Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسراف سے نعمتیں چھن جاتی ہیں

نثاراحمد حصیر القاسمی ۔ حیدرآباددکن

فضول خرچی ہمیں دعوت فکر دیتی اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آج بر صغیر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں لوگ کس کسمپرسی میں زندگی بسر کررہے ہیں ہمارے کروڑوں مسلم باشندے عورت ومرد ، بوڑھے ، بچے کیمپوں میں رفیوجی کی زندگی بسر کررہے ہیں، ہمارے بھائی کھلے آسمانوں کے نیچے سخت ٹھنڈک وگرمی کے عالم میں شب وروز گزار رہے اور کروڑوں مسلمان بر صغیر میں بھی اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی نان شبینہ کے محتاج اور دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔اس صورتحال کے باوجود ہمارے اندر دکھاوے کا یہ عالم ہے کہ لاکھوں لاکھ یوں ہی پھینک رہے ہیں، جیسے ان کے پاس دولت کا انبار لگا ہو اور یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسے کہاں خرچ کیا جائے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنے انجام ِ کار کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سے اس کے بارے میں پوچھ ہوگی ہی نہیں، حالانکہ اللہ کے نبی نے فرمایا ہے: ’’قیامت کے دن حساب وکتاب کے وقت بندے کا قدم اُس وقت تک اپنی جگہ سے نہیںہٹے گا جب تک اس سے4 چیزوں کے بارے میں باز پرس نہ کرلیا جائے ، اور اس میں سے ایک مال ہے کہ کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا۔ ‘‘ اسی طرح کی فضول خرچی ، اسراف اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری کھانے پینے کی چیزوں میں ہے۔بہت سے مقامات پر لوگ بھوکوں مررہے ہیں، انہیں پیٹ بجھانے کیلئے کچھ میسر نہیں، خود اپنے شہر اور اپنے صوبہ کے مختلف علاقوں میں لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کررہے ہیں، اور دانے دانے کو ترس رہے ہیںاور ہمارے یہاں ہر روز ، دعوتوں اور بغیر دعوتوں کے بھی اشیائے خرد ونوش کی بڑی مقدار کچروں میں ڈالی جارہی ہیں۔20,10 آدمیوں کیلئے پچاسوں کے بقدر کھانا تیار کیا جاتا اور جو بچ جاتا اسے کسی غریب کو دینے کے بجائے کچروں میں پھینک دیا جاتاہے۔ہمار ااس طرح کا طرز عمل اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری غضب الٰہی کو دعوت دیتی اور نعمت کے چھن جانے کا سبب بنتی ہے۔ کچروں میں پھینکے ہوئے لذیذ کھانوں پر جب نظر پڑتی ہے تواللہ کے خوف سے جسم لرز اٹھتا اور دعاء نکلتی ہے:اے اللہ ہمارے بے وقوفوں واحمقوں کی حرکتوں پر ہماری گرفت نہ فرما۔ ہمارے علماء وداعیانِ دین اور سماجی خدمت گاروں کو چاہیے کہ وہ جس طرح جہیز اور دوسری لعنتوں اور منفی چیزوں کیخلاف شعور بیداری مہم سر انجام دیتے ہیں اسراف کیخلاف بھی شعور بیدار کریں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکیں اور نعمتوں کے چھن جانے کے عذاب میں مبتلا نہ ہوں۔ ’’اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔ ‘‘( ابراھیم7)۔ ہم اپنے سماج میں جو اس طرح کی باتیں پا رہے ہیں ‘یہ ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتی اور جھنجھوڑتی ہیں کہ ہم مسلمانوں کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کریں ، انہیں اللہ کی ناراضگی اور غضب والی باتوں وحرکتوں سے آگاہ کریں ۔آج ہمارے اخلاق میں گراوٹ ہے، ہمارے نوجوان بے راہ روی کے شکار اور مغرب ومغربی تہذیب کے پیچھے آنکھ بند کرکے بھاگ رہے ہیں۔ ان کے اندر سے اونچے اقدار اور اسلامی اخلاق واطوار ناپید ہوتے جارہے ہیں، بداعمالیاں ان کا شیوہ بنتا جارہا ہے، اور ہر چہار جانب بد دینی وبداعمالی کا دور دورہ ہے اور اس صورتحال میں ہمارے ہوش مندوں کا یہ طرز عمل اور اس طرح کی فضول خرچی ونعمت کی ناقدری خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے ہم پر بلائیں ومصیبتیں اور آسمانی وزمینی آفتیں آنی شروع ہوجائیں، ہمیں اس سے بچنا چاہیے، دوسروں کو بچانا چاہیے اور جو کررہے ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کے ساتھ یہ دعاء بھی کرنی چاہیے کہ ہمارے احمقوں کے کرتوتوں کی وجہ سے اے اللہ! تو ہماری گرفت نہ فرما۔ مسلم رہنمائوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں میں شعور پیدا کرنے کی سعی کریں اور مسلمانوں میں پائے جانے والے منفی پہلوئوں سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے اس کے انجام ِبد پر متنبہ کریں۔ ہمیں تاریخ اور پہلوں کے احوال سے عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ہمیں دیکھنا چاہیے کہ بہت سے مسلم ملک پہلے کیسے تھے اور اب کیسے ہوگئے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ صومالیہ نہایت مالدار ملک تھا، اور مغرب کی نظر لگنے سے پہلے یہاں کے باشندوں کے پاس دولت کی ریل پیل تھی۔یہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ محض کلیجی کھانے کیلئے مینڈھے اور بکرے ذبح کرتے اور کلیجی نکال کر اسے استعمال کرتے باقی پورا کوڑے دان میں پھینک دیا کرتے تھے۔ کسی کی خواہش ہوتی گردہ یا کوئی خاص عضو کھانے کی تو اس کیلئے بکرا ذبح کیا جاتا اور وہ عضو نکال کر اس کیلئے تیار کیا جاتا اور پورا بکرا پھینک دیا جاتا تھا، اور آج وہ کئی دہائی سے بھوک مری کے شکار ہیں، دانے دانے کیلئے تر س رہے ہیںاور دنیا کے انتہائی غریب ونادار ملک میں اس کا شمار ہوتاہے۔ عراق والے صدام اور اس سے پہلے کے زمانہ میں کہتے تھے کہ جب تک ہمارے پاس کھجور اور پٹرول ہے ہم غربت کا تصور نہیں کرسکتے مگر آج وہی عراق، ایران وامریکہ کی نظر لگ جانے کے بعد پٹرول وکھجور رہتے ہوئے بھی فقر وافلاس میں مبتلا اور دانے دانے کو ترس رہے ہیں، ان کے پاس سامانِ ضروریہ تک نہیں۔ لبنان والے نعمتوں میں پلتے اور عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتے تھے مگر آج انہیں رمق باقی رکھنے والی اشیاء کی ضرورت ہے، بھوک وپیاس مٹانے کیلئے ان کے پاس اشیائے خرد ونوش نہیں۔ افغانستان ، دمشق، کشمیر طرح طرح کے میوئوں اور پھلوں کا ملک تھا جو دنیا کے کونے کونے میں سپلائی کئے جاتے تھے اور یہاں کے باشندے خوشحال ومالدار تھے مگر جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری وناقدری کی تو آج جنگ وجدال ، خشک سالی ‘ قحط اور فقر وافلاس میں مبتلا ہیں،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ٭اور جب ہم کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہوکر رہ جاتی ہے، پھر ہم انہیں تباہ وبرباد کردیتے ہیں (الاسراء 16)۔ ٭اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال فرماتا ہے، جو پورے امن واطمینان سے تھی، اس کی روزی اس کے پاس ہر جگہ سے چلی آرہی تھی، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا(النحل112)۔ (مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)

شیئر: