طواف بیت اللہ ، آداب اور احکام
اگر کوئی ضرورت پیش آجائے تو جہاں سے طواف چھوڑے وہیں سے شروع کر کے مکمل کرے تو جائز ہے، شروع سے آغاز کرنا ضروری نہیں
محمد منیر قمر ۔ الخبر
طواف بیت اللہ کیلئے طہارت کاہونا ضروری ہے لہٰذا حیض اورنفاس (چھوٹے بچے )والی عورتیں توخون ِحیض ونفاس کے انقطاع اورغسل کے بغیر طواف نہ کریں جیساکہ صحیح بخاری ومسلم اوردیگر کتب حدیث میں مذکور حضرت عائشہؓ کے واقعۂ حیض سے پتہ چلتا ہے جس کی تفصیل گزرچکی ہے البتہ استحاضہ ، بواسیر ، سلسل بول اور سلسل ریح کی بیماری والوں کیلئے طواف کرنا اورنمازیں پڑھنا جائز ہے ۔
استحاضہ عورتوں کی ایک بیماری ہے جس میں حیض ونفاس کے علاوہ باقی عام دنوں میں بھی انہیں خون آتا رہتا ہے ۔ ایسی عورت کیلئے حکم یہ ہے کہ وہ حیض یانفاس کے خاص دنوں کے بعد غسل کریں اورنمازیں وغیرہ تمام کام کریں اوراس خونِ استحاضہ کے دوران تو وہ عورت اپنے شوہر کیلئے بھی حلال ہوتی ہے، وہ وظیفہ زوجیت اداکرسکتے ہیں اور اس کے نمازیں اداکرنے کا ذکرجواز توصحیح بخاری ومسلم میں بھی مذکور ہے ۔ استحاضہ والی ایک عورت کے طواف کے بارے میں موطا امام مالک اورسنن بیہقی میں ایک واقعہ مذکور ہے جس میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے انہیں غسل وطہارت اورکپڑا باندھ کر طواف کرنے کے جواز کا فتویٰ دیا تھا اورفرمایا تھا’’غسل کرو پھر (مقام مخصوص پر )کپڑا باندھو اورپھر طواف کرو۔‘‘
اس واقعہ وفتویٰ کے پیش نظر بھی اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ مستحاضہ عورت کاطواف صحیح ہے ۔استحاضہ پر قیاس کرتے ہوئے ہی سلسل بول (سلسل ریح اوربواسیر )والوں کا طواف بھی بالاتفاق صحیح ہے اورایسے شخص پر کوئی فدیہ بھی نہیں ۔بواسیر تومعروف ہے اورسلسل بول اس بیماری کو کہتے ہیں کہ جس میں مریض کو پیشاب اس طرح آتا ہے کہ اس کے قطرے گرتے ہی رہتے ہیں اورانہیں روکنے پر اسے کوئی اختیار نہیںہوتا اوریہی معاملہ سلسل ریح کاہے کہ ایسے مریض کی ہواخارج ہوتی رہتی ہے اوراسے روکنے سے وہ قاصر ہوتا ہے گویا ان سب مریضوں کاحکم مستحاضہ کا ہی ہے اوریہ بیماریاں ادائیگی حج میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں ۔
طواف کے دوران اگر کوئی ضرورت پیش آجائے مثلاًفرض نماز کی جماعت کھڑی ہوجائے ، جنازہ پڑھاجانے لگے یا پیاس وپیشاب جیسی کوئی بشری حاجت لاحق ہوجائے یاوضو ٹوٹ جائے تو طواف چھوڑ کر اس ضرورت کو پوراکرلیں یہ جائز ہے،پھر جہاں سے طواف چھوڑا تھا وہیں سے شروع کرکے اسے مکمل کرلیں اوریہی معاملہ صفا ومروہ کے مابین سعی کابھی ہے (المغنی ، فقہ السنہ)۔
صحیح بخاری شریف میں امام صاحبؒنے ایک باب’’باب اذا وقف فی الطواف ‘‘ قائم کیا ہے اوراسی باب کے ترجمہ میں حضرت ابن عمرؓ اورعبدالرحمن بن ابوبکرؓ اورامام عطا ؒ کے آثار کی طرف اشارہ فرمایا ہے اورامام عطا ؒکا تو پورا قول نقل کیا ہے جن سے مذکورہ امور کیلئے طواف کومنقطع کرنے اورپھر وہیں سے شروع کرنے کے جواز کا پتہ چلتا ہے اورجمہور کا یہی مسلک ہے چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اورمصنف عبدالرزاق میں اسی سے ملتاجلتا اثر موصولاً مروی ہے۔
ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام عطاؒ سے کہا کہ وہ طواف جسے نماز کی وجہ سے مجھے درمیان میں ہی چھوڑنا پڑے اس پہلے حصہ کو میں شمار کرلوں توکیا میرا طواف ہوجائے گا؟انہوںنے فرمایا: ہاں ہوجائے گا اگرچہ مجھے زیادہ محبوب یہ ہے کہ پہلے حصہ کوشمار نہ کیاجائے ،پھر میں نے پوچھا کہ7 چکر پورے کرنے سے پہلے ہی2 رکعتیں پڑھ لوں ؟تو انہوں نے فرمایا چکر پورے کرو سوائے ا س کے کہ تمہیں طواف سے روک دیاجائے اورسنن سعید بن منصور میںامام عطاؒہی کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص طواف کررہا ہو اورنما زجنازہ پڑھی جانے لگے تو وہ جنازے میںشامل ہوجائے اورپھر طواف کا بقیہ حصہ پورا کرلے اورصحیح بخاری کے’’ ترجمۃ الباب‘‘ میں اشارۃً اوراس سے ملتاجلتا اثر سنن سعید بن منصور میںموصولاًمروی ہے کہ جمیل بن زید بیان کرتے ہیں کہ میںنے حضرت عبداللہ بن عمر کو دیکھا کہ وہ طواف کررہے تھے تو نماز کی اقامت ہوگئی،انہوں نے لوگوں کے ساتھ نماز اداکی اورپھر جہاں سے طواف چھوڑاتھا وہیںسے شروع کر کے اسے مکمل کرلیا،اسی طرح ہی بخاری شریف میں ابن جریج ،امام عطا رحمہم اللہ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق نے عمروبن سعید کے امیرِ مکہ ہونے (یعنی امیر معاویہؓ کی خلافت)کے زمانے میں طواف کیا۔ عمر ونماز کیلئے نکلے اورعبدالرحمن سے کہنے لگے کہ مجھے مہلت دیں تاکہ میں طواف کے کسی طاق چکر کو مکمل کر کے نکلوں پھر 3چکر مکمل کر کے نکلے (اورنما زپڑھی) پھر آئے اوربقیہ طواف پوراکیا ۔
ان تمام آثار سے معلوم ہواکہ اگر کوئی ضرورت پیش آجائے تو جہاں سے طواف (یا سعی) چھوڑے وہیں سے شروع کر کے مکمل کرے تو جائز ہے، شروع سے آغاز کرنا ضروری نہیں ہاں اگر شروع سے آغاز کرکے طواف یا سعی کو مکمل کرتا ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے جیساکہ امام عطاء کے سابقہ قول سے معلوم ہوتا ہے ۔
جب طواف کے7 شوط (چکر )مکمل ہوجائیں تو’’رمل واضطباع‘‘میں گزری تفصیل کے پیش نظر اب اپنے دائیں کندھے کو بھی ڈھانپ لیں اوربابِ کعبہ (بیت اللہ شریف کے دروازے)کے سامنے موجود مقامِ ابراہیم کی طرف آجائیں اوروہاں آکر سورۃ البقرہ کی آیت 125کے یہ الفاظ پڑھیں :وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی’’اورمقامِ ابراہیم کو جائے نماز بنالو ۔‘‘کیونکہ صحیح مسلم وابودائود اورابن ماجہ ومسند احمد میں حضرت جابرؓ والی طویل حدیث میں ہے ’’آپ نے 7 چکروں پر مشتمل طواف کیا جن میں سے پہلے 3 رمل چال سے اور4 عام چال سے پورے کئے پھر مقام ابراہیم کی طرف تشریف لے گئے اوروہاں یہ الفاظ پڑھے : وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی۔‘‘
اورپھر مقامِ ابراہیم کو اپنے سامنے اس طرح رکھیں کہ کعبہ شریف اورمقام ابراہیم ایک سیدھ میں آپ کے سامنے آجائیں اورطواف کی 2 رکعتیں پڑھیں جیساکہ مذکورہ بالا حدیث کے ہی اگلے الفاظ یہ ہیں ’’(طواف مکمل کرنے کے بعد)پھرآپ نے 2ر کعتیں پڑھیں یوں کہ مقام ابراہیم کو اپنے اوربیت اللہ شریف کے درمیان کرلیا۔ ‘‘ان 2رکعتوں کاذکر صحیح بخاری ومسلم اورنسائی ومسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی حدیث میں بھی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں ’’جب آپ نے طواف مکمل کرلیا تو آپ نے مقام ابراہیم کے پاس 2رکعتیں پڑھیں ۔‘‘کوشش تو یہی ہونی چاہئے کہ مقام ابراہیم کے پاس اسی مسنون طریقہ سے 2رکعتیں پڑھی جائیں اوراگر بِھیڑ کی وجہ سے اورخصوصاًایام حج میں وہاں ایساکرنا ممکن نہ ہو تو پھر پوری مسجد حرام میں جہاں بھی جگہ ملے یہ2 رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں اورمقام ابراہیم وخانۂ کعبہ کوایک سیدھ میں اپنے سامنے رکھاجاسکتا ہے اوربھیڑ یا کسی دوسرے عذر کی وجہ سے مسجد ِ حرام کی کسی بھی جگہ حتیٰ کہ مسجد حرام سے باہر بھی یہ 2رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں اوراگر بھول ہی جائیں تو ان کی یاد آنے پر قضاء دی جا سکتی ہے ۔ وہ چاہے حرم میں ہویا خارج از حرم ، جمہور کا مسلک یہی ہے اورامام ابن المنذر فرماتے ہیں کہ یہ فرضوں سے بڑھ کر تو نہیں جس طرح بھول جانے اوریاد آنے پر ان کی قضاء ہے ویسے ہی ان کی بھی قضاء کرلے اوراس پر کوئی فدیہ بھی نہیں(فتح الباری)۔
ان 2 رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ کافرون اوردوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص پڑھیں کیونکہ مذکورہ بالا حدیثِ جابرؓ کی ایک روایت میں مذکور ہے ’’آپ نے (ان )2رکعتوں میںسورۃ الاحد اور سورۃ الکافرون پڑھیں۔‘‘ یہاں پہلے سورۃالکافرون کی بجائے سورۃالاخلاص کاذکر ہے جبکہ قرآن کریم میں ان دونوں کی ترتیب یوں ہے کہ پہلے سورہ ٔکافرون اورپھر سورہ ٔاخلاص ہے اورنسائی وبیہقی میں حدیثِ جابرؓ میں بھی پہلے قُلْ یَا أَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ اور پھر قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد پڑھنے کا ذکر ہے اور یہی ترتیبِ قرآنی کے مطابق بھی ہے ۔ان دونوں رکعتوں سے فارغ ہوکر اپنے لئے اوراپنے عزیز واقارب کیلئے دین ودنیا کی بھلائیوں کی دعائیں مانگیں ۔
طواف کی 2 رکعتوں اوردعائوں سے فارغ ہوکر آبِ زم زم کے پاس اس جگہ چلے جائیں جہاں بے شمار ٹوٹیوں کاانتظام کیاگیا ہے وہاں سے جی بھر کر آب زم زم پئیں اوراپنے سر پر بھی ڈالیں کہ یہ سنت ِ رسول ہے جیساکہ مسند احمد میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے ’’پھر آپ زم زم کی طرف چلے گئے، اسے پیا اوراپنے سراقدس پربھی ڈالا ۔ ‘‘آب زم زم وہ پانی ہے جس کے متعلق ابن ماجہ وبیہقی اورمسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے ’’آب ِ زمزم ہرمرض وغرض کیلئے مفید ہے ۔‘‘جبکہ صحیح مسلم اورمسند احمد وطیالسی میں ارشادِ رسالت مآب ہے ’’یہ مبارک پانی ہے، یہ بھوکے کیلئے کھانا اوربیمار کیلئے شفا بخش دوا ہے ۔ روئے زمین کا سب سے بہتر وافضل پانی ،آب زمزم ہے ۔‘‘
آب زمزم کی برکات کا اندازہ اسی بات سے کیاجاسکتا ہے کہ تاریخ امام بخاری اورترمذی شریف میںحضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ خود نبی اکرم بھی آبِ زمزم کے مشکیزے بھر بھر کر ساتھ لے جاتے تھے اورمریضوں کو پلاتے اوران پر چھڑکاکرتے تھے جبکہ بیہقی ومصنف عبدالرزاق میں ہے کہ فتح مکہ سے قبل جب آپ مدینہ منورہ میں تھے توآپ سہیل بن عَمروؓ کو پیغام بھیجا کرتے تھے کہ ہمیں آب زمزم کا ہدیہ بھیجتے رہو اوریہ سلسلہ ترک مت کرو چنانچہ وہ 2,2 مشکیزے بھر کرآپ کیلئے بھیجا کرتے تھے ۔
امام ابن تیمیہ ؒکے بقول سلف صالحین بھی اپنے ساتھ آب زم زم لے جایا کرتے تھے (بحوالہ مناسک الحج والعمرۃ )،علّامہ ابن قیم ؒ نے آب زم زم کے فضائل وبرکات کے علاوہ ا س کے مادی وطبی فوائد کاتذکرہ بھی بڑے عمدہ اورجامع انداز سے کیا ہے ( زاد المعاد،بتحقیق الارناؤوط)۔
سیر ت وسننِ مصطفی کی جامع ا س بے نظیر کتاب ’’زاد المعاد ‘‘کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے جسے نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا ہے اورپھر اس کے باب ’’طب نبویؐ ‘‘ کاالگ سے ترجمہ الدارالسلفیہ ممبئی نے بھی بڑی عمدگی سے شائع کردیا ہے ۔ الغرض آب زم زم خوب پیٹ بھر کر پینا چا ہئے اورواپسی پر اپنے ساتھ بھی لانا چا ہئے، یہ سنت وثواب اورثابت ہے اورآب زم زم پینے کیلئے بعض لوگ کھڑے ہونا ضروری یا اس کے آداب میں سے سمجھتے ہیں حالانکہ ایساہرگز نہیں یہ محض جائز تو ہے ضروری نہیں (للتفصیل : بخاری شریف باب ماجاء فی زمزم وفتح الباری)۔
بعض حجاج کرام بلکہ اکثر لوگ برکت کی غرض سے کفن کے کپڑے تھانوں کے حساب سے بھگو کر اپنے وطن لیجاتے ہیں اوران کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ زم زم میں تر کئے ہوئے کپڑوں میں مُردوں کوکفنانا باعثِ نجات ہے حالانکہ یہ سراسر عبث اورلا اصل بات ہے ۔ اگر عقائد واعمال درست نہیں تو یہ کفن بھی کسی کام نہیں آسکتا ۔ نجات کادار ومدار اللہ کی نظرِ کرم اورپھر اعمالِ صالحہ پر ہے، کفن کوزم زم میں بھگولینے، کفن پر کچھ لکھ دینے یا تعویذ گنڈوں سے یہ کام چل سکتا ہوتا توپھر کسی کو عمل کی ضرورت ہی کیا تھی۔ بے عملی کا تو پہلے ہی دوردورہ ہے ، ایسے نظریات بے عملی پر مزید اکسانے کاسبب بنتے ہیں اورپھر نبی اکرم ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین، تابعین عظام رحمہم اللہ کسی سے بھی زم زم میں کپڑوں کوبھگونے اورنقدی سکوں کوڈبونے کاثبوت نہیں ملتا۔
دار قطنی ومستدرک میں مذکور ایک ضعیف روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ آب زم زم پیتے وقت یہ دعاء کیاکرتے تھے :الَلّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعَاً ورِزْقَاً وَاسِعاً وَشِفَائً مِّنْ کُلِّ دَائٍ’’اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، وسیع رزق اورہر قسم کی بیماری سے شفاء کاسوال کرتا ہوں ۔‘‘
جب آب زم زم پی کر فارغ ہوجائیں تو ایک مرتبہ پھر حجر اسود پر چلے جائیں اورسابقہ تفصیل کے مطابق اسے بوسہ دیں ، چھوئیں یا اشارہ کریں کیونکہ صحیح مسلم اوردیگر کتب میں مذکور حدیثِ جابرؓ میں ہے ’’(نماز طواف کے بعد)آپ پھر حجر اسود کی طرف تشریف لے گئے اوراس کا استلام کیا اورپھر بابِ صفا کے راستے صفا کی طرف (سعی کیلئے) نکل گئے۔‘‘
سعی کرنے کیلئے صفا ومروہ کی طرف جانے سے پہلے اورطواف ونماز ِطواف سے فارغ ہوکر پھر جب آپ حجر اسود کااستلام کریں گے تو اس طرح آپ سے طواف کا اول وآخر بھی نبی کی طرح استلام حجر اسود پر ہی ہوگا ۔