Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملازمت نہ کرنے کا طعنہ زندگی کا ساتھی بن کر رہ گیا

زینت شکیل ۔ جدہ

وہ فون کے قریب بیٹھی تھی مگر سوچوں میں ایسی منہمک کہ گھنٹی کی آواز بھی نہیں سن پا رہی تھی ۔ آج اسکا موڈ حد سے زیادہ خراب تھا یا یوں کہنا چاہئے کہ اسکی مایوسی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی ۔آج صبح ہی صبح ایک نہ ختم ہونے والی گمبھیر بحث پھر شروع ہو گئی تھی ۔اس نے تو صرف یہی کہنا تھا کہ’’آج کل موسم کس قدر خوبصورت ہے۔ صبح کے وقت تازہ ہوامیں نکلو تو زندگی کا مزہ دوبالا ہو جائے اور جو لوگ صبح ہی صبح اپنی اپنی جاب پر نکلتے ہیں وہ اس مسحور کن موسم سے کتنا لطف لیتے ہونگے ۔اس نے تو صرف بدلتے موسم کی تعریف کی تھی کہ گرمی کا زور ٹوٹ رہا تھا اور سردی سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں صبح کے منظر کو دلفریب بنا دیتی تھیں لیکن معاملہ تو عجیب بحث و مباحثے پر جا ٹھہرا ۔ اسکی منطق ہی نرالی تھی تیز لہجے میں کہا کہ: ’’ ہاں تمہاری بھی کہیں جاب لگ چکی ہوتی تو یوں گھر پر بیٹھی بیٹھی وقت نہ ضائع کررہی ہوتیں اور موسم کی خوبیاں نہ گنوا رہی ہوتیں۔ تم سے کم پڑھی لکھی خواتین بھی کچھ نہ کچھ ضرور کر رہی ہیں، کچھ پیسے کماکر شوہر کا ہاتھ بٹا رہی ہیں لیکن تم تو ایسی کاہل ہو کہ کہیں انٹرویو کیلئے بھی اتنی دیر تک سوچتی ہو کہ آخر کار انٹرویو کے ایام کا اختتام ہو جاتا ہے ۔ تم نے دراصل کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ اتنی بڑی یونیورسٹی سے حاصل کردہ ڈگری کو استعمال میں لائو ۔بس چولھے پر کھانا پکالیا اور بچے پال لئے ،تمہاری سوچ یہیں تک محدود ہے۔مجھے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ تم واقعی اتنی ڈفر ،کم عقل ہو کہ کوئی بھی ادارہ تمہیں جاب کیلئے موزوں نہیں سمجھتا ۔‘‘ یہ بات آج کی نہیں تھی۔ اسکی شادی جب سے ہوئی تھی تب سے ملازمت نہ کرنے کا طعنہ اور اس پر ہونے والا جھگڑ ا اس کی زندگی کا ساتھی بن کر رہ گیاتھا۔اسکاکہنا تھا تم نے اتنی بڑی یونیورسٹی میں پڑھائی مکمل کرنے میں اتنے پیسے ضائع کروائے۔ اگر جاب نہیں کرنی تھی تو اتنی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وہ سوچ رہی تھی کہ اس نے تو اپنے والدین کے گھر رہ کر تعلیم حاصل کی تھی۔ اگر سسرال آکر شوہر کے پیسے سے تعلیم حاصل کرتی تو نہ جانے اسے اور کتنے طعنے سننے کوملتے۔میری تعلیم پر ان کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوالیکن پیسے ضائع ہونے کاغم انہیں کس قدر ہے ۔شاید مرضی انکی یہی ہے کہ جاب کی جائے توکچھ آمدنی میں اضافہ ہو۔ یہ بھی سچ ہے کہ پیسہ ایسی چیز کہ خواہ کتنا بھی آئے، اس کی کمی کا احساس باقی رہتا ہے ۔وہ خود اچھی خاصی جاب پر تھے۔ یہاں تک کہ گاڑی کیساتھ ساتھ پٹرول اور سیل فون کا خرچ بھی کمپنی ادا کرتی تھی۔گھر بھی اچھا خاصا ملا ہواتھالیکن سوچ اس جگہ جا ٹھہری تھی کہ سب کی بیویاں جاب کرتی ہیں انکے سامنے تم ڈفر لگتی ہو۔ڈگری ہے لیکن جاب نہیں ملتی۔ سب لوگ آفس اور اسکول کیلئے روانہ ہوگئے مگر وہ ویسے ہی بیٹھی رہی ۔نہ ناشتہ کرنے کو دل چاہا ،نہ ہی گھر سمیٹنے کو۔ لنچ پر کیابنانا ہے اسکے لئے بھی کوئی تیاری اس نے نہیں کی تھی جبکہ روزانہ وہ اب تک سوچ لیتی تھی کہ کیا پکانا ہے؟وہ گوشت کاایک پیک فریزر سے نکال لیتی، سبزی بنالیتی اور کبھی دال چاول یا پھر بریانی تیار کرلیتی ۔ میٹھا بھی روزانہ بدل بدل کر بناتی مگر آج تو موڈ ایسا خراب ہو اکہ اسے محسوس ہوا کہ وہ دنیا کی سب سے نالائق اور نا اہل ہستی ہے۔ اسے صرف گھر کے کام آتے ہیں۔ دفتری امور کے حوالے سے وہ کند ذہن ہے ۔ اسی لئے فون کی گھنٹی بجتی رہی اور وہ بے خیالی میں بیٹھی رہی۔کافی دیر کے بعد اسے خیال آیا کہ شاید فون کی بیل بج رہی ہے۔اس نے بے دلی سے فون اٹھایا ۔دوسری طرف سے انکی امی کی سہیلی نے کہا’’تم کہاں تھیں؟‘‘اس نے جواب دیا ’’ یہیں تھی ‘‘انہوں نے حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’تو پھر فون کیوں نہیں اٹھایا؟ تقریباً 3منٹ فون کی بیل بجتی رہی مگر تم نے توجہ ہی نہیں دی،ایسی کیا خاص بات سوچنے میں مشغول تھیں؟‘‘اس سے رہا نہ گیا ، اس نے تمام بات سچ سچ بتا دی ۔ وہ پوری توجہ سے سنتی رہیںاور پھر کہاکہ اتنی مایوسی کی بات کیوں کر رہی ہو کہ تم دنیا کی سب سے نالائق انسان ہو ۔اس کا مطلب تو یہی ہے ناں کہ جو گھر سے باہر نکل کر جاب نہ کرے وہ نا اہل ہے، اسکا اس دنیا میں کوئی کام نہیں بلکہ تمہارے خیال میں جیسے تمہیں جینے کو کوئی حق نہیں اسی طرح تمام ان لوگوں کو جو جاب کرکے پیسے نہیں کماتے، انہیںفوراً موت کو گلے لگا لینا چاہئے ۔ وہ کوئی جواب نہ دے سکی۔انہوں نے بڑی محبت سے کہاکہ ’’ تمہیں ایک بات معلوم ہے؟‘‘وہ چونکی کہ پتہ نہیں آپ کس بات کے متعلق پو چھ رہی ہیں ۔وہ پوچھنے لگی کہ کونسی بات؟وہ بولیں’’تمہیں نہیں معلوم تو ہم بتا دیتے ہیں کہ تم بہت قیمتی ہو ۔تمہیں نہیں پتہ تمہاری اہمیت کس قدر ہے ۔وہ حیرت زدہ رہ گئی اور گویا ہوئی کہ ’’ وہ کیسے؟‘‘بھئی سب سے پہلی خوش نصیبی تو یہی ہے کہ مالک حقیقی نے ایمان والا بنایا ،مسلمان کے گھرپیدافرمایا پھر تمہیں اتنے خوبصورت سانچے میںڈھالا، اتنی اچھی باکردار جوانی عطا فرمائی اور ہمت سے دنیا میں جینے کی طاقت بخش دی ۔اسلام کا شعور عطا فرمایا ،صحیح اور غلط چیزوں کے درمیان فرق سمجھنے کاادراک عطا فرمایا۔ماں کی سعادت دی جسکے قدموں تلے جنت کی بشارت فرمائی گئی ہے ۔تمہارا دوپیسے کمانا اہمیت نہیں رکھتا ۔تمہاری تو ایک ایک بات، ایک ایک فیصلہ، ایک ایک جملہ اہمیت رکھتا ہے ۔تم جو کام صبح سے شام تک کرو گی، رات میں اٹھ کر تہجد پڑھو گی اور فجر کی نماز کا انتظار کروگی پھر اشراق تک ذکر میں مصروف رہو گی اور ہر دن قرآن پاک کی تلاو ت کو اپنی زندگی میں شامل کرو گی ، یہی سب باتیں بچے اس وقت یاد کریں گے جب تم اس دنیا میں موجود بھی نہیں ہو گی ۔ تمہارا کام پیسے کمانا نہیں بچوں کی تربیت ہے ۔ وہ جب تمہیں دیکھیں گے کہ تم سچ بولتی ہو، جھوٹ بولنے سے پرہیز کرتی ہو ،نیک کام کی طرف متوجہ رہتی ہو اور برائی سے ہر لمحے بچنے کی سعی کرتی ہو ، تو یہی سب باتیں وہ اپنی زندگی میںشامل کرلیںگے ۔وہ بعد میں یاد کریںگے کہ ہماری ماں 5وقت کی فرض نمازوں کے علاوہ تہجد ،اشراق اور چاشت کی نماز یں بھی ادا کرتی تھیں۔ وہ اپنی زندگی میں بھی یہی اچھی عادتیں اپنائیںگے۔تم نے توکئی بڑے بڑے لوگوں کے انٹرویوز پڑھے ہونگے جن میں وہ یہی کہتے ہیں کہ ہمیں جب بھی زندگی کے بڑے فیصلے کرنے پڑے، ہم نے ہمیشہ اس لمحے اپنے والدین کو ذہن میں رکھ کر فیصلے کئے کیونکہ انکے ذہن میں بچپن کی وہ یادگار یں نقش ہیں کہ ایسے معاملات میں انکے والد یا والدہ نے کیا فیصلہ کیا تھا اور ویسے بھی تعلیم حاصل کرنے کا مقصد پیسے کمانا نہیں، زندگی گزارنے کا شعور حاصل کرنا ہے ۔ اپنے گھر میں ہر کام تم خود انجام دیتی ہو ۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا پکاتی ہو ، بچوں کی پسندیدہ ڈشز بناتی ہو ، وہ تمہارے ہاتھ کے ذائقے کے عادی ہیں ۔ اگر تم کوئی نوکرانی رکھو گی تو بچے اسی کی گود کے عادی ہونگے اور اسی کے ہاتھ کے کھانے کھائیں گے۔ ان کے دلوں میں ہمیشہ ایک تشنگی رہے گی کہ ہماری ماں نے ہمیںکبھی اہمیت نہیں دی ، صرف پیسہ کمایا اور سہولت پہنچانے کو کافی سمجھا ۔ ہمیں نہ تو ماں کے ہاتھ کاذائقہ یاد ہے ، نہ ہی بیماری میں انکے گود کی گرمی یاد آتی ہے۔ تم نے تو اپنا ہر لمحہ اپنے گھر اور بچوں کیلئے وقف کیا تو اس سے بڑھ کر اور کیا اہم کام ہے جس کو انجام دینے کے لئے تم گھر سے نکلنے کی بات کر رہی ہو ۔کیا تم ’’ بی اماں ‘‘ کو بھول گئیں یاایسی ہی کتنی با ہمت خواتین کو تم نے بھلا دیا جو تاریخ میں گزری ہیں جنہوں نے ایسے بڑے باکردار ، باصلاحیت ، اسلامی اسکالرپیدا کئے کہ جنکے ایک حکم پر کروڑوں لوگ لبیک کہتے ہیں ۔ کیا انہیں کہیں جاب کرنے کی ضرورت پڑی تھی ۔ اپنی ذہانت بچوں کو اسلامی اقدارسے محبت اوردینی احکامات کی بجا آوری کا عادی بنانے پر لگائو ۔ یہی کامیابی کا سب سے قریبی راستہ ہے ۔ جن مائوں نے اس بات کو سمجھا اور اردگرد کے فضول مشوروں پر عمل نہ کیا ،دراصل وہی عقلمند ہیں کیونکہ ویسے بھی جن خواتین نے دونوں طرف اپنی صلاحیت صرف کر دی انکی اپنی زندگی دائو پر لگ گئی۔انہیں نہ ذہنی سکون ملا اور نہ ہی انکی صحت برقرار رہی ۔ بڑھاپا بھی جلدی آگیا اور باہر کے ماحول سے ملنے والی ہر وقت کی ٹینشن بھی زندگی بھر ذہن پرسوار رہی ۔ وہ دم بخود ہو کران کی لمبی چوڑی نصیحت سنتی اور اپنے پلو سے باندھتی رہی۔جب فون بند ہوا تو وہ ایک نئے جوش وولولے سے اپنے کاموں میں مگن ہوگئی ۔ اس نے سوچ لیاکہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو نالائق سمجھنا چھوڑدے گی، اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرے گی ۔بچوں کو نماز کا پابند بنائے گی اور ہر وقت کوئی نہ کوئی اچھی بات دہراتی رہے گی۔ وہ ایک ایسی اچھی باپردہ مسلم خاتون بن جائے گی کہ دوسری عورتیں بھی اگر اسکی طرف دیکھیں تو ایسا ہی پردہ کرنے کی خواہش کریں۔ جانناچاہئے کہ عورت کی حفاظت اور اسکی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ دار ی مرد کو سونپی گئی ہے۔

شیئر: