بچے اب بڑوں میں شمار ہونے لگتے ہیں، خزاں بھی حَسین موسم ہوتا ہے
اُم دانیال۔ امریکہ
مشی گن میں گرمیوں کا موسم بہت تھوڑے دنوں کیلئے آتا ہے یعنی مشکل سے 4مہینے جون ، جولائی ،اگست، ستمبر ۔ اس میں بھی جون اور ستمبر میں بھی تیز ہوائیںاور بارشیں گرمی کا احساس نہیں ہونے دیتیں ۔ یوں سمجھئے کہ جون اور جولائی ایک ہی بات ہے۔
یہاں چاروں موسم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آتے ہیں۔ سردی تو انتہائی سردی اور وہ بھی برف باری کے ساتھ۔ پھر بہار کا موسم ،ہر طرف لہلہاتا سبزہ اورشاداب درخت۔ اس کے بعد گرمی اور پھر خزاں ۔ہمارے ہاں تو خزاں کو اُداسیوں کا موسم گردانا جاتا ہے۔ دنیائے ادب میں خزاں رسیدگی کی اصطلاح نااُمیدی سے معمور کر دیتی ہے مگر یہاں ایسا ہر گز نہیں ۔ آپ کو شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ ہم نے تو یہاں خزاں کو بھی حَسین پایا۔ یہ انتہائی خوبصورت موسم ہوتا ہے جس میں برگ و بار رنگ بدلتے ہیں ۔درختوں کے پتے نئے رنگوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ چہار سو زرد، نارنجی اور سرخ رنگ بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔
جہاں تک سردیوں کا تعلق ہے تو یہ اتنی سرد ہوتی ہیں کہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً جیتے جاگتے انسانوں کی قلفی جمنے لگتی ہے ۔ اس سرد موسم میں برف باری ہوتی ہے تو لغت اُردو کے محاورے یاد آتے ہیں کہ ”کریلا ، نیم چڑھا“ یا ”سونے پر سہاگہ“۔ یہاں کی سردیوں کا تصور کریں تو آئسکریم کا وہ اشتہار حقیقت کا اظہار لگتا ہے جس میں ایک کون، اپنے جیسی دوسری کون کو ٹھٹھرتے دیکھ کر حیرت سے پوچھتی ہے کہ”ہائے بہن! تم آئسکریم ہو کر بھی کانپ رہی ہو؟“
یہاں کی سردیوں کے باعث لوگ گھروں میں رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاہم روز مرہ کے کام کاج رکتے بھی نہیں۔ معمولات اپنے انداز میں جاری و ساری رہتے ہیں۔ زندگی ویسے ہی رواں رہتی ہے لیکن گرمیوں کے موسم کو یہاں تہوارکے طور پربھی منایاجاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے دکھائی دیتے ہیں اور ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ شکر ہے آج دھوپ نکلی ہوئی ہے۔
گرمیاں شروع ہونے کے ساتھ اور بعض اوقات شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ باگ تعطیلات کے منصوبے بنا لیتے ہیں پھر جیسے ہی اسکول اور کالجز کی چھٹیوں کا آغاز ہوتا ہے ، لوگ گرم علاقوں کیلئے رختِ سفر باندھتے ہیں اورساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ سال بھرمصروفیت کے باعث رکی ہوئی تفریحات سے لطف اندوز ہونے کا بھی یہی وقت ہوتا ہے۔ انہی دنوں میں شادی بیاہ اور دیگر نجی تقاریب کے علاوہ سب سے بڑھ کر”گریجویشن پارٹیز“کا انعقاد کیاجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جون کے وسط میں اسکول کی تعطیلات شروع ہوتے ہی گریجویشن تقریب کے دعوت نامے آنے شروع ہو جاتے ہیں۔
امریکی عوام، ہائی اسکول کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اسکولنگ ختم ہوتے ہی گریجویشن کی خوشی منانے کے لئے گریجویٹس کے اعزاز میں دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ تمام لوگ اپنے لحاظ سے چھوٹے بڑے، ہر پیمانے پر دعوت کا انتظام کرتے ہیں کیونکہ وقت گرمی کا ہوتا ہے۔ زیادہ تر امریکی ایسی تقریبات اپنے گھر کے ”بیک یارڈ لان“میں منعقد کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ پارٹیوں میں بہت زیادہ کھانے کا اہتمام نہیں کرتے۔ بار بی کیو اور مختلف نوعیت کے اسنیکس سے تواضع کرتے ہیں۔ تقریب میں شرکت کے لئے آنے والے قریبی دوست احباب اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ کھانے کی اشیاءلے کر بھی آتے ہیں جن میں سینڈ وچ، کوکیز اور دیگر اشیاءشامل ہوتی ہیں۔ ایسی ”بیک یارڈ پارٹیز“ اتفاقی نوعیت کی ہوتی ہیں جن میں قواعد و ضوابط کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہو تا۔ ایسی پارٹیاں اوپن ہا¶س ہوتی ہیں ۔ لوگوں کے آنے کا کوئی خاص ٹائم نہیں ہوتا بلکہ جب چاہیںآئیں اور جب چاہیں جائیں۔ یہ اس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک ہی وقت میںکئی کئی پارٹی ہوتی ہیں ۔ سب سینیئرزایک دوسرے کے کلاس فیلوز ہوتے ہیں تو سب ہی ایک دوسرے کی پارٹی میں شرکت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ جو زیادہ استطاعت رکھتے ہیں وہ ہال میں بھی پارٹی کا انتظام کرتے ہیں۔
گریجویشن کرنیوالے بچے کو ان کی کامیابی پر مبارکباد اور تحفے بھی ضرور دیئے جاتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو خاص تحفہ ضرور دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ہوتا ہے کیونکہ ہائی اسکول کا ٹائم ایک رف ٹف ٹائم ہوتا ہے۔ بچے ، اچھے کالجز میں داخلوں کے لئے بڑی محنت کرتے ہیںاور ٹین ایج کے دور سے نکل کرسن شعور میں داخل ہورہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کالجز میں چلے جاتے ہیں جو کبھی قریب اور بعض اوقات دور بھی ہوتا ہے۔
بچے 14تا16سال تک کی عمر ہائی اسکول میں گزارتے ہیں پھر زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ وہ اب بڑوں میں شمار ہونے لگتے ہیں۔ گھر سے دور کالج کیمپس میں رہتے ہیں اورعلیحدہ و آزاد زندگی کا دور شروع کرتے ہیں۔ کالج میں بھی وہ اسی طرح محنت کرتے ہیں تاکہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ان کے لئے حوصلہ افزائی بہت ضروری ہوتی ہے ۔اسی لئے گریجویشن پارٹی کا اتنا رواج ہے۔ اس کے ذریعے انہیں احساس دلایاجاتا ہے کہ اب وہ زندگی کی دوڑ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں۔ اسی وقت اکثر بچے جزوقتی ملازمت بھی کرتے ہیں تاکہ اپنا جیب خرچ خود کما سکیں ۔ والدین کی نصیحت توبہر حال ان کے ساتھ رہتی ہے لیکن اب وہ اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت کے حامل ہو جاتے ہیں اور وہ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔ گریجویشن تقاریب در حقیقت ہمت ،حوصلے اور آزادی کانیا باب شروع ہونے اورپابندیوں کا باب ختم ہونے کا جشن ہوتی ہیں ۔ ان تقاریب کو حوصلہ افزائی کے لئے بہت ضروری خیال کیاجاتا ہے ۔