Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

10کے سکے آنے سے فقیروں ریٹ بڑھ جائیں گے

میر شاہد حسین۔کراچی ’’ہمارے سرکاری ذمہ داروں نے اب اپنا سکہ بٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ ’’ کیا مطلب ہے تمہارا… کیا سرکارکا سکہ نہیں چلتا، کسی اور کا چلتا ہے؟‘‘ ’’ ہمارے ہاں ایک ، 2اور 5 روپے کے سکے جاری کئے تھے جو بے چارے ہمارے ’’بڑوں‘‘ کی طرح غائب ہورہے تھے۔اسی لئے صاحبانِ اختیار نے سکوں کی قدر وقیمت میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ ’’وہ کس طرح؟‘‘ ’’ اب آرہا ہے10 کا سکہ‘‘ ’’ 10 کا سکہ آنے سے عوام کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن فقیروں کے ریٹ بڑھ جائیں گے جو پہلے کہتے تھے کہ ایک روپے کا سوال ہے بابا، اب ڈھٹائی سے کہیں گے کہ ’’10کا سکہ اُچھال رے بابا۔‘‘ ’’ماضی میںتوہم ہمیشہ سے ہی انہیں 4آنے دیتے چلے آئے تھے پھر مہنگائی ہوئی ، فقراء کی ضروریات بھی بڑھ گئیں، ان کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوگیا چنانچہ انہوں نے سوال کے دام بھی بڑھا دیئے۔آج کل حالت یہ ہو چکی ہے کہ انتہائی گرا پڑا فقیر بھی 5 کا سکہ بطور بھیک اس طرح قبول کرتا ہے جیسے ہم پر ہی نہیں بلکہ ہماری 7پشتوں پر احسان کر رہا ہے۔ اگر ہم موصوف سے اس’’ زہریلی بے اعتنائی‘‘ کا سبب دریافت کرنے کی کوشش کریںتو وہ ہمیں حکم فرماتے ہیں کہ ’’چل شاباش !آگے بڑھ بھئیے، دھندے کا ٹائم ہے، خواہ مخواہ میں میٹر نہ گھما میرا۔ آج کے دور کے ایسے پیشہ ور، ’’بداخلاق فقیروں‘‘ کو اگر ہم ماضی کی طرح چوَنی دینے کی ’’غلطی‘‘ کر بیٹھیں یا ایک روپیہ دینے کی جرأت کریں تو ان کا رد عمل کیا ہوگا؟ اس کا ا ندازہ آپ بحسن و خوبی لگا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاںجب بھی کوئی نیا سکہ جاری ہوتا ہے تو اس کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے لیکن جانے والوں کا جنازہ بڑی خاموشی سے ادا کر دیا جاتا ہے۔‘‘ ’’ ٹھیک کہہ رہے ہو ، ہمارے سکوں کی قیمت میں تو اضافہ ہورہا ہے لیکن نوٹوں کی قیمت میں روز بروز کمی ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود ترقی کا سفر جاری ہے اور کہتے ہیں کہ پیسہ باہر نہیں جارہا بلکہ اندر آرہا ہے۔‘‘ ’’جی ہاں اندر جارہا ہے لیکن کس کے پیٹ میں جارہا ہے وہ تو آپ بتاتے ہی نہیں۔‘‘ ’’ عوام کو وہ فارمولا کیوں نہیں بتایا جاتا جس کے ذریعے ان کی دولت میں 4گنا اضافہ بھی ہوجائے اورانہیں ٹیکس بھی نہ ادا کرنا پڑے۔‘‘ ’’ آپ کیوں جلتے ہیں کسی کی ترقی سے ؟ خود ہی دیکھ لیں، کس طرح نوٹوں کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ ’’جی ہاں 5000 روپے کے نوٹ کو ہی دیکھ لیں جو دیکھنے میں اتنا بڑا ہے کہ کوئی لینے کو تیار ہی نہیں ہوتا ۔‘‘ ’’ سکوں کی قیمت میں اسی طرح روز بروز اضافہ ہوتا گیا تو وہ دن دور نہیں جب لوگ جیب میں پرس کی بجائے تھیلیاں لے کر نکلا کریں گے اور پھر دکاندار ترازو کے ایک پلڑے میں سکے اور دوسرے پلڑے میں اشیائے ضرورت برابر برابر وزن کرکے دیا کرے گا۔‘‘ ’’مہاراجوں کا دور ختم نہیں ہوا ، بس ذرا نمونہ بدل گیا ہے،اب جمہوری مہاراجوں کا دور آگیا ہے۔‘‘اسے آپ عرف عام میں ’’تبدیلی ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ صورتحال مزید کس کس قسم کی تبدیلیاں لے کر آئی ہے، اس حوالے سے ذرا غور فرمائیے: ٭٭مہاراجوں کے دور میں زنجیر کھنچی جاتی تھی داد رسی کے لئے، حصولِ انصاف کے لئے، اب انصاف کیلئے رونا پیٹنا ضروری ہوجائے تو میڈیا میں بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہے ۔ ٭٭پہلے شریف مہاراجہ بھیس بدل کر اپنی قیام گاہوں سے نکلتے تھے تاکہ لوگوں کا حال جان سکیں۔اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اُس دور میں میڈیا نہیں تھاجو ان کو حال احوال سے باخبر رکھنے کی ذمہ داری انجام دیتا۔ آج کے مہاراجہ اچانک دورے کرتے ہیں اور ایک لمبا لاؤ لشکر لے کر کسی بھی چوک پر کھڑے ہوکر تصویریں بنواتے ہیں اور پھرصورتحال کا ’’سخت نوٹس‘‘لے کر گھر چلے جاتے ہیں۔ بہرحال کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں سرکاری ذمہ داروں نے اپنے سکے کو چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اس کیلئے اگر انہیں 100روپے کا سکہ بھی لانا پڑا تو وہ اس اقدام سے گریزنہیں کریں گے اور ایسا کر گزیں گے ۔اس کا مطلب ہے کہ اب ایک روپے ، دوروپے اور پانچ روپے کا سکہ یاد ماضی بننے کو ہے۔‘‘ ’’ہاں،کاش کوئی ایسا سکہ ہوتا جو ہمارے ہاں کے ’’لیڈر‘‘ کی طرح ’’زندہ‘‘ رہتااور ختم ہونے کے باوجود بھی چلتا،کاش ایسا ممکن ہوتا۔

شیئر: