Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر شخص پریشان، لبوں پر بُڑبَڑاہٹ،چہرے پربجے 12

 
ہم نے تویہ سوچ کر صبر کرلیا ہے کہ ہم ٹھہرے پسماندہ ملک کے باسی ،ہم تو بھول ہی گئے تھے کہ ہمارا شمار غیر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے صاحبان، عوام سے زیادہ اپنی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں
 
عنبرین فیض احمد ۔۔ ریاض
 
آج کل ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے چنانچہ چہرے پر 12 بجے ہوتے ہیں۔ لبوں پر بڑبڑاہٹ ہوتی ہے مثلاً اس وقت بجلی کو چلے جانا تھا ، پھرگئی کیوں نہیں؟ کام کرنے والی ماسی مقررہ وقت سے پہلے کیوں نمودار ہوگئی، آج خلاف توقع نل میں پانی کیوں آرہا ہے؟ ہمیں تو اس بات پر بھی پریشانی ہوتی ہے کہ سبزی والے نے تازہ سبزی اتنی سستی کیوں دے دی۔ رکشے والے نے ہم سے کرایہ کم کیوں لے لیا۔ اپنے آپ سے کئے جانے و الے ان استفسارات کا سبب یہ ہے کہ ہمیں ہروقت پریشانی اور ٹینشن میں مبتلارہنے کی عادت سی ہوگئی ہے ۔ اسی طرح کی بے شمار باتیں ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہیں۔
ہم نے تویہ سوچ کر صبر کرلیا ہے کہ ہم ٹھہرے پسماندہ ملک کے باسی ،ہم تو بھول ہی گئے تھے کہ ہمارا شمار غیر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے صاحبان، عوام سے زیادہ اپنی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے پاس عوام کے لئے وقت نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے ہی جھمیلوں میں پھنسے رہتے ہیں ۔ہمارے ہاں ہر شخص کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا دکھائی دیتا ہے، کسی کو وہم کی بیماری ہے توکسی کو دماغی خلل لاحق ہے ، کوئی دوسروں کی جاسوسی کے مرض میں مبتلا ہے تو کسی کو حرص و ہوس کی آگ جھلسا رہی ہے ، کوئی حسد و جلن کا شکار ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی راہ گیر راستہ بھٹک جائے اور وہ کسی سے راستہ دریافت کرلے تووہ اس کو راستہ بتانے کی بجائے مزید الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔اگر کوئی شخص ترقی یافتہ ملک میں راستہ دریافت کرے تو نہ صرف لوگ اس کی رہنمائی کرتے ہیں بلکہ اسے مسکرا مسکرا کر اس طرح سمجھاتے ہیںکہ اس راستے کو آپ زندگی بھر فراموش نہیں کرپاتے ۔
ہمارے معاشرے میں لوگوں کے چہروں پر بہت کم ہی مسکراہٹ آتی ہے۔ یوں کہئے کہ ہنسنے اور مسکرانے کے معاملے میں ہم بہت ہی کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ہماری نزدیک ہنسنے یا مسکرانے کا رواج عام نہیںلیکن ساتھ ہی عصر حاضر میں نفسیات دانوں نے قہقہے لگانے اور دل کھول کر مسکرانے کو جذبات کے اظہار کا نام دیا ہے اور ساتھ ہی اپنے اندرونی حالات کی گھٹن کے اخراج کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اسی لئے موجودہ دور میں ایسی بہت سے جگہیں اور بیٹھکیں تیار کی گئی ہیںجہاں لوگ بیٹھ کر زور زور سے ہنستے ہیں جس سے ان کی طبیعت کافی ہلکی پھلکی ہوجاتی ہے۔ 
مسکراہٹ ایسی زبان ہے جو سب کو سمجھ آتی ہے۔ اسے خاص طور پر بچے تو بہت ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہمیں ایسے مسکرانا چاہئے گویا آپ منجن کے اشتہار میں حصہ لے رہے ہیںلیکن اسے کیا کہیں کہ جیسے جیسے ترقی کے در کھلتے جارہے ہیں ، ہم مسکرانا اور ہنسنا بھولتے ہی جارہے ہیں۔ مسکراہٹ کا نہ کوئی جغرافیہ ہوتا ہے نہ شہریت ، یہ ایسا آفاقی پیراہن ہے جو کوئی بھی پہن سکتا ہے، وہ مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا باسی، مسکراہٹ زیب تن کرکے لوگوں کے دلوں میں گھر کر سکتا ہے ۔
طب کی دنیا میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہنسی کے بعض نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ ہنسنا سو فیصد فائدہ مند نہیں ہوتا بلکہ اچانک ہنسی کا دورہ صحت کے لئے کافی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ، اس سے دل پھٹ سکتا ہے، جگر کام کرنا ترک کرسکتا ہے، غشی بھی طاری ہوسکتی ہے۔ ہم تو یہ تحقیق سن کر سکتے میں آگئے کہ ہماری قوم اتنی عقل مند ہوگئی ہے اس لئے شاید ہنسنے اور دل کھول کر مسکرانے سے قبل کافی سوچ بچار کرتی ہے اور حسبِ ضرورت کم سے کم مقدار میں ہنستی ہے۔ 
دوسری جانب مسکراہٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مسکراہٹیں بکھرنے سے شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔ لب و لہجے میں شائستگی پیدا ہوتی ہے جب ہم نے مسکراہٹوں کے اتنے سارے فوائد دیکھے تو ہم حیران و پریشان رہ گئے اس دن ہم نے ایک اہم فیصلہ کیا کہ مسکراہٹوں کو اپنی زندگی میں شامل ضرور کریں گے چنانچہ ہم نے مسکراہٹوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا ۔
ہمیں ساری بات سمجھ میں آگئی کہ مغرب کے لوگ ترقی کے میدان میں اتنا آگے کیوں نکل گئے کیونکہ ہر لمحہ مسکراہٹ ان کے چہروں پر سجی رہتی ہے اور ان کے ہر عمل سے خوش اخلاقی ٹپکتی ہے۔ وہ بات بے بات شکریہ کہتے نہیں تھکتے لیکن ساتھ ہی اس بات کوذہن نشین کرلیا کہ جو بھی شخص تنہائی میں ہنستا ہے ،اس کو لوگ پاگل خانے داخل کروادیتے ہیں۔ مسکراہٹیں محبتوں سے جنم لیتی ہےں جو کشیدگی کو کشادگی میں تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ 
ہمارے بعض علاقوں میں حالت یہ ہے کہ اگر کوئی راستہ بھٹک جائے اور کسی سے مدد مانگ لے تووہ فوراً اسے پستول دکھا کر اس کا سبب مال و متاع چھین کر نودو گیارہ ہوجاتے ہیں اور وہ شخص زندگی بھر ہنسنا کیا مسکرانا ہی بھول جاتا ہے۔ہم تو اسی پر اکتفا نہیں کرتے کبھی کبھی تو ہم اتنے جلدی یا غصے میں ہوتے ہیں کہ مال و متاع کے لئے بغیر ہی بندے کو ہی دوسرے جہاں میں پہنچانے میں دیر نہیں لگاتے ، یہی ہے المیہ ہمارے معاشرے کا کہ انسان راستہ بھٹک جائے تو ڈر محسوس کرے۔ اگر ہم مغربی معاشرے کا موازنہ اپنے معاشرے سے کریں تو سوائے شرمندگی کے اور کچھ محسوس نہیںہوتا۔ ذرا سوچئے کہ کہیں ہم واقعی راستہ تو نہیںبھول گئے ؟
٭٭٭٭٭٭

شیئر: