Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برائی کا بدلہ مساوی ، نیکی کا اجر 700گنا

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی ۔ ریاض

سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھیں اور پھر ان کی وضاحت فرمائی کہ جو آدمی کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے مگر اس کو کرنہیں پاتا، اللہ تعالیٰ اس کی ایک کامل نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر ارادہ کرکے اس کو کر گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ 10 نیکیوں سے لے کر7 سو گنا تک بلکہ اس سے بھی کئی زیادہ نیکیاں لکھ دیتا ہے، اگر وہ برائی کا ارادہ کرتا ہے مگر اس کو کرتا نہیں (اللہ کے خوف سے) تو اللہ تعالیٰ اس کی بھی ایک کامل نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر وہ ارادہ کرکے اس کو کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک برائی لکھ دیتا ہے۔ ( بخاری ومسلم) محسن انسانیت کے فرمان کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نیک عمل کا ارادہ کرنے پر بھی ایک نیکی ہے اور گناہ کا ارادہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس گناہ سے بچنے پر بھی ایک نیکی ملتی ہے۔ ایک گناہ کرنے پر صرف ایک برائی تحریر کی جاتی ہے لیکن ایک نیک عمل کی ادائیگی پر10 گنا سے 7سو گنا تک بلکہ خلوص وللٰہیت کے جذبہ سے سرشار ہوکر اس سے بھی زیادہ بندہ اجر وثواب کا مستحق بن سکتا ہے۔ انسان کے اعمال کی اقسام ہیں: پہلی قسم وہ ہے جو انسان کے صرف دل میں آئے۔ ظاہر ہے کہ انسان اس پر قابو رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لہٰذا اس پر کوئی اجروثواب یا عذاب نہیں، یعنی اگر کسی شخص کے صرف دل میں کسی اچھے یا برے کام کے کرنے کی بات آئی لیکن کوئی ارادہ نہیں ہوا تو اس پر نہ کوئی اجروثواب ہے اور نہ ہی کوئی پکڑ۔ دوسری یہ کہ اگر نیک کام کرنے کی بات دل میں آئی اور اس کا ارادہ بھی ہوگیا تو وہی حدیث میں مذکور ہے کہ کسی شخص نے نیک کام کے کرنے کا ارادہ کیا مگر اس پر عمل نہیں کرسکا تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک نیکی کا ثواب عطا فرمائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے ارادہ کیا کہ وہ صدقہ کرے گا مگر پھر وہ صدقہ نہیں کرسکا تو وہ شخص ارادہ کرنے پر بھی ایک نیکی کے اجروثواب کا مستحق بنے گا۔ تیسری یہ کہ اگر کسی شخص نے ارادہ کرنے کے بعد نیک کام کرلیا تو پھر اس کو10 گنا سے 7 سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اجرو ثواب ملے گا۔ چوتھی یہ کہ اگر کسی شخص نے برائی کا ارادہ کیا مگر اس نے اللہ کے خوف کی وجہ سے اس برائی سے اپنے آپ کو بچا لیا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ ایک نیکی عطا فرمائے گا۔ مثلاً یتیم کا مال ہڑپ کرنے کا ارادہ کیا مگر اللہ کا خوف اِس ارادہ کی تکمیل سے مانع بن گیا تو اُسے اللہ کے خوف کی وجہ سے اِس برائی سے بچنے پر ایک نیکی ملے گی لیکن اللہ کے خوف سے نہیں بلکہ اس گناہ پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے وہ گناہ نہیں کرسکاتو پھر وہ اس فضیلت کا مستحق نہیں ہوگا بلکہ اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی۔ مثلاً ایک شخص ڈانس پارٹی میں شرکت کے لئے جارہا تھا مگر راستہ میں گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہوسکا تو اس گناہ کے ارتکاب نہ کرنے کے باوجود اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی۔ پانچویں یہ کہ اگر کسی شخص نے گناہ کا ارتکاب کرلیا تو اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی، جس نوعیت کا گناہ ہوگا اسی نوعیت کی سزا بھی ملے گی۔ گزشتہ امتوں کے مقابلہ میں آخری نبی حضرت محمد مصطفی کی امت کے لوگوں کی عمریں بہت کم ہیں، جیساکہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگوں کی عمریں60 سے 70 سال کے درمیان ہیں۔ (ترمذی وابن ماجہ) پہلی امتوں کے اعمال کی برابری کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کے لئے نیک اعمال کا اجروثواب بڑھایا ،چنانچہ ایک نیکی پر10 گنا سے لے کر 7 سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اجروثواب کا وعدہ کیا گیا جیسا کہ پوری انسانیت کے نبی کا فرمان بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پاک کلام میں متعدد مرتبہ نیکی پر اجروثواب کی کثرت کے متعلق اصول کو بیان فرمایا ہے۔ 65 سال کی زندگی کو معیار بناکر اگر ہم اپنی زندگی کا حساب لگائیں اور بالغ ہونے سے قبل کی زندگی کے تقریباً15 سال کم کردیں تو صرف50 سال کی زندگی بچتی ہے۔6سے8 گھنٹے روزانہ سوکر زندگی کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ سونے میں نکل جاتا ہے۔ زندگی کا تقریباً ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ کاروبار یا ملازمت وغیرہ میں لگ جاتا ہے۔ زندگی کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ جو ہمارا سونے میں لگتا ہے، اس کو عبادت بنانے کے لئے ساری مخلوق میں سب سے افضل اور سارے نبیوں کے سردار نبی اکرم کا فارمولہ یہ ہے کہ جو شخص عشاء کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھے، گویا اس نے آدھی رات عبادت کی اور جو فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے گویا اس نے پوری رات عبادت کی۔ (مسلم) کاروبار یا ملازمت میں لگنے والے زندگی کے ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ کو عبادت بنانے کے لئے شریعت اسلامیہ نے یہ اصول وضابطہ بنایا کہ حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو، ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (مسند احمد) ہم اپنی زندگی کے مابقیہ قیمتی حصہ کا صحیح استعمال کرلیں تو ان شاء اللہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ٹی وی، واٹس ایپ، فیس بک، موبائل اور انٹرنیٹ پر ہماری مصروفیات دن بدن بڑھتی جارہی ہیں حتی کہ اللہ کے گھر یعنی مساجد بھی موبائل کی ٹون سے محفوظ نہیں لہذا ہمیں چاہئے کہ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال صرف جائز مقاصد کے لئے کریں۔ نئی ٹیکنالوجی میں ہماری مصروفیت قرآن کریم کی تلاوت اور نماز وغیرہ کی ادائیگی سے رکاوٹ کا سبب نہ بنے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا کہ نیک عمل پر اجروثواب میں کثرت ہے لیکن ایک برائی پر ایک ہی برائی کی سزا دی جائے گی ، اگر اس گناہ یا برائی سے سچے دل سے معافی نہیں مانگی گئی۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شرک جیسا سب سے بڑا گناہ بھی دنیا میں سچی توبہ کرنے سے معاف ہوجاتا ہے۔ (مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)

شیئر: