غسل کرنا ، سر دھونا اور سرمہ لگانا، مباحات احرام
حنابلہ اورشوافع کے نزدیک غسل کیلئے خوشبو دارصابن استعمال کیاجاسکتا ہے اوراحناف کے نزدیک صرف وہ صابن جائز ہے جس میں خوشبو نہ ہو
محمد منیر قمر۔ الخبر
بعض امور ایسے ہیں جو احرام کی حالت میں جائز ہیں جنہیں فقہ اسلامی میں’’ مباحاتِ احرام‘‘ کہاجاتا ہے مگر بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے ناحق پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اورسمجھ لیتے ہیں کہ شاید احرام کی حالت میں انسان مشکلات میں جکڑ جاتا ہے۔ان کے نزدیک احرام باندھ لینا گویا پابند سلاسل اورپابجو لاںہوجانے کے مترادف ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں بلکہ شریعتِ اسلامیہ نہات آسان ومتوازن اورفطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔ اس نے احرام کی حالت میں بھی کئی ضروری امور جائز اورمباح قراردیئے ہیں مثلاً:
غسل کرنا :
اگر بدخوابی کی وجہ سے نہانے کی ضرورت پیش آجائے یا صرف گرمی سے ٹھنڈک حاصل کرنا اورپسینہ دورکرنا ہو تو ہر شکل میں غسل کرنا جائز ہے۔غسلِ جنابت کے جواز پر توتمام ائمہ مذاہب کا اتفاق ہے کیونکہ صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورمسوربن مخرمہؓ کااحرام کے دوران غسل کے بارے میں اختلاف رائے ہوگیا جبکہ وہ ’’ابواء ‘‘نامی مقام پر تھے ۔حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : احرام والا سر دھوسکتا ہے اورحضرت مسورؓ نے فرمایا: احرام والا سر کو نہ دھوئے ۔ حضرت ابراہیم بن عبداللہ بن حنینؒ اپنے والد کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہیںسیدنا ابن عباسؓ نے سیدنا ابوایوب انصاری ؓ کی طرف بھیجا ۔حضرت عبداللہ بن حنین فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوایوب انصاری ؓ کو کنویں کے پاس کپڑے کی اوٹ میں غسل کرتے پایا ،میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے پوچھا :کون ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے ابن عباسؓ نے آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے پوچھوں کہ نبی احرام کی حالت میں کس طرح سر اقدس کو دھویا کرتے تھے ؟ سیدنا ابوایوب انصاری ؓ نے پردے والے کپڑے پر ہاتھ رکھا جس سے وہ کپڑا کچھ سکڑ گیا حتیٰ کہ سیدنا ابوایوب انصاری ؓ کاسر مجھے نظر آنے لگا پھر انہوں نے کسی کو کہا کہ میرے سر پر پانی ڈالو:اس نے ان کے سر پرپانی ڈالا ۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کو خوب ہلایا اورسر کے آگے تک اورپیچھے تک ہاتھوں کو پھیرا (یعنی مل کر سر کو دھویا) اورپھر فرمایا : میں نے نبی کو ا س طرح کرتے دیکھا ہے ۔‘‘
حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ابن عیینہ کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں :
’’میں ان دونوں کی طرف لوٹ کر گیا اورانہیں یہ جواب بتایا تو سیدنامسور ؓ نے سیدناابن عباسؓ کو کہا کہ آج کے بعد میں کبھی بھی آپ سے بحث نہیں کروں گا (یعنی ان کے علم وفضل کااعتراف کرلیا)۔‘‘
اس سے آگے حافظ ابن حجر ؒ مزید لکھتے ہیں :
’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام کی حالت میں غسل کرنا اور محرم کااپنے سر کوخوب مل کر دھونا جائز ہے جبکہ بالوںکے گرنے کا خدشہ نہ ہو ۔ ایسے ہی وضو کے وقت احرام کی حالت میں بھی داڑھی کے بالوں کا خلال کرنا مستحب ہے۔ ‘‘
سر کو مل کر دھونا :
ا س حدیث سے جوازِ غسل کے علاوہ سر کو دونوں ہاتھوں سے خوب مل کر دھونے کے جواز کا بھی پتہ چلتا ہے اورظاہر ہے کہ سر کو مل کر دھونے میں کسی بال کے ٹوٹنے اورگرنے کاگمان غالب ہوتا ہے ا س کے باوجود جب نبیسے سر کو مل کر دھونے کاثبوت ملتا ہے تو اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دورانِ غسل اگر سر یابدن کے کسی حصہ سے کوئی بال ٹوٹ کر گرگیا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔سر کو دھونے کے جواز پر جمہور اہل علم اوراکثر ائمہ مثلا ًامام ابوحنیفہ ،امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، اوزاعی،اسحاق بن راہویہ اورسفیان ثوری وغیرہ کااتفاق ہے۔ایسے ہی حنابلہ اورشوافع کے نزدیک غسل کیلئے خوشبو دارصابن بھی استعمال کیاجاسکتا ہے اوراحناف کے نزدیک صرف وہ صابن جائز ہے جس میں خوشبو نہ ہو ۔
سر دھوتے وقت اس کا ڈھک جانا :
غسل کے جواز اورسر کو مل کر دھونے کا ثبوت توخود نبی اکرم سے مل گیا جبکہ خلفائے راشدین میں سے امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کا اثر بھی موطا امام مالک اورمسند امام شافعی میں ہے جس سے احرام کی حالت میں ان کے سر دھونے کا پتہ چلتا ہے جس میں ان کے الفاظ ہیں :
’’پانی سر کے بالوں کی پراگندگی میں اضافہ ہی کرتا ہے ۔‘‘
امام شوکانیؒ نے نیل الاوطا ر میں لکھا ہے کہ سر کو دھوتے وقت ہاتھوں سے جو سرڈھک جاتا ہے وہ بھی جائز ہے اوران کا استدلال سابقہ حدیث سیدنا ابو ایوب انصاری ؓ سے ہے۔اگر پانی میں غوطہ لگایا جائے توظاہر ہے کہ اس سے بھی سرپانی کے نیچے آجاتا اورڈھک جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ مسند شافعی وسنن بیہقی میں سیدناابن عباس ؓ سے مروی ہے :
’’ہم جحفہ کے مقام پر احرام کی حالت میں تھے کہ مجھے حضرت عمر ؓ نے کہا: آئو پانی میں غوطہ لگاکر دیکھیں کہ ہم میں سے زیادہ لمبی سانس کس کی ہے ؟‘‘
احرام کو بدلنا یا دھونا :
احرام کے طورپر باندھی ہوئی چادروں یا عورتوں کے لباس کوکوئی غلاظت لگ جائے یا وہ زیادہ میلے ہوجائیں توانہیں دھویا بھی جاسکتا ہے اوراگر دوسرے نئے کپڑے موجود ہوں تو انہیں بدلنا بھی جائز ہے ۔اس سلسلہ میں سیدنا ابن عباس ؓ سے صحیح بخاری میں تعلیقاً ًاوردارقطنی وبیہقی میں موصولاًمروی ہے :
’’محرم حمام میں جا(نہا)سکتا ہے اور داڑھ نکال (یا نکلوا)سکتا ہے۔ اگر کوئی ناخن ٹوٹ جائے تو اسے اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے اوروہ کہاکرتے تھے کہ اپنے آپ سے میل کچیل دور کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔‘‘
انہی کے بارے میں سنن بیہقی میں مروی ہے کہ وہ مقام جحفہ پر احرام کی حالت میں نہانے کیلئے حمام میں داخل ہوئے توانہیں کہاگیا کہ احرام کی حالت میں آپ حما م میں جارہے ہیں توانہوں نے فرمایا ’’اللہ کو تمہارے میل کچیل سے کوئی غرض نہیں ۔‘‘
یہ بات جس طرح غسل کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ویسے ہی کپڑے (احرام) دھونے کے بارے میں بھی ممکن ہے جبکہ حضرت جابرؓ کا کہنا ہے :
’’محرم غسل کرسکتا ہے اوراپنے احرام والے کپڑے دھوسکتا ہے ۔ ‘‘
ان آثار صحابہؓ سے احرام کے گندے کپڑوں کو دھونے کے جواز کا پتہ چلتا ہے اوربدل کرنئے کپڑے پہن لئے تو بھی وہی بات ہے۔
سایہ کرنا :
احرام کی حالت میں دھوپ کی تمازت سے بچنے کیلئے چھتری ، کپڑے، خیمے، گاڑی کی چھت یاکسی بھی چیز کے سائے میں بیٹھنا جائز ہے اور اس کاثبوت خود نبی اکرم سے صحیح احادیث میں موجود ہے۔سیدنا جابرؓ سے مروی وہ معروف حدیث جو صحیح مسلم اوردیگر کتب میں بھی ہے جس میں حجۃ النبی کاآنکھوں دیکھا حال اورتفصیلی وقائع کی تصویر کشی کی گئی ہے، اس میں وہ فرماتے ہیں :
’’آپ نے وادیٔ نمرہ میں خیمہ نصب کرنے کا حکم فرمایا ،جب آپ عرفات کی طرف روانہ ہوئے تو نمرہ میں اپنے لئے خیمہ نصب پایا ۔ آپ اس میں تشریف لے گئے یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا…‘‘
ایسے ہی صحیح مسلم اورمسند احمد میں حضرت ام حصینؓ بیان فرماتی ہیں :
’’میں نے اسامہ اوربلال ؓ کو دیکھا، ان میں سے ایک نے نبی کی اونٹنی کی نکیل پکڑی ہوئی تھی اوردوسرے نے اپنے کپڑے سے نبی کو دھوپ سے بچانے کیلئے سایہ کیا ہواتھا ۔یہ سلسلہ آپ کے جمرہ عقبہ پر رمی کرلینے تک بحال رہا ۔
یہ دونوں حدیثیں اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں کہ بوقتِ ضرورت کسی بھی چیز کا سایہ کیاجاسکتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
ایسے ہی بعض آثار صحابہؓ سے بھی سایہ کرلینے کے جواز کا پتہ چلتا ہے مثلاًامیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ میں عبداللہ بن عامر کی روایت ہے :
’’میںسیدناعمر فاروق ؓ کے ساتھ نکلا وہ درخت پر چمڑے کاچادر نما ٹکڑا ڈال کر سایہ کرتے اور اس کے نیچے بیٹھتے تھے جبکہ وہ احرام کی حالت میں ہوتے تھے ۔ ‘‘
امام عطاءؒ فرماتے ہیں کہ مُحرم دھوپ سے بچنے کیلئے سایہ میں بیٹھ سکتا ہے اورآندھی وبارش سے بچنے کیلئے بھی کسی چیز کا(سریا منہ کیلئے )سہارا لیاجاسکتا ہے۔
حضرت ابراہیمؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسود بن یزیدؒ نے احرام کی حالت میں اپنے سر پر چادر ڈال لی اوراس طرح وہ بارش سے اپنا بچائو کررہے تھے ۔
ان آثار ، صحابہ وتابعین سے معلوم ہوا کہ ایسے ہنگامی حالات میں سر پر کوئی چیز ڈال لینے سے بھی احرام پر کوئی اثر نہیں پڑتا اوربوقت ضرورت کوئی چیز سر پر اٹھالینے کا بھی یہی حکم ہے البتہ اگر کوئی شخص بھول کر اپنے سرکو کسی پگڑی، ٹوپی یا رومال سے ڈھانپ لے تواحناف کے نزدیک اس پر فدیہ ہے جبکہ معروف تابعی امام عطاء کا قول ہے کہ اس پر کوئی فدیہ نہیں، بس اس بھول پر استغفار کرلے اورشافعیہ کا بھی یہی مسلک ہے اوریہی مسلک شرعی قاعدہ کے اعتبار سے (کہ بھول چوک معاف ہے)زیادہ صحیح ہے۔
آنکھوں میںسرمہ یا دوا لگانا :
آنکھیں دکھتی ہوں یا پسینے اورغبار کی وجہ سے بوجھل ہورہی ہوں تو سرمہ یاکوئی دوا (آئی ڈراپس ،آئی ٹیوب )استعمال کرنا جائز ہے جیساکہ صحیح مسلم میں سیدنا عثمان ؓ سے مروی ہے :
’’وہ نبی اکرم سے بیان کرتے ہیںکہ ایک آدمی نے آنکھیں دکھنے کی شکایت کی جبکہ وہ احرام کی حالت میں تھا توآپ نے اس کی آنکھوں پر ’’صبر‘‘(ایلوا)نامی بوٹی کی پٹی باندھی ۔‘‘
غرض کوئی بھی دو ااورسرمہ استعمال کیاجاسکتا ہے بشرطیکہ وہ خوشبو دار نہ ہو اوردوا کے طورپر اس کے جواز پرعلماء کا اجماع ہے۔ محض زینت کیلئے سرمہ لگانا مناسب نہیں لیکن اگر کوئی لگاہی لیتا ہے توبھی اس پر کوئی فدیہ نہیں۔ اس بات پر امام ابن قدامہؒ نے تمام ائمہ وفقہاء کااتفاق نقل کیا ہے ۔