وہ ہر جگہ سبز ہلالی پرچم دیکھنا چاہتی تھی
وہ سوچ رہی تھی کہ ہمیں استطاعت کے مطابق لوگوں کی مدد کرنی چاہئے
ام مزمل۔ جدہ
وہ ہر جگہ سبز ہلالی پرچم دیکھنا چاہتی تھی۔ لوگوں کو پورا پروگرام سمجھا رہی تھی کہ تم سب کو سبز رنگ کا ٹھنڈا میٹھا شربت ہی ملے گا ۔جب تم سب لوگ ٹرانسپیرنٹ گلاس کے اوپر گلاس پینٹ سے پاکستان کی قومی شناخت یعنی ہماراسبز ہلالی پرچم خود پینٹ کرکے لاوگے اور یہ بھی ایک سرپرائز ہو گا کہ پہلے 10انعام کے حقداروں کو دادی جان کونسا انعام دیں گی۔ ہم سب رشتہ داروں نے مل کر پرچم تیار کیا اور گلاس پینٹنگ میں مصروف ہوگئے۔ چند کزنز نے اپنے دوستوں کو بھی اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دے دی پھر کیا تھا اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی سب نے گلاس صرف شیشے کے ہی نہیں بلکہ خود چاکی پر جا کر جس میں مٹی سے برتن تیار ہوتے ہیں، وہاں ظروف بنانے کی پریکٹس کرنا شروع کر دی۔ مٹی کے بنے برتن کو پینٹ بھی کیا۔ مٹی کے برتنوں کو بھٹی میںپکایابھی گیایعنی مضبوط بنایا گیا ۔اس کو سرامکس برتن بھی کہتے ہیں۔پروگرام بنا کہ ہر فرد کم از کم ایک درجن چیزیں تیار کرے۔ اس میں گلدستے رکھنے کا اسٹینڈ، گلدان، واٹر سیٹ، ڈنر سیٹ ، دیگچیاں اور گھریلو سجاوٹ کی تمام چیزیں شامل ہوں گی ۔جو دادی جان انعام دیں گی وہ اس کا ہو گا اور پھر یہ بھی سب لوگوں کو بتا دیا گیا کہ یہ سب چیزیں اسی ماہ یکم اگست سے 14اگست تک بنائی جائیں گی، وہ سب گاوں اور بستیوں میں تقسیم کر دی جائیںگی۔ وہ حب الوطنی کا تحفہ ہو گا۔ اس سے خوشی بھی ملے گی اور خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرنے میں مزہ بھی خوب آئے گا۔ گاوں پہنچے تو وہاں دیکھا بید کی کرسیاں بنائی جا رہی تھیں، جو ٹ کے تنکوں سے بڑے بڑے تھال بنائے جا رہے تھے اور اس طرح کے دوسرے کام لوگ بڑی محنت و مشقت سے کر رہے تھے۔ اب تو سب کوبھی خوش ملی اور خواہش دل میں پیدا ہوئی کہ ہم بھی ایسے ہی تخلیقی کام کریں کہ جس سے آمدنی کی صورت پیدا ہو اور اس سے ہم دوسرو ں کی مدد کر سکیں۔
یہ جو پروگرام بنایا تھا ،اس کا یہی مقصد تھا کہ پڑھائی لکھائی سب اپنی جگہ درست ہے لیکن کوئی نہ کوئی ہنر تو ضرور آنا چاہئے۔ اس سے شخصیت میں اعتماد آتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے رزق حلال کمانے کا لطف ہی کچھ اور ہے ۔ایسی روحانی خوشی نصیب ہوتی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اب تو حصہ لینے والوں کی تعداد میںخوب اضافہ ہو رہا تھا۔ہر کسی نے اپنے اپنے تعلیمی اداروں کو بھی دعوت دے دی کہ ہم اجتماعی طور پر اس پراجیکٹ پر کام کرتے ہیں۔اس طرح ہر اسٹوڈنٹ گاوں کی ہریالی بھی دیکھے گا ، وہاں کی ثقافت سے بھی روشناس ہو گا اور وہا ں کی مخصوص چیزوں میں سے کسی نہ کسی ایک ہنر کو ضرور سیکھے گا۔ اس طرح بلوچی، سندھی، سرحدی، اور پشتو ہر قسم کے ملبوسات پر کی جانے والی کڑھائی سیکھنے کا پروگرام بنایاگیا۔ ہینڈ بیگ اور دیواروں پر سجاوٹ کی چیزیں بھی سیکھنے کا شوق ظاہر ہوا۔ اب تو کوئی20یونیورسٹیاں اور کالجز سے اسٹوڈنٹس روانہ ہوئیں اس میں کچھ فیملز نے ایسا انتظام کیا کہ صرف انتظامیہ پر ہی ذمہ داری نہ رہے بلکہ طالب علم کے گھر سے کم از کم ایک فرد ضرور ساتھ جائے۔ اس طرح تنظیم و ترتیب میں آسانی رہتی ہے۔ وہاں دوسری جگہ پہنچ کرسب کچھ منظم کیا جا سکتا ہے اور اس طرح لوگوں نے اپنے گاوں میںرہنے والے رشتہ داروں کی مدد سے سیکڑوں فیملیز کیلئے کئی گیسٹ ہاوسز کی جگہ مختص کرالی۔ بعدازاں سب نے ایک چھوٹا سا شہر بسا لیا۔ چاروں طرف کینو س پر صبح و شام درجن بھر طلباءوطالبات سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے کے وقت تک کی تصاویر پینٹ کرنے لگے۔ گاوں کا موسم ، صبح کی شفاف ہوا، ہلکی ہلکی پھوار اور ریشمی پھولوں کی مہکتی فضا ،ایسا محسوس ہوتا کہ سورج کی پہلی کرن آسمان پر سیاہ شب میں سفید دھاگے جیسی چمکتی ، پو پھٹنے کی اطلاع دے رہی ہے۔ اس وقت پوری کائنات بدل سی جاتی ہے۔ سورج کی کرنیں ہوا میں شامل ہو کر ایک طاقتور قوت پیدا کرتی ہیں جو ہر ذی روح کوقوت دیتی ہے۔ نماز کی ادائیگی زندگی کو منظم کرتی ہے ۔ ہر کام بروقت ہوتا ہے اورنیچے چٹان اور لہلہاتے کھیت ، وادیاں اور ہریالی ایسی قیمتی سرزمین، گویا ہمیں نعمت غیر مترقبہ مل گئی ہے۔ لازم ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں اور جن لوگوں سے ناانصافی کی گئی ہے اس کا مداوا بھی کریں اوریہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم خود اپنے ملک کو طاقتور بنائیں گے۔ سب نے دادی جان کو اس لئے ساتھ رکھا تھا کہ انسان جلد ساری باتیں بھولتا جاتا ہے۔ اس لئے ہر وقت معاشرے کو عمر رسیدہ ا فرادکی ضرورت رہتی ہے جو اپنے تجربات ، مشاہدات سے قیمتی اسباق کم وقت میں اپنی نسل نو کوسکھا دے۔ وہاں روزانہ کوئی نہ کوئی پروگرام ترتیب دے دیا جاتا ۔ایک گروپ برتن بنانے میں مشغول ہو جاتا ،دوسرا گروپ اس پر پینٹ کرتا ۔کسی جگہ وہی برتن بھٹی میں ڈال کر بنایا جاتا ،پکے ہوئے برتن سرامکس بنائے جاتے جن کی مانگ آج کل بہت ہے۔ ایک گروپ نے موقع اچھا دیکھا کہ زرعی شعبے میں کس طرح ترقی کے اسباب پیدا کئے جائیں تو کھیتوں پر کام کرنے بھی جانے لگے۔ اس طرح بیچ لگانے سے پنیری بننے اور اس کی دوبارہ بوائی بھی سیکھی۔ ٹیوب ویل لگوانے کا انتظام بھی کئی جگہ کیا۔ ایک طالب علم نے مشورہ دیا کہ ہر جگہ ہر گلی کے اختتام پر ایک ایسا کنواں کھودا جائے جس میں اوپر ہینڈ پمپ کا انتظام موجود ہو۔ لوگوں کو صاف شفاف اور پاکیزہ پانی ملا کرے۔ شہر میں موجود پینے کا پانی پلاسٹک کی بوتل میں عام دستیاب ہوتاہے جو دھوپ میںرکھی رہتی ہیں۔ اس سے انسانی جلد پر بہت خراب اثرات ظاہر ہو رہے ہیں لہٰذا اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ تازہ شفاف پانی کا انتظام ہو اور ہر محلے میں کنواں کھودا جائے ۔ اس طرح ہر محلہ کم از کم خراب اور بیماری پھیلانے والے پانی سے نجات پائے گا۔ صحت کا پہلا اصول یہی ہے کہ شفاف پانی اور تازہ غذا کو خوراک میں شامل کیا جائے۔ پھل، سبزیاں سب تازہ ہوں ، فریج اور فریزر میں دو یا تین ہفتے بعد پکا کر رکھی گئی ہر چیز کو ختم کرنا چاہئے اس سے زیادہ رکھے جانے والی چیزیں پکی ہوئی یا بغیر پکی ، سب کواستعمال کرلینا چاہئے۔ خود کو چاق و چوبند رکھنے کیلئے جم جانے کی بجائے ہر سہ ماہی گاوں کا سفر اختیار کرنا چاہئے اور محنت و مشقت کر کے اسمارٹ بن جانا چاہئے ۔ اپنے ملک کی سونا اگلتی زمین سے اپنے لئے بھی حق حلال کی روزی کا بندوبست کرنا چاہئے او راپنے دینی بھائیوں کی بھی اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرنی چاہئے۔ وہ دادی جان کی بات ذہن میں دہرا رہی تھی کہ ہر انسان جو دوسروں کی بھلائی کیلئے قدم اٹھاتا ہے اس کی اپنی بھلا ئی اسی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔