Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیم انڈیا پ پر’’گھر میں شیر باہر ڈھیر‘‘کا داغ دھونے کا فیصلہ

کولکتہ ٹیسٹ میچ جیت کر ہندوستان نے جہاںایک طرف 2-0کی سبقت حاصل کر کے نیوزی لینڈ کے خلاف تین میچوں کی سیریز ختم ہونے سے پہلے ہی جیت لی وہیں اس نے ایک بار پھر عالمی ٹیسٹ کرکٹ درجہ بندی میں نمبر ایک ٹیم ہونے کا بھی اعزاز واپس حاصل کر لیا۔ آسٹریلیا کے خلاف سریز ہارنے کے بعد یہ ہندوستان کی پانچویں سیریز ہے جو وہ نہیں ہارا۔ بنگلہ دیش کے خلاف واحد ٹیسٹ میچ ڈرا رہا تھا جس کے باعث ایک میچ کی وہ سیریز برابر رہی تھی لیکن اس کے بعد وراٹ کوہلی کی قیادت میں ہندوستان نے اپنی اور غیرملکی سرزمین پر یکے بعد دیگرے سری لنکا، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کو سر کرتے ہوئے اپنی سرزمین پر نیوزی لینڈ کے خلاف کلین سوئپ کے امکانات بھی روشن کر لئے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وراٹ کوہلی کی قیادت میں ہندوستان نے سیریز در سیریز جیتنے کا سلسلہ ایسا ہی شروع کیا ہے جیسا محمد اظہر الدین اور مہندر سنگھ دھونی نے گھریلو میدان پر یکے بعد دیگرے سیریز جیت کر کیا تھالیکن بس فرق یہ ہے کہ جس وقت محمد اظہر الدین اور مہندر سنگھ دھونی کو قیادت کا بار سونپا گیا تھا تو اس وقت دونوں کو تجربہ کار اور بہترین کھلاڑی کی کھیپ ملی تھی۔محمد اظہر الدین کو اگر دلیپ وینگسرکر، روی شاستری، سری کانت، نوجوت سنگھ سدھو، سنجے منجریکراور کپل دیو دستیاب تھے تو دھونی کو سچن ٹنڈولکر، راہول دراوڑ ،گوتم گمبھیر، وریندر سہواگ، وی وی ایس لکشمن، یوراج سنگھ، ہربھجن سنگھ اور ظہیر خان جیسے معروف اور تجربہ کار کھلاڑی دستیاب تھے۔ ان دونوں نے ان تجربے کار اور پھر اسی دور میں ابھر کر اسٹارکا درجہ پانے والے کھلاڑیوں کا ساتھ ملنے سے ہندوستان کو کرکٹ کی نئی بلندیوں پر پہنچایا لیکن جب وراٹ کوہلی نے ٹیم کی باگ ڈور سنبھالی تو انہیں جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، انگلستان اور آسٹریلیا سے لٹ پٹ کر آنے والی ٹیم انڈیا کے وہ کھلاڑی ملے جنہیں آخری بار کسی سیریز جیت کا مزہ چکھے 3سال بیت چکے تھے اور اس دوران ٹیم انڈیا نے کئی سیریزیں کھیل لی تھیں۔ جب حال ہی میں ٹیم انڈیا نے سری لنکا کے بعد گھریلومیدان پر جنوبی افریقہ کو اور پھر سرزمین غرب الہند پر ویسٹ انڈیز کو سیریز بعد سیریز ہرائی تو ٹیم انڈیا کے کھلاڑیوں کا اعتماد بحال ہوا لیکن انفرادی طور پر پھر بھی کچھ کھلاڑیوں خاص طور پر شیکھر دھون، روہت شرما اور خود کپتان وراٹ کوہلی معیار پر ابھی تک پورے نہیں اتر سکے ہیں۔ جہاں تک سنچری بنانے کا تعلق ہے توشاید یہ پہلا موقع ہے کہ ٹیم انڈیا گھریلو سیریز کھیل رہی ہو اور دو ٹیسٹ میچ میں چاراننگزکھیلنے کے باوجود کسی ہندوستانی بلے باز نے سنچری نہ بنائی ہو۔یہ بات دیگر ہے کہ گھریلو میدان پر اس نے اپنی بادشاہت کو ضرور برقرار رکھا ہوا ہے۔سیریز کے دونوں میچوں میں کانپور اور کولکتہ میں اپنا دبدبہ بنائے رکھنے میں کامیاب رہنے والی ٹیم انڈیا کی طرف سے 11ہاف سنچریاں تو بنائی گئیں لیکن کوئی کھلاڑی ابھی تک سنچری نہیں بنا سکا ۔اس کے برعکس اس بار فاسٹ اور اسپن دونوں قسم کی بولنگ کرنے والے بولروں نے اننگز میں پانچ یا ا س سے زائد اور میچ میں دس یا اس سے زائد وکٹ لینے کااعزاز ضرور حاصل کر لیا۔ بھونیشورکمار، آر اشون او ر رویندر جڈیجہ نے ایک ایک بار اننگز میں پانچ یا اس سے زائد اور اشون نے ایک میچ میں ایک بار دس یا اس سے زائد وکٹ لینے کا کارنامہ انجام دیا جبکہ بلے بازوں میں چتیشور پجارا نے تین ، وردھمان ساہا ، روہت شرما اور مرلی وجے نے دو دو اور رویندر جڈیجہ نے ایک ہاف سنچری بنائی۔ روہت شرما 82، پجارا87اور مرلی وجے 76رنز کی اننگز کو سنچری اننگز میں نہ بدل سکے۔ جس کے باعث ٹیم انڈیا گھریلو پچوں پر جتنا اسکور بناتی رہی ہے اس مجموعے سے میلوں دور رکتی رہی۔ وہ تو بھلا ہو نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کی اسپن بولنگ کے خلاف کمزوری اور ہندوستانی پچوں پر کھیلنے کی ناتجربہ کاری کا کہ وہ ٹیم انڈیا کو معمولی اسکور بھی پار کر کے پہلی اننگز میں سبقت نہ لے سکے اور نہ ہی ہدف کا کامیاب تعاقب کر سکے۔ اگر کہیں نیوزی لینڈ کے برینڈن میک کولم، رائیڈر اور فرینکلن ریٹائر نہ ہوئے ہوتے اور کپتان ولیمسن زخمی ہو کر کولکتہ ٹیسٹ کی ٹیم سے باہر نہ ہوجاتے یا نیوزی لینڈ کے فاسٹ و اسپن بولرز تجربہ کار ہوتے تو ٹیم انڈیا کے بلے باز وں کو ناتجربہ کار بولروں کے خلاف رنز بنانے میں جو دقت محسوس ہو رہی تھی تو ان کے خلاف ان کا جو حشر ہوتا تو اس سے سیریز نہ معلوم کیا رخ اختیار کر چکی ہوتی لیکن نہ ایسا ہوا اور نہ ویسا ہوا ۔ ٹیم انڈیا اپنی خامیوں کی پردہ پوشی کرگئی تاہم اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وراٹ کوہلی نے فاسٹ بولروں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ جب تک ٹیم کے قائد ہیں فاسٹ بولنگ کو ہی ترجیح دینا پسند کریں گے تاکہ آئندہ کئی کرکٹ سیریزیں گھریلو میدان پر ہی کھیلی جانی ہیں اور وراٹ کوہلی نہیں چاہتے کہ صرف اسپنروں کے بل پر وہ یکے بعد دیگرے سیریز جیت کر ایک طویل عرصہ تک آئی سی سی کی عالمی ٹیسٹ کرکٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر قابض رہیں اور محض اس پوزیشن کے حصول کے لئے فاسٹ بولنگ کے شعبہ کو اس قدر کمزور کردیں کہ جب بیرون ملک خاص طور پر آسٹریلیا، انگلستان، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ جا کر کرکٹ سیریز کھیلیں تو کمزور بولنگ اٹیک کے باعث ان کا بھی وہی حشر ہو جو ان کے پیشروؤں کا ہوتا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہوم سیریز میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ اس رواں سیریز میں کھیلے گئے دو ٹیسٹ میچوں میں جو 39وکٹ ہندوستانی بولروں کو ملے ہیں ان میں 15وکٹ فاسٹ بولروں کو ملے جو کہ ہندوستانی پچوں پر ہندوستانی فاسٹ بولروں کے کسی بڑے کارنامے سے کم واقعہ نہیں ہے۔ا س سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہندوستانی کرکٹ بورڈ میں سوربھ گنگولی، سچن ٹنڈ ولکر، وی وی ایس لکشمن، کپل دیو انل کمبلے اور راہل دراوڑ جیسے اپنے دور کے معروف کھلاڑیوں کے عمل دخل سے ہندوستان بھر میں اسپورٹنگ پچیں تیار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تاکہ ٹیم انڈیا پر جو یہ داغ لگتا رہا ہے کہ وہ ’’گھر میں شیر باہر ڈھیر‘‘ کی کیفیت سے دوچار رہتی ہے’’ گھر باہر شیر‘‘ ہی بنی رہے یا اگر شیر نہ بھی بنے تو غیر ملکی سرزمین پر میزبان ٹیم کا نرم چارہ بھی بن سکے اور شکست قبول کرنے سے ابو خان کی بکری جیسا نام کما لے۔

شیئر: