Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج ہمارے معاشرے میں قربانی کم دولت کی نمائش زیادہ ہے

عنبرین فیض احمد ۔ ریاض
    چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں عید قربان میں یعنی اللہ کی راہ میں جانوروں کی قربانی کی اور ہم سبھوں کی خوب اچھی طرح علم ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو اس وقت طبقاتی نظام ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے کہ امیر امیر تر ہے اور غریب غریب تر ہورہا ہے۔ یہ وہ عوامل ہےں جن سے ہر باشعور انسان آگاہ ہے جو صاحب ثروت ہیں وہ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کو مقدم قرار دیتے ہوئے گرانی اور مہنگائی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور مہنگے سے مہنگا جانور خرید کر بنگلوں میں کھڑا کردیتے ہیں۔
    حقیقت تو یہ ہے کہ عید قربان کا مطلب اللہ کی راہ میںجانور قربان کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں تو دولت کی نمائش نظر آتی ہے۔ قربانی کا فلسفہ بھی ہمارے ایمان کاجرو ہی قرار دیا جاتا ہے لیکن یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے کا جانور خرید کر لوگوں میں اپنے دولت مند ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ جوں جوں مہنگائی کا گراف بڑھتا جارہا ہے معاشرے میں دکھاوے اور خود نمائی کا گراف بھی ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ غربت اور بدحالی ہی سمجھ آتی ہے۔
    ایک وہ دور بھی تھا جب لوگ سال بھر پہلے سے جانور کی اپنے گھروں میں پرورش کیا کرتے ار پھر اس کو اللہ کی راہ میں قربان کردیا کرتے تھے مگر اب ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ہماری میڈیا اتنی طاقت ور ہوچکی ہے کہ ہر بات میں وہ اپنی طاقت اور وقت کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ قربانی جیسی سنت کو بھی کمرشل ازم یا خودنمائی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ جب لوگ گھروں میں جانوروں کی پرورش کرتے تو بڑے ہی محبت وپیار کے ساتھ اس کی پرورش کی جاتی تھی بالکل اپنے اولادوں کی طرح پیار کرتے جب وہ اللہ کی راہ میں قربان کرتے تو ان کی محبت بھی قابل دید ہوتی لیکن اب کے دور میں ایسا کچھ نہیں ہوتا اب مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے حسن کرائے جاتے اور جانوروں کی بولیاں لگوائی جاتیں ہیں اور جو سب سے زیادہ بولی لگاتا ہے وہ ہی سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار مسلمان قرار پاتا ہے۔ جس کی بولی سب سے زیادہ ہوتی ہے اس کی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس شخص کی تصویر شائع کی جاتی ہیں اس کے جانور کے ساتھ تاکہ لوگوں کو علم ہوسکے کہ اس شخص نے اس عید قربان پر لاکھوں کے جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کیا ہے۔
    سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہرفرد اس مہنگائی سے پریشان نظر آرہا ہے۔ مہنگائی ہے کہ عروج پر پہنچ چکی ہے کہ اور زیادہ تر لوگوں کے لئے جانور خریدنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ ان جانوروں کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ آج کے دور میں قربانی بھی ایک مقابلہ اور خودنمائی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ عید قربان جو صرف اور صرف جذبہ¿ قربانی اور تقویٰ کے ساتھ جڑی نظر آتی تھی لیکن اب اس کو بھی نئے جھمیلوں میں الجھا کر رکھ دیا ہے ۔ عید قربان جس کو بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا تھا مگر افسوس اب ایسا نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں میں گنجائش بھی کم ہوتی جارہی ہے اور ہمارے سوچنے کے انداز بھی محدود ہوتے جارہے ہیں۔ اب ہماری سوچ میں دکھاوے کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے اگر محلے میں کسی کے گھر اونٹ کی قربانی ہوتی ہے تو اس گھر کا بچہ بچہ سارے محلے میں اتراتا پھرتا ہے کہ ہمارے گھر میں اونٹ کی قربانی کی گئی ہے۔
    دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگوں میں بقر عید سے چند دن پہلے نئے ڈیپ فریزر لائے جاتے ہیں تاکہ قربانی کا گوشت مہینوں اس کے اندر اسٹور کرکے رکھا جاسکے حالانکہ ہم یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے ہوتے ہیں ۔ ایک حصہ غربا ومساکین، ایک حصہ رشتہ داروں اور ایک اپنا حصہ ہوتا ہے لیکن افسوس کے اب تو دور ہی کچھ ایسا آچکا ہے کہ لوگوں کو کسی کا کوئی خیال نہیں جو نہایت ہی دکھ کی بات ہے۔
    دیکھا جائے تو بقر عید عیدالاضحی ہمارا مذہبی تہوار ہے اور اس کو پورے جذبہ¿ ایمانی اور خلوص کے ساتھ منانا چاہیے تو کیا ہی اچھا ہو لیکن ہمیں تو صرف اپنی خودنمائی سے ہی فرصت نہیں ۔ اللہ کریم ہمارے دلوں کا حال خوب جانتا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ جس ملک میں اکثریت غربت کی لیکر سے بھی نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ننھے ننھے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں بڑے روٹی کو ترس رہے ہیں اور ان کو صاف پانی تک میسر نہیں جو مکھی اور مچھر کی طرح مرجاتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا بھی نہیں ان کو بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کیونکہ ان کا بھی خوشیوں پر حق ہے اور وہ بھی خدا کی مخلوق ہیں اور ان کو بھی جینے کا حق ہے۔
    عید قرباں اس تہوار کا نام ہے جو سنت ابراہیمی کے طور پر ان کی عظیم قربانی اور جذبہ فرماں برداری کی پیروی کرتے ہوئے واجب قرارپائی۔ نمود و نمائش یا پھر سجھے سجائے جانوروں یا پھر شائقین کی تفریح کے غرض سے کی جانے والی قربانی ، قربانی نہیں ہوتی وہ صرف ایک دکھاوا بن کر رہ جاتی ہے جو خدا کے نزدیک سخت ناپسندیدہ فعل ہے ۔

شیئر: