Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امت کی طاقت وکمزوری کا دار ومدار ، دین

ہم جس قدر دوسروں کے عقیدے پر یقین رکھیں گے، جس قدر ان کی مدد کے طلبگار ہوں گے ، اسی قدر ان کے سامنے ذلیل وخوار ہوں گے
* * * مولانانثار احمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن* * *
ایک زمانہ تھا کہ امت مسلمہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھی، اس کی تہذیب ساری تہذیبوں پر غالب تھی، ان کے علم وفن کی طوطی بولتا تھا، ساری دنیا کی قومیں امت مسلمہ سے تہذیب وثقافت سیکھتی اور ان سے ترقی وخوشحالی کا درس حاصل کرتی تھیں، امت مسلمہ ہر میدان میں آگے تھی۔ رسول اللہ کی بعثت کے ساتھ ہی اس دنیا میں نور الٰہی کی کرنیں پھوٹیں اور ہر چہارجانب پھیلتی چلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نور کا انتظام اس لئے کیا کہ وہ انسانوں کو ظلمت وتاریکی کے دور سے نکال کر انہیں رشد وہدایت ، علم وحکمت ، الفت ومحبت ، امن وسلامتی اور میل ملاپ کی روشنی میں داخل کردے، اس نور ہدایت اور ضیائے علم وحکمت کی آمد کے بعد امت مسلمہ ترقی کرتی رہی، ہمیشہ قدم آگے بڑھاتی رہی، یہاں تک کہ دنیا کی ساری قومیں علم وحکمت ، تحقیق وجستجو ، ترقی وخوشحالی ، تہذیب وتمدن اور متوازن نظام حکمرانی میں اس کی دست نگر ہوگئیں، مسلمان ہر میدان میں ان سے آگے رہے اور قیادتِ عالم کا فریضہ انجام دیتے رہے۔اس نے اسلام کے ذریعہ انسانیت کی پاسبانی کی اور انسانیت کے قافلے کی حق وصداقت اور امانت ودیانت کے ساتھ رہبری کی۔
انہوں نے اسلامی تعلیمات، خدائی احکام اور فطری نظام کو بڑی خوش اسلوبی سے روئے زمین پر نافذ کیا اور انسانوں کو چین وسکون ، امن وامان ، خوشحالی وآزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ اسلام اور امت مسلمہ کا یہ کارواں اسی نہج پر رواں دواں رہا، مگر چند صدی بعد ہی مسلمانوں میں کمزوریاں گھر کر گئیں، ان کا رشتہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے کمزور پڑتا اور ٹوٹتا رہا، وہ اپنے راستے سے ہٹ گئے ، ہمارا قافلہ جس شاہراہ پر رواں دواں سفر کررہا تھا، وہ اس سے منحرف ہوگئے، یہاں تک کہ وہ بہتر کے بجائے معمولی اور گھٹئے کو پسند کرنا شروع کردیا۔ ان کے لئے ترقی وعروج کا جو ذریعہ تھا، اس سے منہ موڑ کر انہوں نے حقیر وچھیچھڑوں کو پسند کرنا شروع کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ترقی نہ صرف رک گئی بلکہ عروج زوال میں تبدیل ہوگیا۔ 16ہجری میں مسلمان فوجیں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شام کو فتح کرتے ہوئے فلسطین تک پہنچ گئیں۔
عیسائی بیت المقدس میں قلعہ بند ہوگئے اور مسلم فوجوں نے ان کو اپنے محاصرہ میں لے لیا۔ اس وقت عیسائیوں کی جانب سے صلح کی پیشکش ہوئی، جس میں ایک خاص شرط یہ تھی کہ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق ؓ خود آکر عہد نامہ کی تکمیل کریں۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے عیسائیوں کی اس پیشکش سے امیر المومنین کو مطلع کیا۔حضرت عمر ؓ مشورہ کے بعد فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپؓ جب اسلامی لشکر سے ملے تو اس وقت آپ کی یہ حالت تھی کہ جسم پر ایک تہبند اور کرتے پر متعدد پیوند لگے ہوئے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے عرض کیا: امیر المومنین! آپ کو عیسائیوں کے فوجی افسروں اور بڑے مذہبی پیشوائوں سے ملاقات کرنی ہے، یہ لوگ بڑے متمدن ہیں، آپ اس لباس میں ان کے سامنے جائیںگے، تو ہماری اور آپ کی کیا عزت رہ جائے گی۔ اس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا :اے ابو عبیدہ! کاش یہ بات تمہارے سوا کوئی اور کہتا، تمہیں معلوم نہیں:ہم دنیا میں سب سے پست قوم تھے، تو اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت دی، تو جب بھی ہم اس کے سوا کسی اور چیز کے ذریعے عزت چاہیںگے تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔
پھٹے پرانے لباس میں بھی ان کا بلکہ ہمارے اسلاف کا رعب ودبدبہ تھا، مگرہمارا شاندار ملبوسات میں بھی نہیں۔وہ کھجور کی چپلیں پہنتے تھے، مگر رعب تھا، ہم قیمتی جوتوں میں بھی خار ہیں۔ وہ خچروں پر سفر کرتے تھے، مگر زمانہ ان کے نام سے کانپتا تھا، ہم بڑی بڑی گاڑیوں اور حشم وخدم میں بھی رسوائے زمانہ ہیں، آج مسلمانوں کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ دنیا میں نہ کہیں ان کی عزت وعظمت ہے نہ رعب ودبدبہ، دنیا کا کوئی ملک اور قوم اس سے نہیں ڈرتا اور وہ ہر کسی سے ڈرتا ہے،ساری دنیا میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ قیصر وکسریٰ جیسی دنیا کی سپر طاقتیں ان کے نام سے لرزہ براندام تھیں اور آج اس سے اسرائیل جیسا ذلیل وخوار مٹھی بھر تعداد بھی نہیں ڈرتا بلکہ انہیں ڈرا کر رکھتا اور ان پر مظالم ڈھاتا ہے۔ افرادی اعتبار سے آج مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ارب ہے۔ وسائل کے اعتبار سے ان کے پاس دولت وثروت اورپٹرول کی قوت ہے، معدنیات کے ذخائر اور کانیں بھی مسلم ملکوں میں زیادہ ہیں لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود مسلمان آج ساری قوموں سے زیادہ کمزور ولاغر اور مغلوب ہیں۔اس کی واحد بڑی وجہ ایمان کی کمزوری ، تعلیم سے دوری اور تحقیق وجستجو سے بے اعتنائی اوراللہ تعالیٰ کے بجائے خلق اللہ پر اعتماد اور باہمی تفرقہ بازی اور پھوٹ ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری عزت وسربلندی امریکہ وروس اور یورپ کی جوتیاں سیدھی کرنے ،ان کے تلوے چاٹنے ، ان کا حکم بجا لانے ، انکی ہدایتوں پر اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے اور عیاشی وبدکاری اور رقص وسرور کی محفلیں سجانے میں نہیں بلکہ ہماری عزت وسربلندی ہمارا عروج وترقی اور ہماری قوت اپنے دین پر عمل پیرا رہنے، ا پنی کتابِ ہدایت (قرآن) اور سنت نبویؐ کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے میں ہے۔ہم جس قدر اپنے دین کو تھامنے میں مضبوط ہوںگے اسی قدر ہماری قوم اور ہماری سیاست مضبوط ہوگی۔ یعنی امت مسلمہ کی طاقت وکمزوری کا مدار دین کی مضبوطی وکمزوری پر ہے اور ہم جس قدر دوسروں کے عقیدے پر یقین رکھیںگے جس قدر ان پر ہمارا بھروسہ ہوگا اور جس قدر ان کی مدد کے طلبگار ہوںگے ، اسی قدر ہم ان کے سامنے ذلیل وخوار اور بے وقعت ہوںگے۔ سچا مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کے امور ومعاملات پر توجہ دیتاہے، اس کے بول وبالا کے لئے فکر مند رہتا اور اس کے لئے تگ ودو کرتا ہے ، خواہ وہ حاکم ہو یا رعایا۔
امت مسلمہ جو جسد واحد کی طرح ہے، اس امت کے درد والم سے وہ گھٹتا اور ٹیس محسوس کرتا ہے اور اس کے مداوا کی تدبیریں کرتا ہے۔وہ دوسروں کے مصائب وآلام اور دوسرے بھائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر شاداں وفرحاں نہیں ہوتا اورنہ انہیں اور بھی عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور نہ ہی محض تماشائی کی طرح بے فکری کیساتھ اس کا تماشا دیکھتا ہے بلکہ وہ حکمت ودانائی کیساتھ ان مظالم وسفاکی اور یہود ونصاریٰ ودیگر ادیان ومذاہب کی دہشتگردیوں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا دین وایمان اور اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتاہے کہ وہ اپنے مشرق ومغرب کے مسلمانوں کو بچائے ، ان کی خلاصی ونجات کی صورت نکالے، وہ اس بدترین حالت سے امت کو باہر نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔وہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی کوشش کرتا، انہیں توڑنے اورخانوں میں بانٹنے کی تدبیریں نہیں کرتا۔
وہ امت مسلمہ کو ایک صف میں کھڑا کرنے کی سعی کرتا، فتنوں کو دور کرنے کے وسائل اختیار کرتا اورامت کے غم میں شب وروز کروٹیں بدلتا ہے۔ اپنے محلوں میں بیٹھ کر رقص وسرور کی محفلیں جما نے سے امت کے مصائب دور نہیں ہوتے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا اور ان کی وجہ سے پوری قوم قہر وعذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتی ہے۔آج بھی امت اگر اپنے تفرقے پسِ پشت ڈال دے، اپنی عیاشیوں اور بد کاریوں کو روک دے اوردین کو مضبوطی سے تھام کر اسکے مطابق عمل کرنے لگے اور کتاب وسنت کی روشنی میں فیصلے کرنے لگے کہ کس سے دوستی کرنی ہے اورکس سے نہیں ، کس کی ماننی ہے اور کس کی نہیں، تو بہت جلد اس کا ثمرہ ظاہر ہوگا اور وہ خیر امت ثابت ہوگی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم لوگ (اے مسلمانو!)سب سے بہتر امت ہو، جسے میدان میں لایا گیا ہے لوگوں کے بھلے کے لئے، تمہارا کام ہے نیکی کی تعلیم دینا، اور برائی سے روکنا، اور تم (بمقابلہ دوسروں کے ٹھیک طور پر صحیح معنوں میں)ایمان رکھتے ہو اللہ (وحدہ لاشریک)پر۔‘‘ (النساء )۔ اللہ کے نبی نے بالکل واضح اور دو ٹوک الفاظ میں ہمیں بتا دیا ہے کہ امت کی کمزوری ومضبوطی کا مدار کیا ہے۔ اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایا: دنیا کی قومیں تمہاری تباہی بربادی کیلئے ایک دوسرے کو بلائیںگی اور اسی طرح دعوت دیںگی جس طرح دعوتوں میں دسترخوان پر کھانے والوں کو بلایا جاتا ہے، اور وہ پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
صحابہ میں کسی نے عرض کیا کہ اس کی وجہ کیا یہ ہوگی کیاہم تعداد میں اس وقت کم ہوںگے؟ تو رسول اللہ نے فرمایا: نہیں بلکہ تم تعداد میں بہت ہوگے، مگر تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا دبدبہ نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دے گا، صحابہ نے کہا یہ کمزوری کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔‘‘(مسند احمد)۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حالت کا موازنہ اس حدیث سے کریں۔کیا آج امت مسلمہ کی حالت اس پیش گوئی کی عکاسی نہیں کررہی۔ غور کریں کہ مسلمانوں کو سیلاب کے جھاگ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں ثبات ہے، نہ کوئی قوت جسے تھپیڑے بہاتے چلے جاتے ہیں ۔ کیا آج ہم رسول اللہ کی دوسری پیشین گوئی کے مصداق نہیں بن گئے کہ سابقہ اقوام نے جو بھی برائیاں کی ہیں، سب ہم سے رونما ہورہے ہیں۔ کیا ہم مغربی اقوام کے پیچھے گوہ کی ضب میں داخل نہیں ہوچکے جبکہ یہ بِل نہایت تنگ وتاریک اور سخت بدبودار ہے۔ آج بلا شبہ ہماری کمزوری دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ہے، آج ہماری بزدلی کی یہ حالت ہے کہ گئورکشک ہمیں مار رہے ہیں، ذلیل کررہے ہیں، قتل کررہے ہیں مگر یہ اپنا دفاع کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ہماری حالت تاتاریوں کے وقت کی طرح ہوگئی کہ ایک تاتاری عورت کسی مسلمان کو کہتی تھی کہ تم یہیں ٹھہرو میں تلوار لے کر آتی ہوں ، تمہیں قتل کروںگی تو وہ وہیں رکا رہتا اور وہ گھر سے جا کر تلوار لاتی اور اسے قتل کردیتی تھی۔ آج یہ مختلف رکشک کے نام پر دہشت گردی وغنڈہ گردی کرنے والے ہمیں روکتے پھر ہتھیار لاتے اور ہمیں قتل کرتے ہیں، اور ہم قتل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی دنیا کی محبت ہے جس نے ہمیں کھوکھلا کردیا ہے۔ہم نے دین سے دور ہو کر دنیا ہی کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ہم جسم واحد تھے مگر آج ہمار ے جسم کا ہر عضو الگ اور منتشر ہوچکا ہے،دوسرے عضو کی تکلیف کا احساس ہمارے دلوں سے نکل چکا ہے، ان کے درد والم پر ہمارے کان پر جویں نہیں رینگتیں، جیسے وہ ان کا معاملہ نہ ہو جبکہ آج اس کی تو ،کل ہماری باری ہے۔ آج ہمارا شیرازہ منتشر ہے۔ کسی ایک بات پر ہمارے درمیان اتفاق نہیں ، ہم نماز میں ہاتھ باندھنے کے مقام اور رفع یدین کرنے یا نہ کرنے پر جھگڑ رہے ہیں اور دنیا ہماری تباہی کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔آج ہمارا دل ایمان ویقین اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اعتماد سے خالی ہوچکا ہے۔اے کاش کہ اب بھی ہم ہوش کے ناخن لیتے، اپنے اندر ایمانی قوت پیدا کرتے، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لیتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے۔ جس دل کی گہرائیوں میں ایمان ویقین ہوگا وہ مضبوط اور تناور درخت کی مانند تیز وتند آندھی وطوفان میں بھی اپنی جگہ کھڑا رہے گا اور مصائب وآلام کے جھونکے اور تیز ہوائیں انہیں متزلزل نہیں کریںگی۔ اے کاش کہ ہم اس راز کو سمجھتے اور اپنا رشتہ دین وایمان سے مضبوط کرنے کی فکر کرتے۔

شیئر: