Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فریضۂ حج اور حرمتوں کی پاسداری

اِرشاد الرحمن۔ہند

عبادات میں سے عظیم ترین عبادت حج کی ادائیگی کیلئے لوگ دنیا کے پست و بالا مقامات سے آتے اور میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ مختلف نسلوں، مختلف رنگوں، مختلف زبانوں اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی حاضری کا مقصد نہایت عجزو انکسار کے ساتھ یہ اعلان کرنا ہوتا ہے کہ: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک، لَبَّیْک لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَتَ لَکَ وَالْمُلْک، لَا شَرِیْکَ لَکَ۔یہ اللہ کی عبودیت خالصہ ہے جو روئے زمین پر بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں کو رشتۂ اخوت اور سلسلۂ محبت میں پرو دیتی ہے۔ یہ وہ رشتہ و پیوند ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں کو باہم جوڑ کر قائم فرمایا ہے۔ سچ فرمایا ہے اللہ رحمن و رحیم نے: ’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان کے دلوں کو نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے۔ یقینا وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔‘‘(الانفال63,62) اخوت کا یہ رشتہ میدانِ عرفات میں ننگے سر کھڑے بندگانِ رب کے اجتماع میں روشن تر ہو کر سامنے آتاہے۔ مسلمانوں کے درمیان یہ مقدس بندھن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام کے تمام مسلمانوں پر فرض ٹھہر ایا ہے۔ یہی رشتہ ہے جس کی پاسداری کی خاطر مسلمان ایک دوسرے کی خوشی غمی، تنگی وتکلیف میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے مفادات و مصالح کے پاسبان ہوتے ہیں، اور اْن پر آنے والی آفتوں ،مصیبتوں کو دور کرنے کیلئے باہمی تعاون کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ کسی بھی مسلمان قوم پر کوئی جارحیت کرے تو یہ مل کر اْس کا جواب دینے کے پابند ہیں۔ یہ اپنے کلمہ گو مسلمان بھائیوں کی مصیبتوں میں اْن کی غم خواری اور مدد و نصرت کو اپنا ایمان جانتے ہیں۔ اسی طرح تو امت مسلمہ باہمی رحمت و مودت میں جسد ِواحد کی شکل اختیار کرتی ہے۔ آج اس فکرو نظر اور ایمان و یقین کی حامل امت مسلمہ کی تشکیل ضروری ہے۔ رسولِ رحمت کا خطبۂ حجۃ الوداع ایسی امت کی تعمیر کا بہترین دستور اور نقشہ ہے،انسانیت کو محرومی و ذلت اور ظلم و عدوان سے نجات دلانے کا بہترین منشور ہے۔ یہ وہ اساس ہے جو ہر انسان کیلئے امن و امان کے دروازے کھولتی ہے کہ وہ رب کی شریعت کے سائے میں زندگی گزارے خواہ اُس شریعت کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے تو یہاں تک انسان کو اختیار دے دیا کہ وہ اپنی مرضی و منشا سے اپنے لئے دین کا انتخاب کرے، اس کے اوپر کوئی جبرو قہر نہیں اور کوئی زور و زبردستی نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریمکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے، پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟۔‘‘(یونس99 )۔ اگرچہ حالات بد سے بدترین شکل اختیار کر گئے ہیں مگر مناسک حج میں سے صفا و مروہ کے درمیان سعی کا عمل مومن کو یہ یاد دلاتا ہے کہ مایوسی نہیں امید پر نظر رکھنی چاہیے۔ سیدہ ہاجرہ ؑ نے صفا و مروہ کے درمیان امید اور آس کے ساتھ ایک نہیں، 2نہیں، 3نہیں بلکہ7 چکر لگائے کہ پانی مل جائے۔ جب اْن کی یہ جدوجہد مقبول ہو گئی تو بارگاہِ اِلٰہ سے چشمۂ زَم زَم کا اجراء عمل میں آ گیا۔ آج ہمیں بھی امید اور رجا سے مصروفِ عمل ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم انسانیت کو اللہ کے دین کی طرف اور اسلام کے حیات آفریں پیغام اور نظام کی طرف بلائیں۔ ہم خود ایسے اخلاق و اقدار عام کریں جن کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ قوم کو بامقصد، باوقار، امن و سلامتی اور تعمیر و ترقی کا باعث بننے والے سنجیدہ عمل کو اختیار کرنے کی دعوت دیں، ابنائے امت کو شعور و بیداری اور تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں۔

شیئر: