نہیں کیونکہ افغانستان کی جو صورتحال ہے اس کے مشاہد ے ہی سے علم ہو جا تا ہے کہ اشرف غنی کا افغانستان میں کہا ں تک کنٹرول ہے اگر یہ کہا جا ئے کہ 60 فیصد افغان علا قے پر افغانستا ن کی حکو مت کا کنٹرول نہیں اور خا ص طورپر جنوبی افغانستان میں تو 10 فیصد علا قے پر ہی کنٹرول ہے اور90 فیصد پر طالبان کا راج ہے تو یہ مبالغہ نہ ہو گا اس لئے طالبان یا کوئی اور گروپ ہو اسے اپنی جد وجہد کیلئے افغانستان سے باہر ٹھکا نے بنا نے کی ضرورت ہی نہیں۔ علا وہ ازیں پاکستان نے حالیہ آپریشن عضب کے دوران ایسے تما م مشکو ک ٹھکا نے نیست ونا بود کر دیئے ہیں جس کا عالمی سطح پر اعتراف بھی کیا گیا ہے ۔
    سب سے اہم خبریہ ہے کہ پا کستان اور افغانستان کے درمیا ن دوبارہ دفاعی معاہد ہ کرانے کی سعی ہو رہی ہے۔ اس پہلے بھی کو شش جا ری تھی کہ قندھا ر میں بم دھماکہ ہو ا جس کے بعد دونوں ملکو ں کے درمیان اس مو ضو ع پر بات چیت التو اءکا شکا ر ہوگئی تھی ۔ 10 جنو ری کا دونو ں ملکو ں کے نمائند وں کے درمیا ن ایک غیر رسمی با ت چیت ہوئی تھی جس میں معاہد ے کے مسودے کی تیا ری کی گئی تھی ۔ اس میٹنگ کے بعد قند ھا ر میں دھما کہ ہوا اور فوری طورپر اس کا الزام حقانی نیٹ ورک پر ڈالا گیا۔ افغانستا ن کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی پا کستان سے حالا ت کو خوشگوار کر نے کے اقدام ہو تے ہیں تو کچھ بیر ونی طا قتیں ان کو سبو تا ژ کردیتی ہیں اسی طر ح جب افغانستان کی خاد کے بعد بننے والی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور پاکستانی ایجنسی کے ما بین تعاون کا معاہد ہ ہو نے والا تھا ، اس کو سبو تا ژ کیا گیا تاہم بات کھل جا نے پر این ڈی ایس کے اس وقت کے سربراہ کو بر طر ف کر دیا گیا تھا ۔ افغانستان اور امریکہ کو یہ جا ن رکھنا ہو گا کہ پا کستان کے بغیر افغانستان کو روٹی بھی ہضم نہیں ہو سکتی۔
امریکہ کو گزشتہ10 سال میںاس کا اچھا خاصا تجر بہ ہو چکا ہے۔ افغانستان اور پا کستان کے عوام ایک دوسرے سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتے اور نہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ اس گواہی سے بھری پڑ ی ہے ۔ اسلئے لا کھ جتن کے با وجو د افغانستان میں کسی تیسری طا قت کے کر دار کو پنپنے کا مو قع مل سکا ہے اور نہ دیا جاسکتا ہے ۔یہ صرف مذہب ، دین یا نسل کی وجہ سے نہیں بلکہ جغرافیا ئی حقائق کی وجہ سے بھی ہے اور جغرافیہ نہیں بدلا جاسکتا ۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: