Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جوتا :ہر شخص ضرورت کے تحت پہنتا ، کرتوت کے مطابق کھاتا ہے

 محمد امانت اللہ۔ جدہ 
شام کا وقت تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی ۔ میں اس وقت کا انتظار کر رہا تھا کہ بجلی کب جاتی ہے ؟اسی اثناءمیں در وازے کی گھنٹی بجی ،کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے صمدانی صاحب موجود ہیں۔ میں نے کہا کہ اس وقت تو آپکو ڈیوٹی پر ہونا چاہئے تھا۔ آخر آپ بجلی کے محکمے میں ملازمت کرتے ہیں ۔فرمانے لگے کہ بارش کا بجلی کے آنے جانے سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سب کچھ صرف ہمارے ملک میں ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں سارے کام ایک منظم منصوبے کے تحت ہوتے ہیں۔ 
اچھا تو اِسکا مطلب ہے کہ سب سیٹ ہے۔ فرمانے لگے سیٹ ہوں ۔ میں نے کہا یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ 110 وولٹ پر سیٹ ہیں یا 220وولٹ پر؟انہوں نے کہا کہ ” جی نہیں ! ترقی ہو گئی ہے، اس لئے 380 وولٹ پر سیٹ ہوں ۔ 
شکر ہے440 وولٹ پر سیٹ نہیں ،ورنہ جھٹکے مارتے ۔ویسے یہ 380 وولٹ کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہ ” سادہ لفظوں میںیوں سمجھ لیں کہ کارخانوں کو بجلی سپلائی کرتا ہوں ۔“ ابھی گفتگو جاری تھی کے ہمارے پڑوسی آغا صاحب تشریف لے آئے۔فرمانے لگے کہ کون کس پر بجلی گرا رہا ہے؟ 
جان بچا نے کے لئے یوں کہنا پڑتا ہے کہ سمجھ لو تم میرے لئے ایسے ہی ضروری ہو جیسے پاکستانیوں کے لئے بجلی۔میں نے کہا آغا جی! یہ بجلی گراتے نہیں بلکہ بجلی بناتے ہیں وہ بھی380 وولٹ ۔ اچھا کارخانوں والی بجلی ۔ میں آپکو سمجھاتا ہوں۔ کارخانے وہ مقامات ہیں جہاں ہماری ضرورت اور استعمال کی اشیاءبنتی ہیں اور ان اشیاءکو بیچنے کے لئے ٹی وی پر اشتہارات چلائے جاتے ہیں۔ 
جناب یاد رکھیں! اشتہارات میں چھپے پیغامات اور منطق بھی ہوتی ہے جو ہر کسی کی سمجھ میں آسانی سے نہیں آتی۔جناب ہم نے سنا ہے آپ جیسے کچھ حضرات کوخیال آیا ہے کہ اشتہارات میں خواتین کو نہیں ہونا چاہئے ۔ یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ جہاں صرف بچے کو دکھانا چاہئے وہاں اشتہار میں اس کی ماں کو بھی دکھایاجاتا ہے۔ کتنے ہی اشتہار ایسے ہیں جن میں ایسی اشیاءپیش کی جاتی ہیں جو خواتین استعمال نہیں کرتیں مگر ان میں بھی خواتین کو دکھایاجاتا ہے۔
اس بات پر بھی توجہ فرمائیے کہ مرد کی فطرت میں محنت، مزدوری ، صبر اور شکرپایاجاتا ہے ۔ یہ اس کے خمیر میں ہے ۔ اُس کو نرم و ملائم گدوں یا بستروں کی بھی کوئی ضرورت نہیں وہ چونکہ مشقت کر کے تھک ہار کر گھر لوٹتا ہے اور تکان کے باعث اسے پرسکون نیند آتی ہے۔ اس نیند کے لئے اسے نرم بستر کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو بے چارہ اتنا تھکا ماندہ ہوتا ہے کہ اسے کانٹوں کے بستر پر بھی نیند آ جاتی ہے ۔ اسی لئے وہ زمین پر چادر بچھا کر، چٹائی یا دری بچھا کر بخوشی سو جاتا ہے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو فرش پر ہی محوِ خواب ہو جاتا ہے۔ رہی خاتون تو وہ بلا شبہ نازک صنف ہے، اس کے لئے زمین پر سونا ذرا مشکل ہوسکتا ہے مگر ہمارے ہاں گا¶ں دیہات کی خواتین کی بات الگ ہے کیونکہ وہ شہر کے مردوں کی طرح مشقت کی عادی ہوتی ہیں۔
صابن اور شیمپو کے اشتہارات بھی خواتین کے بغیر دکھائے جا سکتے ہیں بالوں کے لئے شیمپو اور ہاتھ منہ دھونے اور غسل کے لئے صابن ظاہپر سی بات ہے، مرد بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں کیا ضروری ہے کہ خاتون کی زبانی شیمپو اور صابن کی تعریفوں کے پل بندھوائے جائیں؟ویسے یہ بات درست ہے کہ مرد کا مزاج نرم ہو یا نہ ہو، شیمپو کے استعمال سے اُنکے بالوں میں نرمی ضرور آجاتی ہے۔ 
شیمپو کا اثر بالوں پر ہوتا ہے اِسی لئے لہراتے ہوئے بال دکھائے جاتے ہیں ۔ کچھ عرصے قبل تک مردوں کے بال کسی طور لہرانے کے قابل نہیں ہوتے تھے مگر آج کل صورتحال ذرا مختلف ہو چکی ہے کیونکہ اب تو مردوں نے بھی زلفیں بڑھانا شروع کر دی ہیں۔ وہ بھی کلپ ، ہیئر بینڈز اور ربن وغیرہ باندھتے ہیں بلکہ بعض مردوں کی زلفیں تو ایسی ریشمی ، گھنی اور طویل ہوتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر خواتین حسد میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ اس فیشن کے باعث بعض زمینی حقیقت میں زبردست تغیر آ چکا ہے ، وہ یوں کہ آج کے دور میں اگرزنانہ جثے والا مرددراز زلفیں رکھ لے تو اس پر عورت ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے ، اسی طرح کسی مردانہ جثے کی حامل خاتون دکھائی دے جائے تو اس پر مرد ہونے کا گمان گزرتا ہے ۔ہمارے یہ دلائل سن کرآغا جی نے فرمایا کہ چلیں، آپکی اس بات سے میں اتفاق کر لیتا ہوں ۔ 
جناب پرفیوم کا استعمال مرد اورخواتین دونوں کرتے ہیں اس لئے خوشبویات کے اشتہارات میں مرد و خواتین دونوں نظر آتے ہیں۔اسی طرح موٹر سائیکل کے اشتہار میں عورت کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ میاں بیوی کسی ایک گاڑی کے ہی نہیں بلکہ موٹر سائیکل کے بھی دوپہیے ہو سکتے ہیں۔اگر موٹر سائیکل پر سواریاں مٹاپے کا شکار بھی ہوں تو ایسے اشتہارات کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا جاتا ہے کہ یہ موٹر سائیکل کافی وزن اُٹھا سکتی ہے۔
جوتے اورچپلوں کے اشتہار میںبھی مرد ، عورت اور بچوں کا ہونا ضروری ہے۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہر انسان کے لئے جوتے دو طرح کام آتے ہیں ،جوتا پہنابھی جاتا ہے اور کھایا بھی جاتا ہے۔مائیں اپنے بچوں کو زمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی جوتے پہننے کا عادی بنا دیتی ہیں۔ اس کے بعدانسان کو جوتے کب، کیوں، کیسے اور کس کے ہاتھ سے کھانے پڑیں گے، یہ اس انسان کے کرتوت پر منحصر ہوتا ہے۔ جوتوں سے خواہ کوئی کتنا ہی بچے مگر اسے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پرکم یا زیادہ، جوتے ضرور کھانے پڑتے ہیں ۔ 
جناب رنگ گورا کرنے والی کریم کے اشتہار کے بارے میں آپ نے سوال نہیں کیا ۔اچھا یاد دلایا ،آغاجی کچھ ارشاد فرمائیے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ رنگ گورا کرنے کا حق صرف عورتوں کو ہے کیونکہ مردوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنی بیوی کی ”چٹی چمڑی“ پسند آتی ہے ۔ دوسرے معنوں میں شوہر اپنی بیوی کی گوری رنگت پرفریفتہ ہوتے ہیں اور بیویاںشوہر کی جیب پر ۔ 
آغاجی کچھ اشتہارات انسان کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ مجرموں کو پکڑنے میں مدد دیتے ہیں۔بات پُرانی ہے مگر حقیقت پر مبنی ہے۔ میں ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازم تھا۔ روزانہ شام کو مزدوروں کو اُنکی مزدوری کی رقم ادا کرتا تھا۔ میں نے ہدایت جاری کر رکھی تھی کہ تمام مزدور شام کو آنے سے قبل ہاتھ اور منہ دھو کر آیا کریں ۔ ہوا یوں کہ حمام میں رکھا صابن چوری ہوگیا۔ ہم نے دوسرا صابن رکھوا دیا مگر پھر یوں ہوا کہ صابن کا سرقہ معمول بن گیا روزانہ ہی کوئی شخص صابن چرا لے جاتا ۔ جب اس سلسلے کو ایک ہفتہ گزر گیا تو ہم نے چور پکڑنے کے لئے خاص حکمت عملی وضع کی ۔ ہم نے کاسٹک ملا صابن لیا اور حمام میں رکھ دیا۔ دوسرے ہی دن چور خود چلتا ہوا میرے پاس آیا اور ہاتھ جوڑنے لگا کہ مجھے معاف کردیں ،میں آئندہ چوری نہیں کروں گا۔جب میں نے اُسکے چہرے کی طرف دیکھا تو آدھی مونچھیں اور بھوں کاسٹک کے باعث یوں صاف ہو گئی تھیں جیسے کسی نے کاٹ دی ہوں ۔
آغاجی موبائل فون کے اشتہارات میں عورتوں کا کیا کام ہے؟، جناب آپ بڑے معصوم ہیں۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ زیادہ تر مرد حضرات موبائل فون پراپنی خواتین یعنی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، سیکریٹری ، لیڈی ڈاکٹر ، نرس اور ماسی وغیرہ سے ہی بات کرتے ہیں ۔اب آپ ہی کہئے کہ جب موبائل فون کے صارفین میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے توموبائل فون کے اشتہار میں وہ موجود کیوں نہ ہوں، ان پر پابندی کا بھلا کیا جوازہو سکتا ہے؟
ویسے آغا جی! اشتہارات کا فائدہ کیا ہوتا ہے؟جناب یاد رکھیں اشتہارات میں پیسہ لگائیں گے تو چیزیں بکیں گی۔ یوں اشتہارات در حقیقت سرمایہ کاری ہے،خرچہ نہیں۔ خرچہ توہم عوام کرتے ہیں جواشتہاری باتوں میں آجاتے ہیں اور گاہے انہی اشتہارات سے متاثر ہو کر نئی پیکنگ میں پرانی اشیاءخرید لاتے ہیں تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ بعض اشتہارات معاشرے پر منفی اور بعض مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک واشنگ پوڈر والے یہ پیغام دیتے ہیں کہ ”داغ تواچھے ہوتے ہیں“ حالانکہ ہم تو دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد سے یہی سنتے چلے آئے تھے کہ فلاں کا دامن ”داغدار“ ہے، فلاں نے اپنے خاندان کے نام پر داغ لگا دیامگر ہماری نئی پود کہتی ہے کہ ”داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔
جناب جب مرد حضرات کھانا پکانے کا پروگرام کرسکتے ہیں اور عورتیں مارننگ شوز کر سکتی ہیں، وضع وضع کے ڈراموں میں عورتیں دکھائی دیتی ہیں توبھلا آپ کو محض اشتہارات پر ہی اعتراض کیوں ہے۔ جب سب کچھ چل سکتا ہے تو اشتہارات بھی چلنے دیں، کچھ لوگوں کا روزگار لگاہے، لگا رہنے دیں۔
ہم نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم ہر کسی کو ا یسی روزگارسے محفوظ فرمائے، آمین۔
 

شیئر: