اوورسیز پاکستانیوں کو ایئرپورٹس اور پی آئی اے پر خصوصی سہولتیں دی جائیں،شکیل احمد
اوورسیز فاؤنڈیشن کچھ نہیں کرتا، دو حصوں میں تقسیم خاندان کے بچوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے مگر مجبوراً باہر آنا پڑتا ہے،اردونیوز کو انٹرویو
* * * * * انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی* * * * *
(زندگی کے اس صفحے پر آج ہم آپ کی ملاقات پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے شکیل احمد سے کرانے جارہے ہیں۔وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے متحدہ عرب امارات میں ابوظبی کے اسلامی بینک میں بطور آپریشنل سیکیورٹی منیجر ملازمت کرتے ہیں۔ اس سے پہلے 6سال سعودی عرب میں بھی گزار چکے ہیں جبکہ قطر کی آرمی میں بھی وقت گزارا ہے۔)
** اردونیوز:آپ اپنے ملک اور خاندان سے دور ابوظبی میں تنہا رہتے ہیں ،کیا محسوس کرتے ہیں ؟
** شکیل احمد:ـ دیکھیں جی ہمارے ملک میں اچھے لوگوں کو روزگار نہیں ملتا،سفارش اور رشوت کے بغیر نوکری نہیں ملتی اس لئے مجبوراً باہر جانا پڑتا ہے۔ورنہ کون خوشی سے اپنے ملک سے دور رہنا چاہے گا۔
** اردونیوز:پاکستان سے باہر رہنا کس حد تک تکلیف دہ ہے؟
** شکیل احمد:آپ پردیس میں ہوں اور دیس میں اگر کوئی بیمار ہوجائے یا کسی اور پریشانی کی اطلاع ملے
توبہت تکلیف ہوتی ہے۔پھربہن بھائیوں سے رابطہ کرتے ہیں کہ وہ گھر کا مسئلہ حل کرادیں تاہم میرے بچے تو بڑے ہیں تو کافی حد تک وہی مسئلے حل کرلیتے ہیں۔ بچے اور بیگم بہت زیادہ ’’مس ‘‘ کرتے ہیں ۔بیگم کا تو یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں وہاں بلالیں یا خود واپس آجائیں۔لیکن ظاہر سی بات ہے کہ بچے کراچی میں پڑھ رہے ہیں تو وہاں بچے ساتھ نہیں رکھ سکتے وہاں کافی مہنگا پڑتا ہے اس لئے خود سال ، 6ماہ میں آجاتا ہوں۔
** اردونیوز:کہتے ہیں کہ دو حصوں میں تقسیم خاندان میں بچوں کی نشوونما رک جاتی ہے یا خراب ہوتی ہے؟
** شکیل احمد:بالکل صحیح بات ہے ۔دو حصوں میں تقسیم خاندان کے بچوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے ۔شادی
سے پہلے میں قطر میں تھا مگر شادی کے بعد میں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی تاہم16سال بعد جب ملازمت ختم ہوگئی تو باہر جانا پڑا مگر یہ حقیقت ہے کہ بچوں کو پورے خاندان کی ضرورت ہے۔
** اردونیوز:ابوظبی میں پاکستانیوں کیلئے کتنے مواقع ہیں اور ہماری حکومت کیا تعاون کرتی ہے؟
** شکیل احمد :وہاں مواقع بہت ہیں مگر اوورسیز فاؤنڈیشن اور پاکستانی حکومت کچھ نہیں کرتی ۔پاکستانی
سفارتخانہ بھی نہیں پوچھتا۔پاکستانی وہاں پر بہت اچھے عہدوں پر ہیں۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستانیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔جتنی بھی بڑی عمارتوں کی تعمیر یا دیگر سخت کام ہوتے ہیں وہ ہمارے پٹھان بھائی کرتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارا سفارتخانہ کوئی مدد نہیں کرتا ۔میں آپ کے توسط سے ایک مطالبہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جو اوورسیز پاکستانیزاپنے ملک آتے ہیں انہیں عزت دی جائے۔ان کیلئے ایئرپورٹس پر خاص کاؤنٹرز ہوں۔پی آئی اے کو خاص طور پر ایسے پاکستانیوں کیلئے بیگیج میں ریلیف دینا چاہیے ۔یہ پاکستانی ملک میں زرمبادلہ بھیجتے ہیں ان کی قدر کی جانی چاہیے۔یہاں ہمارے ایئرپورٹس پر بہت بدتمیزی سے بات کی جاتی ہے ۔عزت نہیں دی جاتی۔
** اردونیوز: متحدہ عرب امارات کے ایئرپورٹس پر آپ کے ساتھ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے کیسا سلوک
ہوتا ہے؟
** شکیل احمد :اگر آپ کے پاس ویز ا صحیح ہے ۔کوئی جعل سازی نہیں کی ۔کاغذات پورے ہیں تو وہ لوگ بہت
عزت دیتے ہیں۔یہی تو ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ لوگ عرب ہیں ۔ہم ان کے ملک میں نوکری کیلئے آئے ہیں اور یہ ہمیں عزت دیتے ہیں اور ہمارے ملک میں کیا حال ہے؟جب ہم ان کے قانون کا احترام کریںگے تو وہ کبھی تنگ نہیں کرینگے۔
** اردونیوز:پاکستان میں بچپن گزرا ۔ وہاں اکیلے میں بیٹھ کر کبھی پرانے دوست یاد آتے ہونگے تو کیا کرتے ہیں؟
** شکیل احمد:پرانے دوست بہت یاد آتے ہیں ۔جب اکیلے ہو تو سب کو یاد کرتے ہیں۔جب یاد بڑھتی ہے تو اپنے دوستوں کو فون کرلیتے ہیں ۔میں ان سوشل ویب سائٹس اور دیگر انٹرنیٹ کالنگ سہولتوں پرشکر کرتا ہوں جن کی وجہ سے رابطہ اتنا آسان ہوگیا ہے ورنہ قطر میں جب تھے تو پاکستان بات کرنے میں ہی آدھی تنخواہ نکل جاتی تھی۔
** اردونیوز:آپ وہاں تنہا رہتے ہیں یا شیئرنگ میں رہتے ہیں؟
** شکیل احمدـ:ہم 4افراد نے اپارٹمنٹ لے رکھا ہے ۔ابوظبی میں ایک کمرہ 3ہزار درہم کا ہے ۔تاہم جس کی
تنخواہ اچھی ہے تو اچھا رہتا ہے۔میرے ساتھ سارے ہندوستانی ہیں ،ہم سب اپنے کھانے خود پکاتے ہیں ۔کبھی باہر بھی کھالیتے ہیں۔
** اردونیوز:شکیل بھائی سب سے بہتر کھانا کون سے بنالیتے ہیں؟
** شکیل احمد:میں کڑاہی ،چاول ،بریانی ،مرغی اور مچھلی بنالیتا ہوں۔
** اردونیوز:پاکستان آکر بھی بنالیتے ہیں؟
** شکیل احمد:(ہنستے ہوئے)جی نہیں یہاں آکر تو میں گلاس کو بھی ہاتھ نہیں لگاتا ۔ہاں کبھی کبھار تفریح میں
بچوں کے ساتھ مل کر بناتا ہوں اور پھر بیگم کو دکھاتا ہوںکہ دیکھو ایسے کھانا بناتے ہیں۔پھر بیگم کہتی ہیں کہ واہ بڑا زبردست کھانا بنایا۔
** اردونیوز:دبئی میں ایک وقت آیا تھا جب ان کی معیشت گرنے لگی تھی اور تارکین جانے لگے تھے کتنے
عرصے میں انہوں نے معیشت پر قابو پالیا تھا؟
** شکیل احمد:د بئی میں2006ء میں بینکنگ سیکٹر میں بحران آیا مگر میں دبئی کے حکمرانوں کو سلام کرتا ہوں کہ انہوںنے ایک سے ڈیڑھ سال میں اس بحران پر قابو پالیا۔میں متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کو سلیوٹ کرتا ہوں کہ انہوں نے تارکین کیلئے بھی اس قدر سہولتیں دی ہیںکہ ان کے لئے دعا نکلتی ہیں ۔ان میں صحیح معنوں میں انسانیت ہے۔ان کے ہاں اسلامی ثقافت ہے۔مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ ہر چیز میں اسلام پر عمل کرتا ہے۔جو پہلے کمرے میں آتا ہے وہ سب کو سلام کرتا ہے۔سیدھے ہاتھ سے شروع کیا جاتا ہے۔وہ لوگ اپنے لوگوں کو بہت سپورٹ کرتے ہیں۔میں ایسے ایسے شیخوں کو جانتا ہوں جو یتیموں کو ایسے بنگلوں میں رکھتے ہیں جو یہاں آپ کے ہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔یتیموں کی بڑے ہونے تک مکمل کفالت کرتے ہیں،روزگار دلاتے ہیں۔رمضان میں آپ دیکھ لیں کہ شیخ زید مسجد میں روزانہ 30سے 40ہزار افراد افطار کرتے ہیں ۔وہاں غیرمسلم بھی کھاتے ہیں۔بہت اچھا لگتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو ان سے سبق لینا چاہیے۔ ایسے ہوتے ہیں حکمراں۔
** اردونیوز: کیا ہمارے ملک میں ایسے حالات کی وجہ جمہوریت تو نہیں؟
** شکیل احمد:ہمارے ملک میں جمہوریت کہاں ہے ؟ ہم بیرون ملک اسی لئے ہیں کہ ہمارے حکمراں ایسے
ہیں۔ہمارا ملک کتنا زرخیز ہے ۔دنیا جہاں کی چیزیں ہیں جبکہ امارات میں اب کچھ زراعت شروع ہوئی ہے مگر دنیا جہاں کی چیزیں ملتی ہیں ۔وہاں ذخیرہ اندوزی نہیں۔اگر کوئی بے ایمانی کرتا ہے تو اسے سزا ملتی ہے۔وہاں پر ایمانداری ہے ،وہ سب اپنے ملک سے مخلص ہیں۔اگر آپ ٹریفک کی خلاف ورزی کرینگے تو عام آدمی سڑک پر ٹوک دے گا۔ سب قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔وہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔
** اردونیوز:وہاں پولیس اہلکاروں سے کبھی رابطہ رہا کیسا رویہ ہوتا ہے ان کا ؟
** شکیل احمد:ہمارا کام ہی ایسا ہے کہ پولیس سے رابطہ رہتا ہے ۔وہاں ہمیں مختلف جگہوں پر سیکیورٹی
کیمرے لگانے ہوتے ہیں جس کیلئے پولیس کی مدد درکار ہوتی ہے۔پولیس اہلکار بہت عزت کرتے ہیں۔اگر آپ کے کاغذات مکمل ہیں تو وہ لوگ کہتے ہیں ہمیں آ پ کی مدد کرکے خوشی ہوتی ہے جبکہ پورے متحدہ عرب امارات میں لڑکیوں اور خواتین کی بڑی عزت ہے۔لڑکیاں رات کو 3،3بجے اپنی نوکری سے واپس آتی ہے تو اسے کوئی ڈرنہیں ہوتا ۔اگر کسی نے لڑکی یا عورت کو تنگ کیا تو اس کی خیر نہیں۔میں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہمارے ملک کو بھی متحدہ عرب امارات کی طرح بنادے۔ہمار ے ملک کے حکمراں اور بیوروکریٹس کو وہاں لے جانا چاہیے ۔وہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ہمارے ہاں شوت خوری عام ہے۔
** اردونیوز:وہاں پر طبی سہولتیں کیسی ہیں؟
** شکیل احمد:متحدہ عرب امارات میں طبی سہولتیں بہت زبردست ہیں۔اگر آپ کے پاس میڈیکل کارڈ ہے تو
بہترین علاج میسر ہے۔مقامیوں کیلئے تو تعلیم ،صحت اور بہت کچھ مفت ہے لیکن تارکین کیلئے بھی طبی سہولتیں بہت اچھی ہیں۔یورپ کے مقابلے میں یواے ای کے لوگ بہت تہذیب یافتہ اور بہترین ہیں۔ان سے بات کرکے اچھا لگتا ہے۔
** اردونیوز:پاکستانیوں کیلئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
** شکیل احمدـ:پاکستانیوں کیلئے پیغام ہے کہ جب آپ یو اے ای آئیں تو جس ملازمت کا ویزا ہو وہ کام بھی آپ
کو آتا ہوں کیونکہ وہاں پریکٹیکل کام کرنا ہوتا ہے۔ کام نہیں آتا ہوگا تو بہت ذلت ہوگی،یہ ایجنٹ حضرات بھی بہت لوٹتے ہیں ۔پاکستان میں ایجنٹ حضرات کمپنی سے پوری رقم لیتے ہیں مگر اس شخص کو نہیں دیتے جو ملازمت کیلئے جارہا ہوتا ہے ۔یہ حکومت پاکستان کے اداروں ایف آئی اے اوردیگر کا کام ہے کہ وہ ان چیزوں کو کنٹرو ل کرے۔یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔