Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گنیر بک میں عدم شمولیت، ناانصافی ہے کہ نہیں؟

ابوغانیہ ۔ جدہ

تیسری دنیا کو ترقی یافتہ ممالک میں ’’تھرڈ ورلڈ‘‘ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے ۔ عام تاثر یہی ہے کہ پہلی اور ددسری دنیائیں، تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہیں جس میں امتیاز شامل ہوتا ہے مثلاً وہ بھائی سمجھتے ہیں تو سوتیلا، بہن سمجھتے ہیں تو سوتیلی، ماں سمجھتے ہیں تو سوتیلی، باپ سمجھتے ہیں تو سوتیلا، بیٹا سمجھتے ہیں تو سوتیلا، بیٹی سمجھتے ہیں تو سوتیلی۔ وہ تیسری دنیا کے کسی ملک کو اپنی بیوی یا شوہر سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ ان میں وہ سوتیلا پن روا نہیں رکھ سکتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں میں میاں بیوی کا رشتہ سوتیلا ہو ہی نہیں سکتا، یہ رواج ہی نہیں تاہم ترقی یافتہ دنیا میںسوتیلے شوہر یا سوتیلی بیویاں جا بجا پائی جاتی ہیں۔مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ پہلی اور دوسری دنیا اپنے آپ کوتیسری دنیاسے الگ تھلگ رکھتی ہیں۔وہ انہیں مکمل حقوق دینے پر بھی غور نہیں کرتیں۔ حد تویہ ہے کہ دنیا بھر کے جوانوں اور فرتوتوں کے کرتوتوں نیز غیر معمولی حرکات و سکنات کی تفصیل پر مبنی ’’گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں بھی کوشش یہی کی جاتی ہے کہ تیسری دنیا کا نام نہ ہی آئے تو بہتر ہے۔ اس کا ایک بین ثبوت زیر نظر تصویر ہے جو پاکستانی صوبے سندھ کے قدیم اور منفرد ثقافت کے حامل شہر حیدرآباد کی ہے جس میں ایک شخص نصف درجن سے زائد چارپائیاں دوپہیوں والی سائیکل یعنی ’’بائیسکل‘‘ پر لادکر لے جا رہا ہے۔ یہ اس شخص کی روزمرہ زندگی کا معمول ہے مگر پہلی اور دوسری دنیاؤں کے باشندوں کے لئے ایک حیرتناک اور ششدر کر کے رکھ دینے والا کارنامہ ہے ۔ اس کو دو جہتوں سے عالمی ریکارڈ والی کتاب کا حصہ بنایاجانا چاہئے تھا۔ ایک جہت تو یہ ہے کہ یہ بتانا ہی ایک کارنامہ ہوگا کہ آخر یہ شخص ایک سائیکل پر کتنی چارپائیاں لے کر جا رہا ہے، دوسری جہت یہ ہے کہ یہ شخص سائیکل پر سوار تھا مگر جس وقت تصویر لی گئی تو وہ پیدل چل رہا تھا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ 8یا10چارپائیاں لے کر بے فکری سے سائیکل چلانا اور جب دل چاہے اس سے اُتر کر پیدل چلنے لگنا اور توازن یوںبرقراررہنا کہ چارپائیاں پھسلیں ، نہ سائیکل گرے، یہ عالمی معیار کا کمال ہے کہ نہیں؟کیا پہلی اور تیسری دنیا میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے؟یقینا آپ سب کا جواب ہوگا کہ وہاں ایسا خواب میں بھی نہیں کیاجا سکتا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اسے ’’گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ امتیازی سلوک اور ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟

شیئر: