Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو۔۔۔۔

چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو۔۔۔۔ یہ امریکی بھی عجب قوم ہیں ، کوئی کام نہ تو آسان کرتے ہیں اور نہ ہی آس پڑوس کا آسرا کرتے ہیں، ہر کام اپنے بل بوتے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کام بھی وہ نئے سے نیاکہ دنیا دنگ رہ جائے۔ آپ لوگ بھی حیران ہو رہے ہو گے کہ یہ ہمیں بیٹھے بٹھائے امریکیوں کو موضوع گفتگو بنانے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔دراصل اس تمہید کی ضرورت اس لئے پڑ گئی کہ کل ہی بہت دِن بعد ہم نے چودھویں کا چاند دیکھا تو خیال آیا کہ چاند سے ہم مشرقیوں کا عشق بڑا پُرانا ہے۔ نور لُٹاتا اور حُسن برساتا چاند بچپن سے ہمارے حواسوں پر سوار ہو جاتا ہے بلکہ سوار کر دیا جاتا ہے۔ ہر حسین چہرے کو چاند سے تشبیہ دی جاتی ہے، ہر ماںاپنے بیٹے کو چاند کہہ کر بُلاتی ہے یہانتک کہ بیٹا ضعیف ہو جاتا ہے اور اس کے سر پر چاند نکل آتاہے تب بھی وہ یہی کہتی ہے کہ کون کہتا ہے کہ گنجا ہے میرا لال چاند کے سر پہ بھی دیکھے ہیں کبھی بال شاعر حضرات نے چاند اور چاند سے چہروں کی تعریف و توصیف میں دیوان کے دیوان لکھ ڈالے، امائیں بچوں کو بتاتی ہیں کہ یہ آسمان پر جو یہ جگمگ کرتا خوبصورتی اور حسن کا مرقع ہے دراصل یہ چندا ماما ہے جو آپ کے گھر کو منور کرنے آیا ہے یوں چاند چندا ماما بن کر ایک مہربان ہستی کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب بچے سارا بچپن گُزار کر شعور کی عمر کو پُہنچتے ہیں تو اور اک کے در کُھلتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات سمجھ میں آئی نہیں اورامی نے سمجھائی نہیں یہ چندا کیساما ما ہے؟ جب امی کا کوئی بھائی نہیں ویسے یہ بھی قرینِ قیاس ہے کہ ہو سکتا ہے وہ امی کا کزن بھا ئی ہو ایک زمانے میں چاند پر چرخہ کاتنے والی بُڑھیا کا تزکرہ بھی زبان زدِ عام تھا۔ یہ بُڑھیا اس قدر بُڑھیا (اعلیٰ) کوالٹی کا کپڑا تیار کرتی کہ زمین پر بھی دھوم مچ جاتی۔علاوہ ازیں چاند کی پریوں کے قصے بھی داستانوں میں ملتے ہیں۔اور نیٹ اور موبائل سے محرومی کے دور میں بچے یہ کہتے نظر آتے تھے کہ دادی اماں کہتی ہیں چاند پہ پریاں رہتی ہیں روز اُتر کر آتی ہیں ، اپنے پر پھیلاتی ہیں آج کی رات نہ سوئونگا، چاند کی پریاں دیکھونگا مگر اس دور کا بچہ بہت جلد سو جاتا تھا کیو نکہ پریاں تصوراتی تھیں، آج کی صورتحال بلکل مختلف ہے کیونکہ آج کا بچہ اپنے موبائل یا نیٹ پر پڑوسی ملک کی پریاںدیکھنے کے لئے واقعی پوری رات جاگتا اور نہ صرف صبح دوستوں کو بتاتا ہے کہ کونسی مووی ہیں کونسی پری موجود ہے بلکہ جب وہ مووی والدین یا گھر کے دیگر افراد دیکھتے ہیں تو بہت سے سین ’’غیر ضروری‘‘ کہہ کر نکال بھی دیتا ہے۔ پُرانی معاشرتی بلکہ ایکشن فلموں میں بھی چاند پر گانے فلمائے جاتے تھے اور ہیروئین دمہ کی مریضہ کی طرح لمبے لمبے سانس لے کر شرمانے کی ناکام ترین ایکٹنگ کرتے ہوئے منہ کے زاویئے بگاڑ بگاڑ کر گاتی نظر آتی تھی۔ چاند تکے چُھپ چُھپ کے اُونچی کھجور سے ملنے کو آئی تھی ،میں تو حضور سے ۔ دم بھر جو اُدھر منہ پھیرے او چندا ۔چاند نکلا ہے تیرے حُسن کی تصویر لئے ۔چاند نی راتیں سب جگ سوئے ہم جاگیں لو جی! بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم امریکیوں کی بات کر رہے تھے کہ انہوں نے چاند جیسے تصوراتی اور دیومالائی شہرت رکھنے والے سیارے کو بھی سر کر لیا اور وہاں سے آکر انکشاف کیا کہ چاند دراصل ایک بے آب و گیاہ زمین ہے، جہاں آکسیجن تک نہیں ہر طرف گڑھے ہی گڑھے ہیں جو ہر طرف پڑے ہیں ، نہ مکان نہ دکان، نہ راستے نہ گلیاں، نہ بُڑھیا نہ پریاں یہانتک کہ چاند کی روشنی تک اپنی نہیںہے وہ تک سورج کی مہربانی سے ملی ہے، غرض نہ آدم نہ آدم زاد جب سے ہم نے چاند کا احوال سُنا ہے ہم دُکھ میں مبتلا ہو گئے ایک تو اپنی تصوراتی دنیا کے بکھرنے پر ، دوسرے اس بات پر کہ امریکیوں نے ہمیں غیر سمجھا، کچھ تو اڑوس پڑوس کا خیال کرتے پڑوسیوں کے بڑے حقوق و فرائض ہوتے ہیں ہمیںخدمت کا موفع تو دیتے! بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ قمری راکٹ تیار کیا اور اس پر لاکھوں ڈالر خرچ کر دئیے تاکہ چاند پر جاسکیں۔ارے! صرف چند براعظموں کا ہی تو فاصلہ ہے، ہیں تو ہم امریکہ کے پڑوسی ، ذراسی ہی تو دوری ہے ۔ زیادہ دور تو نہیں امریکہ ۔۔ کیا ہم سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ’’ بھئی زرا چاند تک جانا ہے نکڑ سے رکشہ منگوادیں‘‘ کیا ہم منع کر دیتے بلکہ ہم تو کرایہ بھی طے کروادیتے ہمارے گھر کے پاس تو ویسے بھی رکشہ اسٹینڈ ہے اس رکشائوں کے اڈے پر لائن لگی ہے رکشائوں کی۔ دیکھ بھال کر کسی بھی مناسب رکشہ میں بیٹھ جاتے مہینوں کا سفر دنوں میں اور دنوں کا سفر گھنٹوں میں اور (اگر اوور ٹیکنگ ہو رہی ہو رکشاوں کے درمیاں تو) گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کر لیتے ہمارے رکشائوں کی خصوصیات تو دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں اور رکشہ ڈرائیورں کی مہارت کا یہ عالم ہے کہ غیر ملکی ائیر لائینز کے پائلٹوں کو تربیت دینے کے لئے منہ مانگے معاوضے پر ان کی خدمات حاصل کرنے کے لئے پاکستانی حکام کی خوشامدیں کی جا رہی ہیں اگر چاند پر جانے کے لئے امریکی رکشہ میں بیٹھ جاتے تو ایک تو ان کا وقت بچتا دوسرے انہیں روح پرور اشعار بھی پڑھنے کو ملتے پھر اوپر جاتے وقت دو چار اور سیاروں کو بھی دیکھ لیتے رکشہ میں سے جھانک کر ۔ مریخ سے خلائی پکوڑے پکڑ لیتے، زہرہ میں نئی شمسی لان کے پرنٹ دیکھ لیتے، عطارد سے گردشِ ایام کلینڈر مل جاتا، پلوٹو سے کہکشانی لاجواب لسی پی لیتے کُھلی کُھلی روشن سواری۔۔۔۔ ہائے!!! امریکیوں نے ہمیں خدمت کا موقع نہ دیا۔ خیر اب تو آنا جانا لگا ہی رہے گا۔ اگلی بار سہی مگر اب ہم کچھ اور سوچ رہے ہیں ہمارا خیال ہے کہ تمام دنیا میں منادی کرادی جائے کہ جس ملک کو بھی چاند کی سیر کا شوق ہے وہ پاکستان ضرور آئے صرف ایک بار آزما کر دیکھے۔ اگر چاند کے سفر کا یقین نہ ہو جائے تو ہماری زمہ داری۔ ہم سفر کے تمام اخراجات واپس کردیں گے اگر کسی کوپاکستان کی زمین اور چاند کی زمیں میں زرہ برابر فرق محسوس ہو جائے اسی لئے برسوں پہلے ایک شاعر نے صحیح کہا تھا کہ چاند میری زمیں، پھول میرا وطن یہی وجہ سے کہ اب پاکستان کی بیشتر آبادی چاند پر بسنے کے منصوبے بنا رہی ہے اسی لئے رکشائوں کے کرائے بڑھ گئے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ چاند کی زمین ان کے لئے زرا بھی اجنبی نہ ہو گی، وہی بے آب و گیاہ زمیں، بجلی و گیس سے محروم، سڑکوں سے نا آشنا، نہ تیل نہ پانی، گڑھے ہی گڑھے، بے وزنی کی کیفیت، قدم نہ زمین میں نہ آسمان میں بھلا کونسی چیز ہے جو نئی ہے بس چاند پر بدامنی اور کچرے کے ڈھیر نہیں ہیں تو یہ کمی ہم جا کر پوری کر دیں گے۔ کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟َ آخر ہماری بھی کوئی زمہ داری ہے؟؟ ہم من حیثیت القوم بڑے زمہ دار واقع ہوئے ہیں، ہم وہاں جاتے ہی بلدیہ کا محکمہ قائم کریں گے تاکہ کچرے کے ڈھیر اکٹھاہوں، پھر گیس کمپنی اور واٹر بورڈ کا محکمہ بنائیں گے تاکہ تمام زمین اور کچے راستوں کو مذید توڑ کر پائپ لائینیں بچھائی جائیں لڑائی جھگڑوں اور نقصَ امن کے لئے ہم وہاں سیاست کو فروغ دیں گے۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ جو بے شمار محکمے اور ادارے وہاں قائم ہونگے ان کے درمیان شدید اختلافات کے باعث بھی فضاء اپنی اپنی سی لگے گی۔ ایک ادارہ سڑکیں بنائے گا تو دوسرا اپنے کام کے لئے انہیں توڑے گا ، الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ہوگی تو بجلی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو گا ، واٹر بورڈ ہوا تو نلکوں سے صرف ہوا آئے گی وہ بھی آلودہ، پانی کی بوند تک نہیں ملے گی اور اگر ٹرانسپورٹ کا ادارو ہوا تو سکون اور صاف ہوا کا نام و نشان تک مٹ جائیگا صرف چاند کی اپنی کاربن ڈائی اوکسائڈ رہ جائے گی۔ اس طرح چاند کی حقیقی تصویر یا اصل حالت برقرار رہے گی، ہماری موجودگی سے اس قدیم سرزمین پر کوئی تغیر واقع نہیں ہو گا ہم اس کی اصل حالت برقرارہنے دیں گے اور خود بھی کوشیش کریں گے کہ یہ اس حد تک قدیم اور بدہیبت لگے کہ زمین کے باسی زمین کی تعریف میں گنگناتے پھریں گے کہ روپ سُہانا لگتا ہے چاند پُرانا لگتا ہے تیرے آگے او جانم۔۔ مسز زاہدہ قمر ۔ جدہ

شیئر: