طواف بیت اللہ، قبولیتِ دعا کا موقع
دورانِ طواف اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کریں،دعائیں مانگیں اورلایعنی گفتگو سے اجتناب کریں،بیت اللہ کا طواف بھی نماز ہی ہے
محمد منیر قمر۔ الخبر
طواف کرتے وقت یہ بات اچھی طرح ذہن میںرکھیں کہ حطیم سمیت پورے بیت اللہ شریف کا طواف کرنا ضروری ہے کیونکہ خانۂ کعبہ کے ساتھ ہی شمالی جانب میں قوس یا نیم دائرے کی شکل میںبنی ہوئی یہ جگہ حطیم بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے جو قریش نے مالی کمزوری کی وجہ سے تعمیر کعبہ کے وقت چھوڑ دی تھی جیساکہ صحیح بخاری ومسلم میںحضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت موجود ہے ۔ حطیم کاہی ایک نام حجر ا سماعیل ؑ بھی ہے ،صحیح بخاری میں مذکور ایک حدیث میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے :
’’جو شخص طواف کرے اسے حطیم کے باہر سے کرنا چاہئے۔ ‘‘
اس پر قرآنِ کریم کی ایک آیت سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ حج آیت29میںفرمایا ہے :
’’اورچاہئے کہ اس قدیم گھر (بیت اللہ شریف )کا طواف کریں ۔‘‘
اورظاہر ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کے طواف کا حکم فرمایا ہے اوروہ تبھی پورا ہوتاہے جب سارے بیت اللہ کاطواف ہو اور حطیم کوچھوڑدیا جائے توپھر پورے گھر کا نہیں بلکہ ا س کے کچھ حصے کا ناقص طواف ہوتا ہے ۔
طواف کے ساتوں چکروں میں سے ہرچکر میں رکنِ یمانی کو ہاتھ سے چھونا بھی سنت وثواب ہے جیساکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے :
’’ہم نے ان 2رکنوں( رکن یمانی اورحجر اسود) کوچھونا نہیں چھوڑا، چاہے شدت ہو یانرمی اوریہ تب سے ہے جب سے میںنے نبی کو انہیں چھوتے دیکھا ہے ۔‘‘
مگر رکن یمانی کوبوسہ دینا یااسے ہاتھ سے چھوکر اپنے ہاتھ کوچومنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔اگر زیادہ بھیڑ کی وجہ سے اسے چھونا ممکن نہ ہو توا س طرف اشارہ کرنا بھی مشروع نہیں ۔مذکورہ افعال (چومنا اوراشارہ کرنا )حجر اسود کے ساتھ خاص ہیں جبکہ رکن یمانی حجر اسود والے کونے سے پہلے کونے میں بیت اللہ کی جنوبی دیوار میں نصب ہے ۔
یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھیں کہ بیت اللہ شریف کی شمالی دیوار میں نصب رکنِ عراقی اورمغربی دیوار میں رکنِ شامی ہے۔ ان دونوں رکنوں کو ، پورے بیت اللہ کے درودیوار کواور حجراسود وملتزم کوچھوڑکر اس کے تمام اطراف وجوانب،مقام ابراہیم اور حجر اسماعیل (حطیم) کسی کو بھی بوسہ دینا،چھونا یا اشارہ کرنا مشروع وثابت نہیں اور امام ابن تیمیہؒ نے اس بات پر چاروں ائمہ کااتفاق ذکر کیا ہے ۔
صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے :
’’میںنے نبی کورکنِ یمانی اورحجرِ اسود کے سوا کسی چیز کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔‘‘
رکن یمانی اورحجر اسود دونوں کو’’رکنین یمانیین ‘‘کہاجاتا ہے جبکہ دوسرے دونوں رکنوں کو ’’رکنین شامیین ‘‘ کہاجاتا ہے ۔ ابودائود ونسائی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓسے مروی ایک حدیث میں وہ فرماتے ہیں :
’’نبی طواف کے ساتوں چکروں میں سے ہر چکر میں رکن یمانی اورحجراسود کوچھواکرتے تھے اورحجر کی طرف والے دونوں رکنوں (رکن عراقی وشامی) کونہیں چھوتے تھے ۔‘‘
ایسے ہی مصنف عبدالرزاق ، مسند احمد اوربیہقی میں حضرت یعلیٰ بن امیہؒسے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ (اورایک روایت میں حضرت عثمانؓ ہے) کے ساتھ طواف کیا۔ جب میںاس رکن کے پاس تھا جو بابِ کعبہ کے آگے والے کو نے میں نصب ہے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا کہ اس کا استلام کریں، تو انہوں نے فرمایا:
’’کیا تم نے کبھی نبی کے ساتھ طواف نہیں کیا ؟‘‘
میںنے عرض کیا ، نہیں ، تو انہوں نے فرمایا :
’’تو پھر تم اسے چھونے کا خیال چھوڑو کیونکہ تمہارے لئے نبی کی ذات گرامی ایک بہترین نمونہ ہے ۔‘‘
طواف ، حج کا ایک اہم رکن ہے اورقربِ کعبہ کی بنا پر قبولیتِ دعاء کا وقت وموقع بھی لہٰذا حجاج کرام کو چاہئے کہ دورانِ طواف اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کریں اوردعائیں مانگیں اورلایعنی گفتگو سے کلی اجتناب کریں کیونکہ نبی اکرم نے اس سے منع فرمایا ہے جیساکہ ترمذی ، ابن خزیمہ وابن حبان ، دارمی ،مستدرک حاکم اوربیہقی میں مرفوعا ًاورنسائی ومسند احمد میں حضرت ابن عباسؓ سے موقوفاًمروی ہے :
’’بیت اللہ کا طواف کرنا بھی نماز ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں بات چیت کو حلال قراردیا ہے،بس جو کوئی بات کرے تو اسے چاہئے کہ کوئی بھلائی کی ہی بات کرے (موقوف روایت میں ہے: )جب تم طواف کرو تو بہت کم گفتگو کرو۔‘‘
صحیح بخاری’’باب الکلام فی الطواف ‘‘میں بھی ایسی ہی ایک حدیث مذکور ہے اگرچہ وہ مطلق نہیں ۔
چند ایک دعائوں کے سوا دورانِ طواف کوئی مخصوص دعاء یا ذکر صحیح سند سے ثابت نہیں لہٰذا قرآن وحدیث کی عام دعائوں میں سے جوجی چاہے ذکر ودعاء کریں جائز ہے۔ابودائود ، ابن حبان ، مسند احمد اورمستدرک حاکم میں ایک حدیث ہے جسے بعض کبار محدثین مثلاًابن حبان، حاکم، ذہبی، شوکانی اورالبانی نے صحیح قراردیا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن سائبؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے نبی اکرم کو رکن یمانی اورحجر اسود کے درمیان یہ دعاء کرتے سنا : رَبَّنا اٰتِنافِی الدُّنیا......الآخر ۔
’’اے اللہ! ہمیں دنیا وآخرت کی بھلائیاں عطافرما اورہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔‘‘
اس دعاء کے علاوہ ایک دعاء بیت اللہ شریف کے پرنالے (میزابِ رحمت )کے نیچے کی جاتی ہے ، وہ اورایسی ہی دیگر دعائوں کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کافیصلہ ہے کہ ان میں سے کسی کی کوئی اصل نہیں یعنی وہ سب بے بنیاد اورمن گھڑت ہیں لہٰذا بعض ایسی مخصوص دعائوں سے قطع نظر جوجی میں آئے مانگیں۔ ہمارے نبی امت کیلئے نہایت آسان دین لائے مگر افسوس کہ ہم نے ان آسانیوں سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ دین کوخود ہی مشکل بنالیا ہے جس کی ایک مثال یہی ہے کہ ذرا طواف کی ان دعائوں پر ہی غور کرلیں جو ساتوں چکروں کیلئے معلّموں نے علیحدہ علیحدہ تجویز کررکھی ہیں اورچھوٹی چھوٹی کتابوں میں حرمین شریفین بلکہ دیگر ممالک میں بھی عام بکتی ہیں جبکہ وہ دعائیں قرآن یا حدیث کسی سے بھی اس طرح ثابت نہیں کہ فلاں الفاظ طواف کے فلاں چکر میںدہرائے جائیں بلکہ وہ دعائیں سراسر خانہ ساز اورمن گھڑت ہیں جنہیں طواف کے چکروں پر تقسیم کردیا گیا ہے ۔ انہیں یاد کرتے کرتے لوگ مہینوں گزاردیتے ہیں لیکن پھر بھی وہ انہیں یاد نہیں کرپاتے حتیٰ کہ طواف کاوقت آجاتا ہے ۔پھر یہ لوگ ان معلّموں کے رحم وکرم پر ہی ہوتے ہیں جو انہیں طواف کرواتے ہیں۔ آگے آگے وہ خود ان خانہ ساز دعائوں کو دہراتے جاتے ہیں اوران کے پیچھے پیچھے طوطے کی طرح ہمارے سادہ دل حاجی حضرات ان دعائوں کو دہراتے جاتے ہیں ۔ اس طرح یہ طواف ایک رسمی سی عبادت بن کر رہ جاتی ہے اوراس کی اصل روح غائب ہوجاتی ہے لہٰذا ان مصنوعی دعائوں کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے بلکہ قرآن وسنت میں سے ثابت شدہ ومسنون دعائیں پڑھنے میں ہی تمام تر فضائل وبرکات، اجر وثواب اوراطمینانِ قلب وروح ہے اوراگر وہ یاد نہ ہوں توپھر جو جی میں آئے اورجس زبان میں بھی ہوں، دعائیں کرتے جائیں کوئی پابندی نہیں ۔
طواف کرتے وقت یہ بات بھی پیشِ نظر رکھیںکہ بیت اللہ کے جتنا قریب ہوکر طواف کیاجائے اتنا ہی افضل ہے اوراگر بھیڑ کی وجہ سے بیت اللہ کے قریب ہوکر طواف کرنا ممکن نہ ہو تو پھر مقام ابراہیم کے باہر بلکہ پوری مسجد کے کسی بھی حصہ میں ممکن ہو تب بھی طواف صحیح ہوگا ،علامہ ابن باز کابھی یہی فتویٰ ہے ۔
حجۃ الوادع کے موقع پر نبی اکرم نے تو اونٹنی پر سوار ہوکر طواف کیا تھا جیساکہ احادیث گزری ہیں اورصحیح مسلم میں مذکور حدیث جابر ؓ میںاونٹ پر سوار ہوکر طواف کرنے کی وجہ یوں مذکور ہے :
’’نبی نے اونٹ پر سوار ہوکر طواف اس لئے کیاتا کہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور (مناسک حج کے بارے میں)پوچھ سکیں۔ ‘‘
لوگوں کی کثرت میں اگر آپ بھی پیدل ہی طواف کرتے تو ظاہر ہے کہ بہت سے مسائل کثیر صحابہؓ سے پوشیدہ رہ جاتے اورپھر جو لوگ مناسک حج میںسے کوئی مسئلہ پوچھنا چاہتے وہ آپ کو سامنے نہ پاکر پوچھ نہ پاتے لہٰذا آپ نے لوگوں کو مناسک حج اور طریقۂ طواف کی تعلیم کیلئے سوار ہوکر طواف کرنا اختیار فرمایا جو کہ ایک بہت بڑی مصلحت تھی۔حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ابودائود کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ نبی (حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ )آئے جبکہ آپ کوئی تکلیف محسوس کررہے تھے لہٰذا آپ نے اپنی سواری پر بیٹھ کر طواف کیا ۔ موصوف فرماتے ہیں کہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ نے دونوں ہی اسباب کیلئے ایسا کیا ہو لہٰذا بلا عذر سوار ہوکر طواف کرنے کے عدم جوا زکا پہلو ہی راجح ہے اورفقہاء کے نزدیک سوارہوکر محض جائز مگر پیدل طواف کرنا افضل ہے ۔
بہر حال افضل واولیٰ تو یہی ہے کہ پیدل طواف کریں البتہ اگر کوئی عذر ہوتو سواری پر بیٹھ کر طواف جائز ہے ، خصوصاًاگر کوئی شخص لاغر ،بیمار اورنحیف ونزار ہویاپھر کوئی بچہ ہو جو خود سے چل پھر نہ سکتا ہو تو انہیں اٹھاکر یا سوار ی پر بٹھاکر طواف کروانا اورصفا ومروہ کی سعی کروانا جائز ہے جیساکہ مذکورہ احادیث سے پتہ چلتا ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری ومسلم ،ابودائود ونسائی اوربیہقی میں ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے
مروی ہے :
’’میں نے نبی سے اپنی تکلیف بیان کی تو آپ نے فرمایا: تم لوگوں سے باہر کی جانب سوار ی پر بیٹھ کر طواف کرلو ، چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا جبکہ نبی بیت اللہ کے پاس سورہ :وَالطُّوْرِ وَکِتَابٍ مَّسْطُوْرِ کی تلاوت فرمارہے تھے ۔‘‘