Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچے کوملا ز مین کے سپرد کرنا،ناقابل تلافی لاپروائی

 
 مصرو فیات کو آ ڑے نہ آ نے دیں،ملا ز مین یا قریبی تعلق داروں پرنظر رکھنا ضروری ہے
 
تسنیم امجد۔ ریاض  
ورکنگ خواتین کو اکثر گھریلو کام کاج کے لئے ملازم رکھنا پڑ تا ہے۔اس سلسلے میں اکثرخواتین پریشان رہتی ہیں۔و طن میں ہو ں یا وطن سے باہر،مسا ئل یکسا ں ہی ہیں۔وطن سے دور پردیس میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی گمبھیر صورت اختیار کرجاتا ہے۔اس سلسلے میں صبح ا لکا فیہ گید رنگ میںہما ری حا لیہ گفتگو آپ کی نذر ہے:
مسنر جیم کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ہو نے کے نا تے اکثر میں آن کال رہتی ہو ں۔3 بیٹیو ں کی ما ں ہو ں۔سب سے بڑی صرف 9 برس کی ہے۔اسے بھی کیئر کی ضرورت ہے۔بچیو ں کی وجہ سے مجھے ملا ز مہ کی ضرورت رہتی ہے لیکن میں ان کی طرف سے خا صی نا لا ں رہتی ہوں۔ بمشکل 3 چار ماہ گز ر تے ہیں اور وہ کو ئی نہ کو ئی بہا نہ بنا لیتی ہیں۔شاید گھر بدلنے کا اشتیاق ہوتا ہے اسی لئے وہ چل دیتی ہیں۔اب مجھے مجبوری میں مرد ملا زم رکھنا پڑا مگر بہت ٹینشن میں رہتی ہو ں۔بچیو ں کا معاملہ ہے۔انہیں بہت سمجھا تی رہتی ہو ں لیکن پھر بھی آخر بچیا ں ہی ہیں۔انکی بات کا ٹتے ہو ئے ایک اور خا تون نے کہا کہ بچیو ں کے گھر میں مرد ملا زم کی موجودگی ضروری نہیں ۔یہ ان دنو ں کی بات ہے جب ہماری پو سٹنگ ایک خلیجی ملک میں تھی،وہاںہم خاصی مشکل میں رہے کیو نکہ وہا ں گھر یلو ملازم کا ملنا مشکل مر حلہ تھا ۔ہم نے اپنے گا ﺅ ں سے ایک جا نا پہچا نا لڑ کا ویزہ بھیج کر بلوا لیا۔وہ جلد ہی سب کام سیکھ اور سمجھ گیا ۔اس نے گھر اور گھر سے باہرکی ذمہ داری بخو بی سنبھال لی ۔یو ں کہ بشیرے کے بغیر ہم ادھورے ہو گئے۔ہم دونو ں اکثر رات گئے دعو تو ں اور شہر کے مختلف پرو گرا مو ں سے لو ٹتے۔
ایک دن میر ے چھو ٹے بیٹے نے جو بمشکل تین برس کا تھا، روتے ہو ئے کہاکہ ،ماما ! مجھے بشیرے کے پاس نہیں جا نا۔اس پر میں نے اسے ڈا نٹتے ہو ئے کہا کہ کیو ں ؟ میں تمہیں اپنے ہمرا ہ تو نہیں لے جا سکتی ۔اس پروہ رونے لگا۔میں سمجھی کہ شایدمیرے سا تھ جا نے کے لئے بضد ہے ۔شام میں میرے شوہر آئے تو اس نے پھر وہی بات دہرائی۔اس پر مجھے فکر ہوئی۔میں نے اس سے وجہ پو چھی۔اس نے بتایا کہ بشیرے نے اسے ڈرانے ، دھمکانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اپنے معصوم بچے کی شکایات سن کر میں سیخ پا ہوگئی۔ میں نے سوچا کہ اگر اس وقت میں اپنے ملک میں ہو تی تو بشیرے کوکھڑے کھڑے پو لیس کے حوا لے کر دیتی لیکن اب مجبو ری میں اسے کچھ روزبرداشت کرنا تھا جب تک واپسی کے کا غذات نہ ہو جاتے اور کو ئی نیاکام والا نہیں مل جا تا ۔مت پو چھئے جب تک وہ واپس نہیںگیا، مجھے بے حد ٹینشن رہی۔ ڈرتی تھی کہ وہ بچے کو بد لے میں کو ئی نقصا ن نہ پہنچا ئے۔
مسز رے ۔ الف کی بات ختم ہی ہو ئی تھی کہ مسز سین ۔ ج بو لیں کہ یہ تو چلو ملا زم کی بات تھی، میرا تجربہ کچھ ایسا ہی ملا ز مہ کا ہے ۔ ہم اُن دنو ں ایک چھوٹے سے خلیجی ملک میں ہی مقیم تھے ۔میرے دو نو ں بیٹے اس وقت چھوٹے تھے ۔گھر میں سرونٹ روم نہیں تھااس لئے وہ بچو ں کے کمرے میں ہی فرش پر سو جاتی تھی ۔ایک دن بڑے بیٹے نے ضد کی کہ آیا کو ہمارے کمرے سے نکالیں۔میں نے سمجھا تے ہو ئے کہا کہ بیٹے گھر میں اور جگہ نہیںہے۔ گھر بد لیں گے تو وہ لیں گے جس میں سرونٹ روم ہولیکن میرے بیٹے نے تو ماننے سے ہی انکار کردیا۔ میرے شوہر غصے میں آ پے سے با ہر ہو گئے۔بڑی مشکل سے سمجھا یا۔ شکر ہے وہ آیا وہیں رہتی تھی، ہم نے اپنے ویزے پرنہیں بلائی تھی اس لئے کمپنی کو وا پس بھجوادی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وا لدین دو نو ں ہی ملا زمت پیشہ ہو ں تو ملا زم اس سے نا جا ئز فا ئدہ اٹھا تے ہیں۔بعض اوقات گھر میں رہنے والی ما ﺅ ں کی ذرا سی غفلت بچو ں کے مسا ئل کا سبب بنتی ہے۔اکثر بچے نوکروں کے ڈرانے دھمکانے کے باعث خوف زدہ ہوتے ہیں اور اپنے والدین سے ذکر نہیں کرتے۔کبھی کبھی ملا زم یا ملا زمہ بچوں پر تشدد بھی کرنے لگتے ہیں جس سے بچے ڈرتے ہیں۔ والدین کو اس وقت معلوم ہو تا ہے جب بچہ نفسیا تی مریض بن چکا ہو تا ہے اور مستقبل میں کسی منفی رحجان سے مقا بلہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
بچو ں میں خود اعتمادی اور شخصیت سازی کا عمل تو ہو ش سنبھا لتے ہی شرو ع ہو جا تا ہے ۔ایک نرم و نا زک پو دے کو تنا ور در خت بنانے کے لئے ہوا ،پا نی ،کھاد اور رو شنی کی طرح ہر شے کی ضرورت ہو تی ہے۔والدین سے بہتر با غبان کو ئی نہیں ہو سکتا ۔بچو ں کی جذ باتی و رو حانی تر بیت ان کی دیگر ضرو ریاتِ زندگی کی طرح ہی اہم ہے۔اکثر والدین اپنے اوربچو ں کے درمیان فا صلہ رکھتے ہیں۔ اس طرح بچے کچھ بتا تے ہو ئے ڈرتے ہیں۔والدین سو چتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری کھلا نے پلا نے اور دیگر ضروریات کی تکمیل تک محدودہے لیکن والدین سے التماس ہے کہ اپنے فرائض کا ہر پہلو پہچا نیں۔اصل دولت اولاد ہی ہے ۔بینک بیلنس یا جا ئدا دو ں کی مو جو د گی تب ہی بھلی لگے گی جب باغ میں یہ غنچے کھلیں گے ۔تعلیم و تر بیت کا وقت نکل جا ئے تو پھر ہا تھ نہیں آتا ۔
اکثر والدین اولادوں کو کئی کئی دن دو ستو ں یا رشتے دا رو ں کے ہا ں چھو ڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی لا پر وائی کے ز مرے میں آتا ہے ۔ اس حوالے سے آنکھ او جھل پہا ڑ اوجھل کی مثل تو آپ نے سنی ہو گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے گھرو ں کے ما حول سے بچے متا ثر ہو تے ہیں۔آپ کو کیا خبرکہ بچوں کو وہاں بھی کسی غیر یا نوکر کی جانب سے اسی طرزِ عمل کا سامنا کرنا پڑے ۔ بچو ں میں احساس محرومی ان کی آئندہ زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ما ں کے ذمہ ایک نسل کی پرورش ہوتی ہے جس پر قوم کے ساتھ ساتھ خاندان کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ملا زمت پیشہ ما ﺅ ں کو کو ئی ایسا لا ئحہ عمل اختیار کر نا چا ہئے کہ بچے نظر انداز نہ ہو ں۔
گز شتہ دنو ں چا ئلڈ اینڈ فیملی ہیلتھ سا ئنسز کی تحریر نظر سے گز ری جس میں والدین اور بچو ں کا تعلق اس طرح بیا ن کیا گیا کہ اسٹالر میں بیٹھا بچہ بھی مڑ مڑ کر ما ں کا چہرہ اسی لئے دیکھناچا ہتا ہے کہ وہ کچھ ہی دیر میں تنہا ئی اور تنا ﺅ محسوس کر نے لگتا ہے۔ ما ہرین کا کہنا ہے کہ بچو ں کے پا س تخیلات کا خزا نہ ہو تا ہے۔والدین کو اس پر نظر رکھنی چا ہئے۔بچے کوملا ز مین کے سپرد کر کے لا تعلق نہ ہو جا ئیںگاہے یہ لاپروائی ناقابل تلافی ثابت ہوسکتی ہے۔اپنی مصرو فیات کو کبھی آ ڑے نہ آ نے دیں۔ملا ز مین یا قریبی تعلقات والے ،جن پر آپ اندھا اعتماد ہی کیوں نہ کرتے ہو ں،ان پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی ایمر جنسی میں اپنی بچی کو اس کے امتحان کی وجہ سے کسی قریبی تعلق دار کے ہا ں چھو ڑ کر جا نا پڑا۔ واپس آنے میں کچھ دیر ہو گئی یعنی دو ہفتے مزید رکنا پڑا ۔اس تاخیر کے باعث بھی ہم ایک نئے تجربے سے دو چار ہو ئے۔گو کہ گھر میں کو ئی لڑ کا نہ تھا لیکن افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ بڑ ی عمر کے افراد سے بھی آنکھیں بند کر کے بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ہمارے دین اسلام کے اصول ہی ہما ری رہنما ئی کے لئے کا فی ہیں۔ان اصولوں کی پا بندی دین و دنیا میں سر خرو ئی کا با عث بنتی ہے۔اللہ تعا لیٰ نے قر آن کریم کے ذریعے انسان کو جو دا ئمی پیغام اور زندگی گزا رنے کالا ئحہ عمل عطا فرمایا ہے اس کے مطابق عمل کیا جا ئے توزندگی انتہائی سہل ہوجائے گی اور سکون و اطمینان مقدر ہو جائے گا۔
 

شیئر: