Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین صنف نازک کیوں؟

ارچنا جیا کمار

ہم سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر جو کچھ دیکھتے ہیں ان سے نہ صرف ان لوگوں میں پائی جانیوالی بوریت بلکہ شہرت پسندی اور غیر شہرت پرستی کے بڑھتے ہوئے شوق اور رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ مگر ایسے بہت سے اسٹیریو ٹائپ یا لکیر کے فقیر بھی ہوتے ہیں ۔ جو ہمارے وجود کو نت نئی شکل و صورت عطا کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقتاً مجھے اب تک یہ نہیں معلوم ہو سکا تھا کہ جب کچھ نام نہاد لبرل اور فراخ دل اور کشادہ ذہن کے مالک دوستوں نے ہمیں اس صورتحال سے حال ہی میں آگاہ کیا ۔ ان لوگوں کی طرف سے مجھے جو تحریریں موصول ہوئیں انکے عنوانات بھی عجیب و غریب ہیں ۔ مثلاً اب اس عنوان کو دیکھئے جیسے ’’ بیٹی کی شادی میں باپ کی تقریر ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس تحریر کی جذباتیت سے قطع نظر مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ اس میں مختلف اصناف یعنی مردوں اور عورتوں دونوں کی گھسی پٹی عادتوں اور رویوں کا احاطہ کیا گیا تھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ہم کس طرح بعض انتہائی نا پسندیدہ باتوں ، رویوں اور طرز عمل کو نہ صرف قبول کر لیتے ہیں بلکہ ان واہیات چیزوں کو اپنی اولاد اور اپنے بچوں تک بھی پہنچاتے ہیں ۔ ’’ بیٹی کی شادی پر باپ کی تقریر‘‘ کے ایک اقتباس کو نمونے کے طور پر دیکھئے ۔ وہ نہ پہلے کبھی مجھ پر بوجھ تھی اور نہ آئندہ کبھی بوجھ بنے گی ۔ سچ تو یہ ہے کہ میری سانسیں اور میری مسکراہٹ اسی کے طفیل ہے ۔ میں اسکی شادی کر رہا ہوں کہ یہی قانون فطرت کا تقاضہ ہے ۔ ہم اپنی تہذیب اور ثقافتی روایات کے ہاتھوں بے بس ہیں اسی لئے اسے اب آپ کے گھر بھیج رہے ہیں ۔ پہلے وہ میرے گھر کی خوشی اور مسرت تھی اب یہ آپ کے گھر کو منور رکھے گی ۔ یوں سمجھئے کہ میں اپنی دنیا آپ کے حوالے کر رہا ہوں ۔ براہ کرم اس بات کا خیال رکھئے گا کہ وہ آپ کے یہاں ملکہ کی طرح رہے ۔ میں نے اسے اپنے خون پسینے سے پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اب حیرت انگیز طور پر پوری طرح بھر پور اور مکمل ہو چکی ہے ۔ یقینا میری بیٹی آپ لوگوں کی زندگیوں میں توجہ محبت حسن اور گرم جوشی بھردیگی ۔ میں ان تمام باتوں کے عوض اسکی خوشی اور مسرت چاہتا ہوں ۔ براہ مہربانی اسے خوش و خرم رکھنا ۔ اگر کبھی آپ کے دماغ میں یہ خیال آئے کہ میری بیٹی نے کوئی غلط بات کہی ہے یا غلط حرکت کی ہے تو آپ اسکی سرزنش میں آزاد ہیں مگر سرزنش اور تنبیہ کے دوران بھی پیار اور محبت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے ۔ یہ بہت نازک ہے کبھی کبھی وہ اداس ہو جاتی ہے ۔اسے آپ کی توجہ کی ضرورت ہے ۔ اگر کبھی وہ خود کو بیمار محسوس کرے تو اس سے محبت اور پیار سے پیش آئیے اسکا خیال رکھئے ۔ یہی اسکا علاج اور اسکی دوا ہے اور یہ دوا اس پر بہت اچھے اثرات مرتب بھی کرتی ہے ۔ اگر کبھی وہ اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح عہد ہ بر آنہ ہو سکے تو اسے شائستہ بنانا آپ کا حق ہے ۔ مگر اس وقت بھی آپ کا رویہ شفقت اور محبت والا ہو وہ ابھی تک سیکھ رہی ہے ۔ اسے سمجھنے کی کوشش کیجئے اور براہ مہربانی اسے خوش رکھئے ۔ آپ نے ایک باپ کا جذباتی خط اپنے داماد کے نام پڑھا اور دیکھا اب ذرا اس پر پوری عبارت میں معمولی ترمیم کر کے دیکھئے ’ بیٹی ‘‘ کی جگہ ’’ بیٹا ‘‘ لکھئے اور کرتی ہے کی جگہ کرتا ہے کیجئے’’ اسکی‘‘کے بدلے اسکا لگا کر دیکھئے اور بتائیے کہ یہ پوری تحریر کس طرح اچانک اتنی بے معنی اور مضحکہ خیز ہو گئی ہے ۔ کیا آپ کسی مرد کو ’ بوجھ ‘‘ تصور کر سکتے ہیں ۔ کسی لڑکے یا مرد کو ’’ شہزادہ ‘‘ قرار دے سکتے ہیں اور یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بے بس والدین کس طرح اپنے بیٹے کو لڑکی اور لڑکی والوں کے حوالے کر رہے ہیں اور سب کچھ محض تہذیب ،ثقافت اور فطری تقاضوں کے نام پر ہو رہا ہے ۔ کیا آپ اپنے بیٹے کو نازک کہہ سکتے ہیں اور لڑکی والوں سے گزارش کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کے بیٹے کو خوش رکھیں ۔ بلاشبہ بیٹی کے بارے میں باپ کی متذکرہ بالا باتیں کافی اچھی اور معنی خیز ہیں مگر کیا اس کو پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ایک گڑیا جیسی شہزادی ایک اچھے اور مہذب بنائے گئے غلام کے حوالے کی جا رہی ہے۔ مگر کیا یہ حقیقت ہے اور کیا ہم اب یہی باتیں اپنے بچوں کے ذہنوں میں داخل کرتے جا رہے ہیں ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں ہماری بیٹیوں کے ذہن میں اس خیال کی کاشت نہیں کرینگی کہ وہ اپنی سسرال میں بوجھ ہے یا شوہر کیلئے بوجھ ہے یا اسے بوجھ سمجھا جا سکتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان باتوں میں حقیقت ہو یا نہ ہو ہمارے ہندوستانی دوست احباب ،عزیز اقارب اور رشتہ دار لڑکے کے بارے میں باپ کے خیالات اور داماد سے کی گئی منت سماجت یا گزارش کو بلا تامل پسند کرنے لگیں کیونکہ ہمارے یہاں روایتی طور پر عورت صنف نازک ، کمزور اور بوجھ ہے جبکہ مرد طاقتور ، بہادر اور کمائو پوت سمجھا جاتا ہے ۔ میرے کچھ فرانسیسی دوستوں نے اسی موضوع پر 11منٹ کی ایک چھوٹی سی دستاویزی فلم مجھے بھیجی ہے جسکی ہدایتکاری ممتاز فرانسیسی اداکارہ اور اسکرپٹ رائٹر ایلیو نور چور باٹ نے کی ہے ۔ آپریسڈ مجا رٹی یا زبوں حال اکثریت ، نامی اس فلم کا دورانیہ 11منٹ ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اسکی مقبولیت وبائی شکل اختیار کر گئی اور صرف ایک ہفتے میں 20لاکھ افراد اس سائٹ کو وزٹ کر چکے ہیں ۔ 11منٹ دورانیہ کی اس فلم میں 11عورتیں جوگنگ کر رہی ہے جبکہ اسکا ساتھی مرد ایک نیکر میں ہے جسے اشتعال انگیز لباس پہننے پر جارحانہ مزاج کی جاہل لڑکیوں کا ایک گروپ ’’ زیادتی ‘‘ کا نشانہ بنانا چاہتا ہے اور مرد کی سٹی گم ہے ۔ ان میں ایک خاتون پولیس افسر موقع پر پہنچتی ہے اور صورتحال کیلئے لڑکیوں کے نرغے میں آنے والے مرد کی خاتون ساتھی ،بیوی کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس فلم کی کہانی کا اخلاقی جواز کیاہے ۔ یہ عام دن کی کہانی ہے کسی بچوں کے دن یا عورتوں کے دن کا واقعہ نہیں ۔ مگر کہنا اچھا ہو اگر ہم اپنے بچوں کو ان فرسودہ روایات کا پابند رکھنے کی کوشش نہ کریں ۔ حقیقی تبدیلی لانے کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں چاہئے کہ ہم خود اپنا انداز اور اپنا طور طریقہ بدلیں اور نوجوانوں کو بھی بدلنے دیں ۔

شیئر: