مرے شوہر اکنامکس میں طاق ہوگئے، زاہدہ ارشد
وہ ایسی شاپنگ کراتے ہیں جس میں کوالٹی بھی ملے، فیشن میں اِن بھی ہو
زینت شکیل۔جدہ
مالک حقیقی کی عبادت اسی کے لئے خاص رکھیں، اخلاص کے ساتھ تھوڑا سا عمل بھی دینی اور دنیاوی ثمرات کے اعتبار سے بہت پسندیدہ ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست میں موجود افراد کا مجموعہ،معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ تعلیم کی ا فادیت اسلام نے واضح طورپر بتا دی ہے۔ اسلام معاشرے میں توازن قائم کرتا ہے۔ علم کا حصول ہر ایک کے لئے ضروری قرار فرمایاگیا ہے۔ دنیا کے ہر فرد کو قدرت کی جانب سے فہم و ادراک عطا فرمایاگیاہے فہم انتخاب کا حق رکھتی ہے اور ا نتخاب معیار کی گواہی دیتا ہے۔ مخلصانہ علمی جد و جہد، مفید اور اصلاحی کوششیں، معاشرے کے افراد کو شاہکار بنا دیتی ہیں۔
بزرگوں کی وصیت پر عمل پیرا ہونا ، بہترین روایت کو آگے بڑھانا اہل مشرق کی عظمت کی دلیل ہے۔ اس ہفتے ہوا کے دوش پر ہماری ملاقات سید ارشد طیب اور ان کی اہلیہ محترمہ زاہدہ ارشد سے ہوئی۔ محترمہ زاہدہ ارشد کا کہنا ہے کہ تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس سے معاشرہ ترقی کی راہ پرگامزن ہوتا ہے۔ ارشد صاحب کے والد محترم سید محمد طیب نے اپنے بچوں کو وصیت کی تھی کہ علم کی روشنی پھیلانے کا اہتمام ساری زندگی کرتے رہنا۔ والدہ عزیز جہاں بھی بہت علم دوست شخصیت تھیں۔ والد صاحب کی یہ وصیت سب بچوں نے کسی نہ کسی درجے میں پوری کرنا اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ کئی بچوں نے خوددرس و تدریس کے شعبے کو اپنا لیا اور جنہوں نے یہ شعبہ نہ اپنایا، انہوں نے دوستوں کے ساتھ ، رشتے داروں کے ہمراہ مل کر ایسے اسکولوں کی بنیاد رکھی جہاں بچوں کو دینی اور مروجہ تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر محلے کے ، پھر اپنے شہر کے کسی بھی بچے کو داخلہ دیا جاتا ہے ۔ارشد صاحب نے نیشنل کالج کراچی سے گریجویشن کے بعد ایک معروف الیکٹرانکس کمپنی میں خدمات انجام دینی شروع کیں اور اس کمپنی کی جانب سے مملکت میں ریجنل مینیجر کی پوسٹ پر ڈھائی عشرہ گزارنے کے بعد امریکہ میں رہائش اختیار کی ۔ محترمہ زاہدہ اور ارشد صاحب کی بڑی صاحبزادی تانیہ نے دبئی سے فیشن ڈیزائننگ کورس میں داخلہ لیا ا ور بیچلرز پروگرام مکمل کیا۔ اب وہ شادی شدہ ہیں۔ ان کے شوہر ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اور تانیہ اپنے دونوں بچوں کی تربیت میں مشغول رہتی ہیں۔ ان کے بڑے صاحبزادے دانش ارشد بیچلرز پروگرام میں داخلہ لے کر تکمیل کے مراحل طے کر چکے ہیںجبکہ سب سے چھوٹے صاحبزادے مصطفی ارشد ہائی اسکول کے طالب علم ہیں۔ انہیں اکیڈمک سوسائٹی کی جانب سے سراہا بھی گیا ہے۔
محترمہ زاہدہ ارشد نے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہ کر اس اہم نکتے کو جانا کہ سیاست سے دور رہ کر طلبہ پہلے اپنی زندگی میں تعلیمی مراحل مکمل کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کی نشو ونما، تربیت اور تعلیمی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے ایجوکیشنل اور سوشل اسٹرکچر کو ٹھوس بنیادوں پر قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی حالات، سیاسی تغیرات اور معاشی ناہمواریوں نے نوجوانوں کو اپنی راہ سے ہٹا دیا ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ دیوار کی پہلی اینٹ مضبوطی سے رکھ دے۔ تعلیمی اداروں میں مورل کوچنگ، سائنس اور کاونسلنگ ہونی چاہئے۔ صرف کتابیں پڑھ لینا، نمبر لے آنا اور پاس کر لینا ، یہ کرائی ٹیریا نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر سبق سمجھنا چاہئے، پھر یاد کرنا چاہئے، اس طرح ذہن نشو و نما پائے گا۔ نوجوانوں میں ذہنی کاوش کی صلاحیت بیدار ہوگی۔محترمہ زاہدہ کاکہنا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر نعمت موجود ہے۔ خاندانی معاملات بگڑ گئے ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام ہر طرح سے فائدہ مند ہے۔ اس سے انفرادی طور ہر کسی پر زیادہ بوجھ نہیں آتا۔ سب مل کر ہر کام میں اپنا کردار اداکرتے جاتے ہیں۔
بیرون ملک رہتے ہوئے اسی ایک چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ زاہدہ صاحبہ اپنے تمام رشتہ داروں کو گاہے بگاہے دعوت دیتی ہیں اور شاندار ڈنر کا اہتمام خود گھر پر کرتی ہیں۔ کبھی کبھی مختلف ممالک سے آئے ہوئے احباب کی دعوت بھی شوق سے کرتی ہیں جس میں ا پنے خاندان کو بھی مدعو کرتی ہیں۔ اسکول کے بارے میں ہم نے ارشد طیب سے جاننا چاہا کہ ایسا کیا سلسلہ قائم ہو کہ ہر بچے تک تعلیم کے حصول کا دروازہ کھل جائے۔ ارشد صاحب نے بتایا کہ ہمارے ملک میں بہترین اذہان اور لاجواب اخلاقیات آج بھی بہتری کے لئے اپنی کوششوں میں مصروف ہیں جہاں لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اہمیت دے کر زندگی کے بہترین ایام ضائع کر دیتے ہیں، وہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی زندگی کا کوئی دور بغیر کام کئے نہیں گزارتے۔ اپنے لئے کام کرنا، اپنے لوگوں کے لئے کام کرنا اور اس طرح پورے معاشرے کو بہترین بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔ تعلیم انسان کی بنیادی ضرورت ہے اس لئے اس کا اہتمام بھی ضروری اور اہم ہے۔ ہر تعلیم یافتہ فرد کم از کم ایک فرد کو ضرور پڑھائے۔ چند لوگوں کی تعلیم کا ذریعہ بنے یعنی معاشی طور پر کچھ نہ کچھ سپورٹ ایسے لوگوں کی کرنی چاہئے جو معاشرے میں ضرورت مند ہیں۔ میں تو انہیں غریب نہیں کہتا کیونکہ میرے نزدیک کوئی بھی انسان غریب نہیں، چاہے وہ دولت و ثروت میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ ہر ایک کی عزتِ نفس ہوتی ہے۔ معاشرے میں رہنے والوں کی ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے افراد کی مورل ایجوکیشنل سپورٹ کرے۔ یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
ارشد صاحب کا خیال ہے کہ ہمارے بنیادی مسائل اتنے زیادہ نہیں کہ جن کو اجتماعی طور پر حل نہ کیا جا سکے۔ اس کے لئے صرف باشعور لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ریاست بھی اپنی ذمہ داری ضرور پوری کرے گی کیونکہ حکمراں تو در اصل معاشرے میں رہنے والے لوگوں کا ہی آئینہ ہوتے ہیں۔ جیسے لوگ ہوں گے، ان پر حکمراں بھی ویسے ہی آئیں گے۔ ہر ایک چیز سوچ کا زاویہ بدل جانے سے تبدیل ہو سکتی ہے۔ اچھا معاشرہ بہترین سوچ کے تحت تشکیل پاتا ہے۔
زاہدہ ارشد نے بتایا کہ بیرون ملک 16سال کے بعد بچوںکے پارٹ ٹائم جاب یا ووکیشنل اسکولز میں نوکری کرنے کو سراہا جاتا ہے۔ اس طرح پڑھائی کے دوران ہی وہ کمانے بھی لگتے ہیںاور اس طرح سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے اور ان کا وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ جتنا پوٹیشنل نوجوانوں میں ہوتا ہے، اس کے لحاظ سے ان کی جاب بھی ہونی چاہئے۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومت ا ور مقتدر طبقے کا فرض ہے۔ اس طرح ایک معاشرہ تعلیم، صحت، خوراک ، صاف پانی ا ور زندگی کی بنیادی ضرورتوں، گیس بجلی اور پانی ہر شے سے مستفیض ہو سکے گا۔
ارشد صاحب کا پرزور اصرار ہے کہ اجتماعی طور پر اس بات کی کوشش کی جانی چاہئے کہ تمام اسکولوں کا نصاب ایک ہو اور ہر بچے کو تعلیم کے مواقع بھی یکساں طور پر میسر ہوں۔ زاہدہ صاحبہ نے بھی اس بات پرمثبت رائے دی کہ پورے معاشرے کو صرف ایک نہیں بلکہ ہر ایک پہلو پر تدبر کے ساتھ ، ایک ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس طرح معاشرہ کم وقت میں ترقی کے مراحل بآسانی طے کر لے گا۔ اسکول کے طلبہ کے لئے پارٹ ٹائم جاب ، ووکیشنل اسکولز میں داخلے، ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس اور تعمیراتی اداروں میں جگہ دینی ضروری ہے۔ ہر طالب علم تعلیم اور روزگار کو ساتھ ساتھ لے کر چلے۔ اس سے معاشرہ تیزی سے ترقی کرے گا۔زندگی میں نظم پیدا ہوگا، ریاست کے قوانین آسانی سے خود پر لاگو کئے جا سکیں گے۔ غربت و امارت کا فاصلہ سمٹتا جائے گا۔ ہر انسان اپنی وسعت میں رہ کر معاشرے کے لئے بہترین کام کرتا رہے۔ تعلیم یافتہ افراد جن کی مالی حیثیت مستحکم ہے، اپنے ہم وطنوں کے لئے تعلیم اور روزگار کے وسائل پیدا کریں۔ ایمانداری اور سچائی سے کیاجانے والا کام ضرور رنگ لائے گا۔
زاہدہ صاحبہ کا تعلق ممبئی گھرانے سے ہے جبکہ ارشد طیب کا خاندان الٰہ آباد، لکھنو سے تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ دونوں علاقے برصغیر کے ہی ہیں تاہم طرزِ معاشرت اور رہن سہن کے اطوار بالکل مشترک یوں ہوگئے کہ ایک کراچی میں ہی دونوں خاندان کئی عشروں سے رہے سہے تو شادی کے بعد دونوںخاندانوں میں کوئی الگ چیز ایسی نہ تھی جو مشکل کا باعث بن سکتی۔ زاہدہ صاحبہ نے بتایا کہ میرے شوہر ارشد ، امریکہ میں رہنے کی وجہ سے اکنامکس میں بھی طاق ہو گئے ہیں۔یہ ایک ایسا سائنسی مضمون ہے جس میں گھر کی گروسری سے لے کر فیشن ڈیزائن کانیا کلیکشن تک خریداری میں شامل ہوتا ہے۔ جہاں ارشد صاحب بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیتے ہیں، نئی نئی فیلڈز سے متعارف ہونا ضروری خیال کرتے ہیں وہیں بہترین شاپنگ بھی کراتے ہیں وہ بھی ایسی شاپنگ جس میں کوالٹی بھی ملے، برانڈ بھی اچھا ہو اور وہ فیشن میں اِن بھی ہواور پسند بھی آئے۔ چاہے گھر کی سجاوٹ کی اشیاءہوں، فرنیچر یا پردے وغیرہ، گھر کی ہر دیوار کی کلر کامبی نیشن کے لحاظ سے پردے، صوفے کا کلیکشن مکمل کرنا ہو یا پھر بیک یارڈ میں پودوں کی ترتیب ہو، ہر چیز میں ارشد صاحب خوب محنت سے آنکھوں کو بھلا لگنے والا کامبینیشن سلیکٹ کرتے ہیں۔ کپڑے، جوتے، ہینڈ بیگز جو ارشد صاحب پسند کرتے ہیں، گھر بھر کو پسند آتے ہیں۔ اکثر مل کر شاپنگ کرنے جاتے ہیں۔ کبھی آن لائن شاپنگ سے بھی کام چلا لیتے ہیں۔
زاہدہ بتا رہی تھیں کہ ارشد طیب کا خاندان چونکہ یہیں رہائش رکھتا ہے اس لئے میں ا کثر گیٹ ٹو گیدر کا اہتمام کر لیتی ہوں۔ کبھی دوسرے ممالک سے احباب یا رشتہ دار وزٹ کرتے ہیں تو انہیں استقبالیہ بھی بہترین انداز میں دیتی ہوںتاکہ سب کے لئے یہ موقع یادگار بن جائے۔ کھانا پکانا اچھا لگتا ہے۔ گھر کو سجانے کا وقت بھی مجھے مل جاتا ہے، بچے بھی ساتھ دیتے ہیں۔
ارشد طیب کا کہناہے کہ جب شادی ہوئی، اس وقت تک پاکستان میں بھی مشترکہ مایوں ، مہندی کا فنکشن ارینج کیاجانے لگا تھاتو ہماری تقریبات بھی اسی انداز میں ہوئیں کیونکہ دونوں خاندان عرصے سے کراچی میں ہی رہائش رکھتے تھے تو کھانے پینے یا رہن سہن کا مختلف ہونا اثر انداز نہ ہوا۔ بلا شبہ تمام رسمیں خوشیوں کو بڑھانے والی ہوتی ہیں۔ لوگوں نے تمام تقریبات کو یادگار بنایا۔ تصاویر اور وڈیوز بھی بنیں۔زاہدہ صاحبہ خادمہ کے ساتھ مل کر 150تا250لوگوں کی دعوت کا اہتمام گھر پر ہی کر لیتی تھیں۔ اب امریکہ میں آ کر دراصل انہوں نے خود ہی سارا کام کرنا شروع کیا لیکن ان کی دعوت خاندان بھر میں مشہور ہے تو وہ جب میرے گھر والوں کو یعنی خاندان والوں کو دعوت میں بلاتی ہیں تو بھی 60، 70افراد ضرور شریک ہوتے ہیں۔ ان کی ضیافت کا اہتمام وہ اکیلے خود ہی کر لیتی ہیں۔ مختلف قسم کے باربی کیو بناتی ہیں۔ بچے بھی شوق سے بار بی کیو کا پروگرام بنا لیتے ہیں، حلال دکان پر سب اشیاءبآسانی مل جاتی ہیں۔