Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملکی دولت لُوٹنے کےلئے ناگزیردونوں ہاتھ

 
 دنیا سے اگر کوئی چیزانسان کے ساتھ جاتی ہے تو وہ ہیں اس کے کرتوت
 
صبیحہ خان ۔ ۔ ٹورانٹو
 
جسمِ انسانی میں ہاتھوںکی بہت اہمیت ہے۔ ان کی بدولت انسان اپنی زندگی میں کبھی آسمانوں کی وسعتوں کو چھولیتا ہے تو کبھی زمین اور سمندر کی تہوں تک پہنچ جاتا ہے ۔وہ ہاتھوں سے ایسے ایسے کام لیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ عقل ہی ہاتھوں کا سب سے زیادہ ساتھ دیتی ہے ۔ چلئے دیکھتے ہیں کہ لوگ ہاتھوں سے کیا کیا کارنامے انجام دیتے ہیں :
ہمارے ہاں ملکی دولت لوٹنے کے لئے بھی دونوں ہاتھ ہونا ناگزیرہیں۔ یہ دولت دو ہاتھوں سے ہی لوٹی جاتی ہے کیونکہ کسی بھی لٹیرے کا تیسرا ہاتھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمارے ہاں بہت سے ایسے ہاتھ ہیں جن کا نام تو ہے مگر وہ دکھائی نہیں دیتے مثلاً خفیہ ہاتھ ، بیرونی ہاتھ ، ان دیکھے ہاتھ۔ ہمارے ذمہ داران کو جب کچھ سمجھ میں نہ آئے تو وہ ساری ذمہ داری ان ہاتھوں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک آہنی ہاتھ بھی ہوا کرتا تھا مگر آجکل یہ آہنی ہاتھ زنگ آلود ہوچکا ہے چنانچہ اسے عجائب گھر کی زینت بنادیا گیا ہے ۔
جب بھی ہمارے ملک میں کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے توگھسے پٹے بیان دیئے جاتے ہیں کہ” دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر دم لیں گے،خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے، پائی پائی کا حساب لیا جائے گا، دہشت گردوں کی کمر توڑ دیں گے۔“
یہاں ایک اعتراض تو یہ ہے کہ دہشتگردوں کی کمر کی بجائے ان کے ہاتھ پاﺅں توڑے جانے چاہئیں تھے۔ان دہشت گردوں کے ہاتھ اتنے مضبوط ہیں کہ جہاں چاہیں دھماکہ کردیتے ہیں اور ہمارے کرتادھرتاو¿ں کے ہاتھ اتنے کمزور ہیں کہ وہ اپنے ملک کے شہریوں کی جانوں کا تحفظ نہیں کرسکتے۔ کوئی بھی دہشت گردجب چاہے ہمار ے ملک میں داخل ہوجاتا ہے ۔ ان دیکھے ہاتھ ان کی مدد بھی کرتے ہیں، ان کی گرفت ضروری ہے۔
ہمارے اکثر صاحبان اور بیورو کریٹس اپنی پانچوں انگلیاں گھی میں رکھنے کے لئے بڑے پا پڑبیلتے ہیں۔اگر اس کے باوجود گھی نہ نکلے تو وہ انگلیاں ٹیڑھی کرکے گھی نکال لیتے ہیں اور اس کام میں وہ خاصے ایکسپرٹ ہیں ۔ ڈاکٹر حضرات بھی مریض کی نبض پر تب ہاتھ رکھتے ہیں جب مریض کا پرس بھاری بھرکم محسوس ہوتا ہے۔ اکثر ہاتھ بھرکی زبان ہونے کا طعنہ بھی خواتین کو دیا جاتا ہے۔
ایک جج کے ہاتھ میںموجودقلم کسی انسان کو اگلے جہان کی سیر بھی کراسکتا ہے یا پھر عمرقید کی سزا دلواسکتا ہے اور یہی قلم کسی کو قید سے رہائی بھی دلواسکتا ہے کیونکہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں عمر قید کی ایک سزا جو ہنسی خوشی برداشت کی جاتی ہے وہ شادی کی شکل میں ہوتی ہے جس میں عمر قید پانے والا اپنے ہاتھ سے اس سزانامے پر دستخط کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کو تو یہ سزا اتنی بھاتی ہے کہ وہ بار بار عمر قید کی یہ سزا پانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اس قید سے رہائی پانے والے پروانے پر بھی ان کے ہاتھ تیزی سے چلتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ہاتھوں سے کی گئی غلطیوں کا خمیازہ لوگ زندگی بھر بھگتتے ہیں اور ان کی زندگی ہاتھ ملتے ہی گزرتی ہے ۔ 
ایسی بہت سی چیزیں ہیں جسے خواتین اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہیں، ایک ہاتھ میں شوہر کی لگام اور دوسرے ہاتھ میں پرس جوان کے لباس سے میچ کرتا ہو۔ اکثر شوہروں کو سدھارنے کےلئے بیویوں کو اپنے ہاتھ میں بیلن چمٹا اور ڈندا بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ ان اشیاءکو کب، کہاں ، کیسے شوہر حضرات پر آزمایاجائے ، اس کا انحصار حالات اور واقعات پرہوتا ہے ۔
کسی بھی کامیابی پر لوگ انگلیوں کی مدد سے وکٹری کا نشان بھی بناتے ہیں خاص کر جب وہ میڈیا یر پریس میں فوٹو بنوائیں تو یہ نشان بناکر اپنی فتح کا یقین دلاتے ہیں مگر حیرت کی بات تو تب ہوتی ہے جب یہ وکٹری کا نشان سیاست دانوں کے علاوہ چور ، ڈاکو، قاتل ، اسمگلر، منافع خور اور بدعنوان عناصر اپنی گرفتاری پر جیل جاتے ہوئے بناتے ہیں۔ شاید وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر قانون کے ہاتھ لمبے ہیں تو ہمارے ہاتھ بھی کچھ کم نہیں اور ہمیں کون کتنے دن بند کرسکے گا۔ آخر جیت ہماری ہوگی۔
ہمارے ہاں بڑے بڑے رشوت خور اور کرپٹ افراد صاف بچ جاتے ہیں۔ قانون کے ہاتھ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے کیونکہ ان کو بچانے والے بدعنوان ہاتھ بہت طاقتور ہوتے ہیں کہ کوئی انکا کچھ نہیں بگاڑ پاتا ۔ رشوت خور ہاتھ ہر ضرورت مند یا مجبور کو لوٹنے کےلئے تیار رہتے ہیں۔عام حالات میں جو کام نہیں ہوسکتا ،رشوت خور ہاتھ بآسانی اسے انجام دے ڈالتے ہیں۔ غریب عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، غربت کی وجہ سے ان کی زندگی عذاب بن چکی ہے مگر ہمارے اکثر صاحبان عوام کی فلاح و بہبودکی بجائے صرف اپنی اپنی کرسیوں کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہیں کہ کہیں یہ ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ کہیں ا یسا نہ ہو کہ ان کا سارے کا سارا خاندان بے روزگار ہوجائے۔ 
”اِس ہاتھ دے ، اُس ہاتھ لے “کے فارمولے پر ہمارے سرکاری ادارے پورا عمل کرتے ہیں بہت سے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرتے بیٹھے رہنا چاہتے ہیں اور انکی خواہش ہوتی ہے کہ ہاتھ ہلائے بغیر ان کو دنیا بھر کی نعمتیں حاصل ہوجائیں۔ ہماری قوم کا مزاج بھی یہی بن گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک زرعی ہونے کے باوجود معمولی چیزوں کے لئے دوسروں کا محتاج ہے ۔
قدرت نے جو ہاتھ انسان کو اچھے کاموں کے لئے عطاکئے ہیں ان ہاتھوں کو لوگ غلط کاموں کےلئے استعمال کرتے ذرا نہیں گھبراتے،نہ ہی شرماتے ہیں۔ اگر انسانوں کا آپس میں اتحاد ہوتو یہ ہاتھ ملکر فولادی زنجیر بن سکتے ہیں ، جنہیں کوئی نہیں توڑ سکتا۔ جن سے برائیوں اور ناانصافیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ انہی ہاتھوں سے زندگی رواں دواں ہے۔ انسان دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے، خوب موج مستی کرتا ، دولت کے انبار لگاتا ہے مگر جاتا ہے دنیا سے خالی ہاتھ، اگر کوئی چیز اس کے ساتھ ہوتی ہے تو صرف اس کے کرتوت۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: